49۔ اچھے اخلاق
فَاِنْ كَانَ لَا بُدَّ مِنَ الْعَصَبِيَّةِ، فَلْيَكُنْ تَعَصُّبُكُمْ لِمَكَارِمِ الْخِصَالِ۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۰)
اگر تمھیں فخر ہی کرنا ہے تو پاکیزگیٔ اخلاق پر فخر و ناز کرو۔
انسان کی فطرت میں مقابلے کا جذبہ پایا جاتا ہے وہ مختلف معاملات میں خود کو دوسروں سے بہتر بنانا چاہتا ہے اور جب خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے یا بہتر بن جاتا ہے تو اس پر فخر و ناز کرتا ہے۔ قرآن مجید نے بھی انسان کے مقابلے کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے مگر ارشاد فرمایا کہ اچھائیوں کی طرف ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرو۔ امیرالمؤمنینؑ نے اپنے اس بیان میں شدت سے تکبر کی مذمت کی مگر ان کلمات میں ارشاد فرمایا کہ اگر فخر و ناز ہی کرنا ہے تو مال و دولت کے بجائے اچھائیوں پر ایک دوسرے سے سبقت اور برتری حاصل کرو اور فخر و ناز کرو۔
آپؑ نے کچھ اچھے خصائل کو بطور نمونہ ذکر فرمایا کہ فخر ہی کرنا ہے تو انھیں حاصل کرو اور ان پر فخر کرو۔ فرمایا پاکیزہ اخلاق، کردار کی بلندی، حسن سیرت، ہمسایوں کے حقوق کی حفاظت، عہد و پیمان کو نبھانا، نیک لوگوں کی اطاعت، سرکشوں کی مخالفت، حسن سلوک کے پابندی، ظلم و سرکشی سے کنارہ کشی، خونریزی سے پناہ مانگنا، خلق خدا سے عدل و انصاف سے پیش آنا، غصہ کو پی جانا اور زمین پر شر انگیزی سے دامن بچانا، جیسے اخلاقیات کو اپناؤ اور ان پر فخر و ناز کرو۔
حقیقت میں ایک طرف غرور وتکبرکی کمزوری سے آگاہ کر کے بچنے کی تاکید فرمائی اور ساتھ ہی اچھائیوں کی فہرست مہیا کر کے مقابلے کا میدان کھول دیا۔ لفظ تکبر اکثر مذموم چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر امام علیؑ کی اپنی زندگی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آپؑ کی یہ مشہور مناجات ہیں۔ خدا میری عزت کے لیے یہ کافی ہے کہ میں تیرا بندہ ہوں اور میرے فخر کے لیے یہی کافی ہے کہ تو میرا رب ہے۔
یہ اچھائیوں کی ترغیب و تشویق کا ایک خوبصورت طریقہ ہے اور جو اس راہ کو طے کرے گا وہ کامیاب و کامل انسان بنے گا۔