47۔ تواضع
وَاعْتَمِدُوْا وَضْعَ التَّذَلُّلِ عَلٰی رُءُوسِکُمْ۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۰)
عجز و انکساری کو سر کا تاج بنانے کا عزم بالجزم کرو۔
انسان کو جو مقام و عظمت ملی ہے اسے اس کی پہچان ہونی چاہیے اور اس عظمت کے ملنے کے سبب سے بھی واقفیت ہونی چاہیے تب وہ اس مقام کی حفاظت کر سکے گا۔ خود کو بلند سمجھنے اور کہنے سے بڑائی نہیں ملتی بلکہ انسان کو یہ مقام تواضع کی وجہ سے نصیب ہوتا ہے۔
تواضع کا سب سے پہلا مقام اللہ کے سامنے ہے جس نے انسان کو باقی مخلوقات پر فضیلت بخشی اور اللہ کے سامنے تواضع کا خوبصورت ترین انداز اس کے حضور سجدہ ہے۔ سجدے کا انکار تکبر ہے اور یہی انکار یا تکبر ابلیس کو ذلت میں ڈال دیتا ہے۔ اس سے انسان کو یہ سیکھنا چاہیے کہ کمال و بزرگی غرور و تکبر سے نہیں عجز و انکساری سے ملتی ہے۔ یاد رہے شیطان کا تکبر اللہ کی ایک نئی مخلوق آدمؑ کے مقابلے میں تھا جو اللہ کو اتنا نا پسند ہوا کہ شیطان کو دربار سے نکال دیا۔ اس لیے اللہ کی مخلوق کے سامنے تکبر سے بچا جائے۔
امیرالمؤمنینؑ نہج البلاغہ کے سب سے تفصیلی خطبے میں اس مرضِ تکبر سے اور اس کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہیں اور اس مرضِ تکبر کے علاج سے مطلع فرماتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’عجز و انکساری اور تواضع کو اپنے سر کا تاج بنا لو، تکبر و خود بینی کو پاؤں تلے روند ڈالو اور رعونت کا طوق گردن سے اتار پھینکو۔ اپنے اور اپنے دشمن شیطان اور اس کی سپاہ کے درمیان تواضع و فروتنی کا مورچہ قائم کرو‘‘۔
انسان جب خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے تو اللہ اسے بلند کرتا ہے اور انسان جب دوسروں کے لیے اپنے کندھے جھکا کر انھیں بلند کرتا ہے اورکندھوں پر بٹھاتا ہے، اس کے کندھے دوسروں کے بلند ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں تو بندوں کے دلوں میں اس کا مقام بڑھتا ہے اور یہی تواضع و عاجزی اسے بندوں میں بلند کر دیتی ہے۔