70۔ آزادی
لاَ تَكُنْ عَبْدَ غَيْرِكَ وَقَدْ جَعَلَكَ اللهُ حُرّاً۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
دوسروں کے غلام نہ بنو جبکہ اللہ نے تمھیں آزاد بنایا ہے۔
انسان کی سوچ ایک الہی عطیہ ہے اور اگر یہ سوچ آزاد اور بلند ہوگی تو اس سے انسان بلندیوں کی منزلیں طے کرے گا۔ یہی سوچ اگر گھٹیا ہو جائے تو انسان کو پستی میں دھکیل دیتی ہے۔ انسان کبھی جسمانی طور پر دوسروں کا تابع اور غلام ہوتا ہے جس سے کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح نجات مل جاتی ہے اور جسمانی غلام پر دوسرے سمجھدار لوگ بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور ممکن ہے اس کی مدد بھی کر دیں مگر بہت سے لوگ جسمانی غلامی کے بجائے فکر میں دوسروں کے غلام ہوتے ہیں ظاہری طور پر بڑی مسندوں پر بھی ہو سکتے ہیں مگر فکری طور پر زندان میں ہوتے ہیں، ساری زندگی خود کچھ نہیں سوچتے بلکہ دوسروں کی سوچ پر زندگی گزار دیتے ہیں۔ حقیقت میں یہی غلامی ہے۔ افراد کی طرح اقوام بھی غلام ہوتی ہیں۔
اس غلامی سے نجات کا طریقہ امیرالمومنینؑ نے یہ فرمایا ہے: یہ یاد رکھو کہ اللہ نے تمہیں آزاد پیدا کیا ہے۔ یعنی جس نے پیدا کیا اس کے بن کر رہو۔ اگر انسان اللہ کا بن کر رہے تو کائنات اس کی ہو جاتی ہے۔ اس طرح آپ نے انسان کا مقام واضح فرما دیا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ انسان کو اپنے نفس پر اعتماد کرنا چاہیے۔ انسان خود کو آزادی و حریت کے زیور سے آراستہ کرے گا تو لالچ، خوف، خوشامد، چاپلوسی، جیسی کمزور حرکات میں خود کو قید نہیں کرے گا۔ دوسروں کے دستر خوان سے کھا کر ان کا ممنون احسان ہو کر خود کو غلام نہیں بنائے گا۔ کم کھا لے گا کسی کا ممنون احسان نہیں ہو گا۔ علامہ اقبال نے فرمایا؛
تجھے گُر فقر و شاہی کا بتا دوں
غریبی میں نگہبانی خودی کی