46۔ علم کی تقسیم
سَلُوْنِی قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۱۸۷)
مجھے کھو دینے سے پہلے مجھ سے پوچھ لو۔
انسان کو عقل و شعور کے بعد جو سب سے بڑی دولت دی گئی ہے اس کا نام علم ہے۔ علم اتنی وسیع اور اہم دولت ہے کہ اللہ سبحانہ نے پیغمبر اکرمؐ سے فرمایا کہ اس کے اضافے کی دعا مجھ سے مانگتے رہو اور اللہ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ جنھیں علم ملا اور جنھیں نہیں ملا وہ برابر نہیں ہو سکتے۔ انہی صاحبان علم میں سے ایک ذات امیرالمؤمنینؑ کی ہے جو فرماتے ہیں مجھے رسولؐ اللہ نے یوں علم سکھایا جیسے پرندہ اپنے بچوں کو غذا منتقل کرتا ہے اور فرمایا: میں زمین کی راہوں سے آسمان کے راستوں سے زیادہ واقف ہوں۔
اب کامل انسان کو جب یہ دولت علم ملی تو ہر وقت اعلان کر کے اسے تقسیم کر رہا ہے۔ مجھ سے لے لو، مجھ سے پوچھ لو، کبھی افسوس کرتے ہیں کہ کاش کوئی لینے والا مل جاتا۔ اس کردار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کامل انسان چاہتا ہے کہ اس سے دوسرے لوگ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ میں نے جو سیکھا ہے اسے دوسروں کی بہتری کے لیے استعمال کروں۔
آج کا استاد و معلم یا کوئی ہنر مند اپنے اندر یہ جذبہ پیدا کر لے کہ میں نے دولت علم تقسیم کرنی ہے تو قوم کے حالات بدل سکتے ہیں۔ علم کو بھی ذریعہ معاش بنانے کے بجائے ذریعہ کمال و سعادت سمجھا جائے تو انسانیت کی ترقی کی راہیں کھل جائیں۔ سخاوت فقط اسے نہ جانا جائے کہ چند پیسے کسی کو دے دیے بلکہ حقیقی سخاوت یہی ہے کہ علم و ہنر بانٹ کر دوسروں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ معاشی طور پر اتنے مضبوط ہو جائیں کہ خود کفیل ہو جائیں۔
امیرالمؤمنینؑ کے سَلُوْنِیْ کے اس دعوے کو آپ کی عظمت کے ساتھ خدمت انسانی کے جذبے کے طور پر دیکھا جائے اور یہی جذبہ ہر صاحب علم اپنے اندر پیدا کرے کہ لوگ اس سے سیکھ سکیں۔