شمع زندگی

51۔ کامل انسان

لَا يَرْضَوْنَ مِنْ اَعْمَالِهِمُ الْقَلِيْلَ وَلَا يَسْتَكْثِرُوْنَ الْكَثِيْرَ۔ (نہج البلاغہ خطبہ۱۹۱)
وہ اپنے اعمال کی کم مقدار سے مطمئن نہیں ہوتے اور زیادہ کو زیادہ نہیں سمجھتے۔

انسان کی راہنمائی کے دو طریقے ہیں یا انھیں کہا جائے کہ یہ کریں اور یہ نہ کریں اور یا انھیں نمونے دکھائے جاتے ہیں کہ ان جیسے اعمال انجام دیں۔ کامل انسانوں کے اوصاف اگر یکجا دیکھنے ہوں تو امیرالمؤمنینؑ کے اس خطبے میں موجود ہیں۔ ان اوصاف و فضائل میں سے ایک یہ ہے کہ کامل انسان کبھی مطمئن ہو کر بیٹھ نہیں جاتا کہ اب بہت کچھ حاصل کر لیا ہے اس لیے اب کافی ہے بلکہ وہ کمال کی مزید بلندیاں طے کرتا رہتا ہے۔

وہ کبھی چھوٹا سا عمل انجام دے کر اسے اہمیت دے کر اور بڑھا چڑھا کر پیش کر کے راضی نہیں ہو جاتا کہ مجھے جو کچھ کرنا تھا کر لیا اگر ظاہری طور پر لوگوں کی نگاہ میں بہت سے کام انجام دے لیے تو بھی انھیں بہت نہیں سمجھتا اس لیے کہ وہ ڈرتا ہے کہ اس میں سے کتنے قبول ہوں گے۔ یہ سوچ بلند ہمتی کی نشانی ہے۔ ان کے مقابلے میں وہ کم ہمت اور پست فکر لوگ ہوتے ہیں جو تھوڑا سا عمل انجام دے کر مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں بلکہ اس پر فخر کرتے پھرتے ہیں اور اس کی وجہ سے خود کو عظیم سمجھنے لگتے ہیں۔

ان اعمال سے عبادات بھی مراد لی جا سکتی ہیں مگر معاشرے کی خدمت میں انجام دیے جانے والے امور بھی یقیناً ان میں شامل ہیں۔ بڑے لوگ معاشرتی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں زندگیاں خرچ کر دیتے ہیں اور پھر بھی یہ کہتے ہیں۔

جان دی دی اُسی کی تھی

حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button