62۔ نیند
مَآاَنْقَضَ النَّوْمَ لِعَزَآئِمِ الْيَوْمِ۔ (نہج البلاغہ خطبہ۲۳۸)
رات کی گہری نیند دن کے مہموں میں بڑی کمزوری پیدا کرنے والی ہے۔
انسان کی کامیابی میں ہمت اور بلند ارادوں کو بڑا دخل ہے۔ جب کوئی شخص کسی بلندی تک پہنچنے کا ارادہ کرے تو اسے اس بلند مقام تک پہنچنے کے لیے بلند حوصلہ اور مسلسل کوشش کرنی لازمی ہے، مشکلات و مصائب کا سامنا یقینی ہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں نیند کو آسانی اور سستی کے معنی میں لیا ہے۔ کچھ لوگ عزت و افتخار سے اس لیے محروم رہتے ہیں کہ جب بلند ہمتی سے انہیں بڑے فیصلے کرنے تھے تو وہ خواب غفلت میں پڑے رہے اور تب سستی میں مبتلا رہے اور میٹھی نیند کے مزے لیتے رہے، موقع و محل پر بڑا فیصلہ نہ کر سکے۔ یہاں یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ فیصلے تو بڑے کر لیے مگر ان فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جب وقت آیا تو نیند کے مزے لینے لگے۔
گویا آپ واضح فرماتے ہیں کہ آسانیاں اور کامیابیاں، سستیاں اور بلندیاں آپس میں جوڑ نہیں رکھتیں۔ کوشش و زحمت ہی کے نتیجے میں افتخار نصیب ہوتا ہے اور جو عظمتوں کا طلبگار ہوتا ہے اسے راتیں جاگ کر گزارنی پڑتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہی قومیں اور وہی افراد دنیا میں طاقت و قدرت حاصل کر سکے جو وقت پر فیصلہ کرتے ہیں اور فیصلوں کے حصول کے لئے سخت محنت کرتے ہیں۔ قرآن کا اصول یہی بتاتا ہے کہ انسان جو کوشش کرتا ہے وہی اسے ملتا ہے۔
جو لوگ زندگی میں کسی طویل سفر کا پختہ عزم و ارادہ کرتے ہیں وہ رات کی تاریکیوں میں بھی چراغ تلاش کر کے سفر جاری رکھتے ہیں اور رات ڈھلتے ہی جو سکون سے سو جاتے ہیں ان کے عزائم پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتے۔ اس فرمان میں ایک پہلو مسلسل کوشش کی طرف دعوت دینے کا ہے۔ بعض لوگ ارادہ کرتے ہیں اور خرگوش کی طرح کچھ وقت کے لیے بڑی بڑی چھلانگیں لگاتے ہیں مگر عزم میں تسلسل نہیں ہوتا، منزل تک پہنچنے سے پہلے خواب خرگوش میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو ان کو منزلیں نہیں ملتیں۔