شمع زندگی

48۔ پختہ ارادہ

جَعَلَ رُسُلَهٗ اُوْلِيْ قُوَّةٍ فِیْ عَزَائِمِهِمْ۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۰)
اللہ سبحانہ اپنے رسولوں کو ارادوں میں قوی کر دیتا ہے۔

انسان کو خلق کر کے اللہ سبحانہ نے اسے کمال تک پہنچنے کی راہیں بتائیں اور انہی انسانوں میں سے نبیوں اور رسولوں کی صورت میں کامل انسان نمونے کے طور پر اور ہدایت و راہنمائی کے لیے منتخب فرمائے۔ بار بار ان کی تعریف کی اور ان کی عظمت کو بیان کیا۔ یہ انبیاء و رسل یا انسانیت کی عزت و عظمت کے نمونے، کس بنا پر اس مقام کو پہنچے اس کی وضاحت امیرالمؤمنینؑ یہاں بیان فرما رہے ہیں۔ اگر کوئی با کمال و کامیاب انسان بننا چاہتا ہے تو ان انبیاء کی پیروی کرے۔

آپؑ فرماتے ہیں “اگر اللہ چاہتا تو نبیوں کے لیے سونے کے خزانوں اور خالص طلا کی کانوں کے منہ کھول دیتا، باغ ان کے لیے مہیا کر دیتا تو کر سکتا تھا‘‘ دنیا کی سب سہولیات اور اور مال و متاع انہیں دے سکتا تھا مگر اللہ نے ان میں سے کچھ نہیں دیا اگر یہ سب کچھ نبیوں کے پاس ہوتا اور لوگ اتباع کرتے تو خلوص کا پتہ نہ چلتا کہ مال و سہولیات کی پیروی کی جا رہی ہے یا شخصیت و کردار کی۔

امیرالمؤمنینؑ نے واضح فرمایا کہ وہ ان نعمات کی وجہ سے با کمال نہیں بنے بلکہ اللہ نے انہیں پختہ و قوی ارادوں کا مالک بنایا اور قناعت کی دولت سے نوازا۔ گویا پختہ ارادہ اور قناعت جیسے اوصاف حقیقت میں بزرگی و کمال کا ذریعہ و سبب ہیں۔

آج بھی اگر انسان ان بلندیوں کو پانا چاہتا ہے تو ایک سبب پختہ ارادہ و عزم ہے۔ انبیاءؑ کی زندگی کو دیکھا جائے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر مشکلات کے پہاڑ، ابراہیمؑ کے لیے تنہائی اور ہر طرف سے دشمنی اور آگ اور خاتم الانبیاؐء کے لیے سب اذیت اور تکلیفوں کا یک جا ہو جانا، ان شخصیات کے پختہ ارادوں کو متزلزل نہ کر سکا اور ان کی سیرت آج بھی ان کے اسی قوی عزم جیسے اوصاف کی وجہ سے زندہ و باقی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button