شمع زندگی

56۔ حلال کا استعمال

اَ تَرَى اللهَ اَحَلَّ لَكَ الطَّيِّبَاتِ، وَهُوَ يَكْرَهُ اَنْ تَاْخُذَهَا۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۲۰۷)
اللہ نے جن چیزوں کو حلال قرار دیا ان کا استعمال اسے برا نہیں لگتا۔

انسان اگر اپنی زندگی کے معیار خود بنانا شروع کر دے تو اکثر اشتباہ کرتا ہے۔ کبھی مال و دولت ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے اور اپنی قیمتی زندگی اس کے حصول کے لیے وقف کر دیتا ہے اور کبھی کمال زندگی یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اس دنیا سے لا تعلق ہو جائے اور مسجد و نماز ہی میں مشغول رہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس کلام میں دونوں پہلوؤں کی اصلاح کی اور واضح فرمایا کہ دنیا تب قابل مذمت ہے جب اسے اپنی زندگی کا ہدف بنا لیا جائے اور انسان خواہشات کا قیدی اور دنیا پرست بن جائے اور وہ تارک دنیا بھی قابل تعر یف نہیں جو اپنے فرائض کو بھلا کر اور خاندان کو بے سرپرست چھوڑ کر بلکہ کبھی خود کو دوسروں کے سر ڈال کر عبادتوں میں مشغول ہو جائے۔

انسان کی ذمہ داری ہے کہ ان دونوں راہوں یعنی دنیا کی غلامی اور دنیا سے فرار کی درمیانی راہ اختیار کرے اور اعتدال پسندی سے کام لے۔ اس کلام میں آپ نے ایک شخص کو جو گھر بار اور آل اولاد کو چھوڑ کر دنیا سے بے تعلق ہو گیا تھا اپنی جان کا دشمن کہہ کر اور شیطان کا تابع فرمان کہہ کر پکارا۔ یہ فرمان یہ واضح کرتا ہے کہ اللہ نے جن چیزوں کو پاک و حلال قرار دیا ہے ان کا استعمال ہی صحیح زندگی ہے اور اپنے بیوی بچوں کو بھی دنیا کی نعمات اور زندگی کی آسائش مہیا کرے۔ اس فرمان کے مطابق اہل و عیال کی زندگی کو بہتر کرنے کے لیے کوشش بھی ایک عبادت شمار ہوگی۔

انسان کو چاہیے کہ اللہ نے جسے حلال قرار دیا ہے اسے اللہ کے حکم کے مطابق استعمال کرے، اپنے طور طریقے نہ بنائے۔ بعض لوگ انسانی خدمت کے نام سے اپنے اہل و عیال کو بھلا دیتے ہیں اور کبھی تو خود کو بھی دنیا کی سہولتوں سے محروم کر لیتے ہیں، یہ پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ ہر کام کا اپنا موقع و محل ہوتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button