67۔ خود پسندی
اَلْاِعْجَابُ ضِدُّ الصَّوَابِ وَ آفَةُ الْاَلْبَابِ۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
خود پسندی صحیح طریقہ کار کے خلاف اور عقل کی تباہی کا سبب ہے۔
خود پسندی اور اپنے آپ کو سب سے بہتر قرار دینا حقیقت اور عقل مندی کے خلاف سوچ ہے۔ یہ سوچ انسان کی ترقی و کمال کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور اس فکر سے عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے اور عقل صحیح سوچنے سے رُک جاتی ہے۔ خود پسند انسان فقط اسی عمل کو صحیح سمجھتا ہے جسے وہ خود انجام دے رہا ہے۔ دوسروں کے فیصلوں، آرا اور اعمال کو سراسر غلط شمار کرتا ہے۔ یوں بہتری کی راہیں اپنے لیے مسدود کر لیتا ہے۔ خود پسندی کی صورت میں انسان جاہل ہوتے ہوئے بھی خود کو بڑا دانشور و عالم تصور کرتا ہے اور اپنی کمزوریوں کو جاننے اور ان کی اصلاح کرنے کے بجائے خود کو صاحب فضیلت و کمال خیال کرتا ہے۔ اپنی کوتاہیوں کی بہتری کے بجائے وہ دوسروں سے چاہتا ہے کہ اس کا ساتھ دیں۔
اصل مشکل یہ ہے کہ جب تک انسان کسی چیز کی کمی یا ضرورت محسوس نہیں کرتا اس کے حصول کی کوشش نہیں کرتا۔ خود پسند انسان بھی اپنے اندر کسی قسم کی کمی محسوس نہیں کرتا اس لیے اس غلطی پر ڈٹا رہتا ہے اور اپنی کمزوری کو دور کرنے کی کوشش نہیں کرتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ہمیشہ کمزوریوں میں جکڑا رہتا ہے اور اس کی خود پسندی اس کی عقل پر بھی پردے ڈال دیتی ہے اور اس کی عقل بھی صحیح کارکردگی سے محروم ہو جاتی ہے۔
انسان اگر کمال کی طرف جانا چاہتا ہے تو اسے اپنے خول سے نکل کر دیکھنا چاہئے کہ لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ دوسروں کی تنقید سننے کی اس میں ہمت ہونی چاہیے اور تنقید سن کر دیکھنا چاہیے کہ وہ کمزوری اس میں اگر واقعاً ہے تو اسے دور کرنا چاہیے۔