52۔ بھلائی کی توقع
اَلْخَيْرُ مِنْهُ مَاْمُولٌ وَ الشَّرُّ مِنْهُ مَاْمُونٌ۔ (نہج البلاغہ خطبہ۱۹۱)
(متقی) سے بھلائی ہی کی توقع ہو سکتی ہے اور اس سے کسی تکلیف کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔
انسان کامل اُس چراغ کے مانند ہے جو خود جلتا ہے اور دوسروں کو روشنی دیتا ہے۔ انسان کامل اُس کشتی کے مانند ہے جو طوفان و طغیانی سے خود ٹکراتی رہتی ہے مگر اپنے سواروں کو غرق ہونے سے بچاتی ہے۔
انسان کامل کے اوصاف میں سے ہے کہ وہ جہاں ہو اور جس حال میں ہو اپنی ذات پر مشکلات کو برداشت کرے گا مگر کسی کے لئے مشکل پیدا نہیں کرے گا۔ ہر کوئی اس سے ہمیشہ اچھائی اور بھلائی ہی دیکھتا ہے اس لیے آئندہ بھی خیر اور نیکی ہی کی توقع اور امید رکھے گا۔ کوئی اس سے زیادتی بھی کر لے تو یہ زیادتی نہیں کرے گا۔ اپنے حق سے تجاوز نہیں کرے گا۔ لوگ اس کے شر سے محفوظ ہوں گے۔ دشمن بھی اس سے اچھائی ہی کی توقع و امید رکھیں گے۔ دشمن رسول اللہﷺ کو شب ہجرت قتل کرنےکے لیے تیار تھے مگر انہیں یہ خطرہ نہیں تھا کہ ہماری امانتوں میں خیانت ہوگی۔
اس خطبے میں امیرالمؤمنینؑ نے انسان کامل کے دیگر اوصاف میں فرمایا: ’’جو اس پر ظلم کرتا ہے یہ اس سے درگزر کرتا ہے، جو اسے محروم کرتا ہے اس کی باری آئے تو اس کا دامن عطا سے بھر دیتا ہے۔ جو اس سے تعلق توڑتا ہے یہ اس سے تعلق جوڑتا ہے۔ انسان کامل کسی کا دشمن بھی ہو تو اس کے خلاف بے جا زیادتی نہیں کرتا اور جس کا دوست ہوتا ہے اس کی خاطر کوئی گناہ و قانون شکنی نہیں کرتا، امانت کو ضائع نہیں کرتا، ہمسائیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتا۔ نہ دوسروں کی مصیبت پر خوش ہوتا ہے، نہ باطل کی سرحدوں میں داخل ہوتا ہے، نہ جادہ حق سے قدم باہر نکالتا ہے‘‘۔
انسان کامل خیرات و برکات کا منبع و سرچشمہ ہوتا ہے، اس پھل دار درخت کے مانند ہوتا ہے کہ لوگ اس کے نیچے آ کر پھل اور سایہ حاصل کرتے ہیں اور اگر کوئی اِسے پتھر مارے تو اُسے بھی بدلے میں پھل دیتے ہیں اور سائے سے محروم نہیں کرتے۔