58۔ حقوق انسان
جَعَلَ سُبْحَانَهٗ مِنْ حُقُوقِهٖ حُقُوقاً افْتَرَضَهَا لِبَعْضِ النَّاسِ عَلٰی بَعْضٍ۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۲۱۴)
اللہ سبحانہ نے انسانوں کے ایک دوسرے پر حقوق کو بھی اپنے ہی حقوق قرار دیا ہے۔
انسان کی خدمت کے عنوان سے آج سب سے بڑا دعویٰ حقوق انسانی کا ہے۔ اس کے لیے دنیا کی بڑی بڑی تنظیمیں قائم ہیں۔ ممالک کی ترقی کامعیار ان حقوق کی پاسداری کو قرار دیا جاتا ہے۔ وہ ترقی یافتہ ملک ہے جس میں انسانی حقوق کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے اور وہ ملک جس میں انسانی حقوق پامال کیے جاتے ہیں وہ دنیا کی نظروں میں پسماندہ ہوتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ نے اس فرمان میں بندوں کے ایک دوسرے کے مقابلے میں حقوق کو حقیقت میں اللہ کے حقوق قرار دیا ہے۔ بندوں کے ایک دوسرے پر جو حقوق ہیں چونکہ ان حقوق کو اللہ نے لازم قرار دیا ہے اس لیے یہ بھی اللہ کے حقوق میں سے شمار ہوں گے۔ گویا اللہ نے اپنے بندوں کے حقوق کو اپنا حق قرار دیا ہے اور اس سے بندوں کے حقوق کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور اسلام میں انسانی حقوق کے مقام کا اندازہ ہوتا ہے۔
دوسرے انسانوں کی اہمیت و ہمدردی ہی انسان کو عظیم بناتی ہے اور اس عظمت کے لیے علامہ اقبال نے یوں راہنمائی کی۔
امریکہ کے ماہر نفسیات ڈیل کارنیگی جو کئی کتابوں کے مصنف ہیں، ان کی کتابوں کا خلاصہ یہ ہے کہ دوسروں کو اہمیت دیں۔ انہوں نےاس اہمیت کے کئی طریقے بیان کئے مثلاً ہمیشہ دوسروں کو یہ احساس دلائیں کہ وہ آپ کے لیے اہمیت رکھتے ہیں، دوسروں کی اہمیت کو دل سے تسلیم کریں، دوسروں سے ملیں تو کسی نہ کسی لحاظ سے انہیں خود سے بہتر سمجھیں، دوسروں کی بات غور سے سنیں، دوسروں کی تعریف کریں، نکتہ چینی نہ کریں۔
امیر المؤمنینؑ کا یہ مختصر جملہ ایسے درجنوں اصولوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اور دنیا و آخرت دونوں کی بھلائی و سعادت کی ضمانت ہے۔