61۔ سرکش نفس
اِمْرُءٌ اَلْجَمَ نَفْسَهٗ بِلِجَامِهَا، وَزَمَّهَا بِزِمَامِهَا۔ (نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۴)
باہمت وہ ہے جو اپنے نفس کو لگام دے کر اور اس کی باگیں تھام کر اپنے قابو میں رکھے۔
ایسا انسان جو قابل تعریف ہے اس کی دو صفات ان دو جملوں میں بیان کی گئی ہیں۔ حقیقت میں خواہشات نفس کے خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے اور خواہشات نفس کو سرکش حیوان سے تشبیہ دے کر اس کی منہ زوریوں سے آگاہ کیا گیا ہے۔ انسان اگر منزل کمال تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس کے لیے کوئی قوی سواری ہونی چاہیے مگر سواری جتنی قوی ہوگی اسے قابو میں رکھنا اتنا ہی مشکل اور ضروری ہوگا اس لیے کہ اگر اسے آزاد چھوڑ دیا جائے تو سوار کو کہیں بھی گرا سکتی ہے۔ دین اسلام میں کامیاب ترین شخص اسے قرار دیا گیا ہے جو نفس کو اپنے کنٹرول میں رکھے۔
امیرالمؤمنینؑ فرماتے ہیں کہ مردانگی یہی ہے کہ انسان نفس کو لگام دے کر اور اس کی باگ کو مضبوطی سے تھام کر اسے قابو میں رکھے۔ انسان کا نفس اگر خود سر ہو جائے تو قرآن مجید کی زبان کے مطابق وہ برائیوں کا حکم دینے لگتا ہے، وہ اپنی ذات کے علاوہ کسی کے وجود کو برداشت نہیں کرتا، دوسروں پر ظلم کر کے خود کو قوی سمجھتا ہے، انسانیت کے خلاف ورزیوں کو اپنا حق سمجھتا ہے۔
انسان اگر نفس کو کنٹرول کرے گا تو اسے یہ یاد رہے گا کہ اگر میری خواہشات ہیں تو میرے علاوہ دوسروں کی خواہشات بھی ہیں۔ اگر ہر طرف سے اپنی خواہشات کے حصول کی کوشش ہوگی تو دنیا میں فساد و فتنہ برپا ہوگا اس لیے نفس کو کنٹرول کر کے منزل کی طرف چلنا لازمی ہے تاکہ منزل بھی ملے اور راستے کے دوسرے راہیوں کے ساتھ زیادتی بھی نہ ہو۔ یہی محفوظ سفر ہےجو انسان کو کمال تک پہنچاتا ہے۔ امیرالمؤمنینؑ کے لفظوں میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے بچنے اور اس کی اطاعت کو بجا لانے کا نام کمال ہے۔