59۔ فخر کی تمنا
اِنَّ مِنْ اَسْخَفِ حَالَاتِ الْوُلَاةِ عِنْدَ صَالِحِ النَّاسِ اَنْ يَظُنَّ بِهِمْ حُبُّ الْفَخْرِ۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۲۱۴)
نیک بندوں کے نزدیک حکمرانوں کی ذلیل ترین صورت حال یہ ہے کہ ان کے متعلق یہ گمان ہونے لگے کہ وہ فخر کو پسند کرتے ہیں۔
ایک حکمران کے عنوان سے حکمران کی ذمہ داریاں اور فرائض بتانا خود اس حکمران کی عظمت کی نشانی ہے۔ انسان کسی عہدے پر فائز ہو تو وہ یہ تو دیکھتا ہے کہ میرے حکم پر لوگوں کو کیا کرنا ہے مگر یہ بھول جاتا ہے کہ ان لوگوں کے لیے جو میرے ما تحت ہیں یا میری رعایا ہیں مجھے کیا کرنا ہے۔ یہ فرمان کسی چھوٹے سے عہدے یا گھر کے سربراہ سے لے کر بڑی بڑی مملکتوں کے حکمرانوں کے لیے بھی ایک پیغام ہدایت رکھتا ہے۔
کسی عہدے دار کی ذلیل ترین صورت یہ بیان کی گئی ہےکہ اس کے متعلق گمان ہونے لگے یعنی یقین نہیں بلکہ گمان ہو کہ شاید وہ فخر پسند کرتا ہے تو یہ کسی حکمران کے لیے گھٹیا اخلاق ہے۔ پھر آپ نے ایک حکمران کے طور پر اپنے کردار کو پیش کیا جسے اپنا کر آج بھی کوئی عہدے دار خود کو کامل بنا سکتا ہے۔ مثلاً فرمایا ’’مجھے یہ تک ناگوار معلوم ہوتا ہے کہ تمھیں اس کا وہم و گمان ہونے لگے کہ میں بڑھ چڑھ کر سراہے جانے یا تعریف سننے کو پسند کرتا ہوں۔ الحمدللہ کہ میں ایسا نہیں ہوں‘‘۔
انسان انتظامی امور کو کیسے خوش اسلوبی سے نبھا سکتا ہے اور کیسے نبھانا چاہیے یہ آپؑ نے تفصیل سے بیان کیا مگر دو چیزیں اگر یہاں دیکھی جائیں تو اہم ہیں ایک یہ کہ فخر و سربلندی کے طلب گار مت بنیں اور یہ مت چاہیں کہ لوگ آپ کو بڑا سمجھیں اور دوسری یہ کہ خوشامد طلب مت بنیں اور یہ مت امید رکھیں کہ لوگ آپ کی تعریف کریں۔ اگر ان دو چیزوں کو چھوڑ دیا جائے تو حقائق کے مطابق زندگی گزرے گی اور اس عہدے کا حق اور ذمہ داری بہتر انداز میں انجام پائے گی۔ انتظامی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے یہ بہترین اصول ہیں۔