71۔ بھلائی
مَا خَيْرُ خَيْرٍ لاَ يُنَالُ اِلاَّ بِشَرٍّ۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
اس بھلائی میں کوئی بھلائی نہیں جو بُرائی کے ذریعہ حاصل ہو۔
انسان ہر وقت اچھائی اور بہتری کے حصول کی کوشش کرتا ہے اور کرنی بھی چاہیے مگر عقل کا تقاضا ہے کہ اُس بھلائی اور سعادت کے حصول کے ذرائع پر بھی نظر رکھے۔ انسان اپنی ذاتی بہتری تک کئی افراد کی زندگیوں کو برباد کر کے پہنچے تو یہ کوئی بھلائی نہیں جو اُسے حاصل ہوگی۔ اسی طرح اگر انسان کسی ایک اچھائی کے حصول کے لیے اپنی زندگی کو اہانت آمیز مراحل سے گزارے تو یہ بھی کوئی خیر و خوبی نہیں۔ یہ وقتی طور پر تو انسان کو اچھائی محسوس ہوتی ہے مگر انسان کا ضمیر جب بھی بیدار ہوگا تو وہ خود اُسے اچھائی نہیں کہے گا ایسی اچھائیاں اکثر عارضی ہوا کرتی ہیں اسی طرح وہ آرائش و آسائش جو کسی غلط طریقے سے حاصل ہو یا جس کے ذریعہ انسانی سعادت کو فروخت کرنا پڑے وہ آرائش بھی قابل ستائش نہیں ہے۔
سعادت مند لوگ وہی ہوتے ہیں جو اہداف کو بھی مدنظر رکھتے ہیں اور وسائل و ذرائع کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ ہدف تک پہنچنے کے لیے محنت لازمی ہے مگر اُس کے جائز و نا جائز ہونے کا بھی خیال ضروری ہے۔