57۔ حکمران کی زندگی
إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی فَرَضَ عَلٰی اَئِمَّةِ الْعَدْلِ اَنْ يُقَدِّرُوْا اَنْفُسَهُمْ بِضَعَفَةِ النَّاسِ۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۲۰۷)
اللہ نے امام عادل پر فرض کیا ہے کہ وہ خود کو مفلس و نادار لوگوں کی سطح پر رکھیں۔
انسان کی پہچان اس کی زبان سے زیادہ عمل سے ہوتی ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے ساری زندگی دنیا کے دھوکے اور غرور سے بچنے کی تعلیم فرمائی۔ دنیا کے لیے طلاق کے الفاظ اور دنیا کو سانپ کے زہر سے تشبیہ آپؑ ہی نے دی۔ حکمرانی کے دور میں جب ایک شخص کو گھر بار اور اہل و عیال سے بے تعلق دیکھا جسے وہ زہد سمجھتا تھا تو اسے ڈانٹا اور غلطی پر قرار دیا اور فرمایا اللہ نے جسے حلال و طیب قرار دیا ہے اسے اپنے لیے حرام مت قرار دیں۔ اس نے آپؑ کے لباس کو دیکھا اور عرض کی آپؑ کا لباس بھی تو ایسا ہی ہے اور آپ کا کھانا بھی تو روکھا سوکھا ہوتا ہے۔ یعنی آپؑ بھی تو دنیا کو ترک کیے ہوئے ہیں۔
آپؑ نے فرمایا تمہاری کی یہ سوچ درست نہیں ہے میں تمھاری مانند نہیں ہوں۔ آپؑ نےحکمرانوں کی زندگی کے لیے ایک سنہری اصول بیان فرمایا جسے عملی جامہ پہنانے سے لوگوں کی گردنوں پر ہی نہیں ان کے دلوں پر حکومت کی جا سکتی ہے۔ فرمایا میں ایک حاکم ہوں اور ’’امام و حاکم کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی زندگی یوں گزارے کہ اس کی حکومت میں غریب ترین شخص جیسے گزار رہا ہے‘‘۔
وجہ بھی بیان فرمائی کہ حاکم کی ایسی زندگی ہوگی تو فقیر اپنے فقر پر گھبرائے گا نہیں۔ یعنی حاکم کا لباس، حاکم کا کھانا، حاکم کا رہنا سہنا، غریب و مفلس کے سکون کا سبب ہو کہ حاکم تو مجھ جیسا غریب ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس انداز سے حکمرانی کرکے حکمرانوں کے لیے حکمرانی کے اصول واضح فرما دیے۔