64۔ گمراہی کا ڈر
اَمْسِكْ عَنْ طَرِيقٍ اِذَا خِفْتَ ضَلَالَتَهٗ۔ (نہج ابلاغہ وصیت ۳۱)
جس راہ میں بھٹک جانے کا اندیشہ ہو اس راہ میں قدم نہ اٹھاؤ۔
انسان کو زندگی کے کمال کے سفر میں جیسے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اس کے لیے رکاوٹوں سے آگاہ ہونا بھی لازمی ہے۔ رکاوٹیں کبھی واضح ہوتی ہیں تو ان سے بچنا آسان ہوتا ہے مگر یہی رکاوٹیں بعض اوقات مخفی ہوتی ہیں۔ امیرالمومنینؑ یہاں ایک اصول بیان فرما رہے ہیں کہ جس راہ میں بھٹک جانے کا خوف ہو وہاں خطرات مول لینے اور سرگردانی سے بچنے کے لیے قدم روک لینے چاہئیں۔ اس لیے کہ اگر راستہ واضح نہ ہو تو انسان ہدف کے قریب جانے کے بجائے دور بھی جا سکتا ہے اور اگر ہدف تک پہنچ بھی جائے تو راستہ بھر میں وحشت و اضطراب میں مبتلا رہے گا۔ اس لیے عقلِ انسانی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کسی دو راہے پر پہنچیں تو دیکھ بھال لیں اور راستہ واضح نہ ہو تو کسی جاننے والے سے راہنمائی حاصل کریں۔ جلد بازی نہ کریں بلکہ چھان بین کرلیں۔
اس فرمان سے یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ جدھر کوئی بلائے اُدھر بغیر سوچے سمجھے نہیں چل پڑنا چاہیے، بلکہ پہلے بلانے والے کی حقیقت اور سچائی کا پتا کر لینا چاہیے۔ ٹھوکر کھا کر سنبھلنے یا چوٹ لگنے پر سنبھلنے سے بہتر یہ ہے کہ ایسی راہ پر جانے سے رک جائیں۔ جاننے والے سے پوچھیں، یا متبادل راہ تلاش کریں۔ دنیاوی زندگی میں اگر اس اصول کو اپنایا جائے تو انسان بہت سے خطرات اور نقصانات سے بچ سکتا ہے۔
البتہ بعض کم ہمت لوگ بھٹک جانے، ناکام ہونے، خطرات میں گھر جانے جیسے تصورات سے خود کو محدود کر لیتے ہیں اور اسے احتیاط کا نام دیتے ہیں۔ امیر المؤمنینؑ کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ایسی صورت میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں۔نہیں بلکہ اس راہ کو تلاش کریں جو کمال تک پہنچائے اور ان راہنماؤں کو ڈھونڈھیں جو منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے مددگار بنیں۔ اللہ سبحانہ نے سورہ حمد میں یہی حکم دیا کہ دعا کریں کہ سیدھا راستہ مہیا ہو اور سیدھا راہ اللہ اپنے بندوں کے ذریعہ ہی مہیا فرماتا ہے۔ وہ بندے جنہیں اللہ نےنعمات سے نوازا ہے۔