72۔ طمع
اِيَّاكَ اَنْ تُوْجِفَ بِكَ مَطَايَا الطَّمَعِ، فَتُوْرِدَكَ مَنَاهِلَ الْهَلَكَةِ۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
خبردار؛ طمع و حرص کی تیز رفتار سواریاں تمھیں ہلاکت کے گھاٹ پر نہ لا اتاریں۔
انسان کو بلندیوں سے گرانے اور پستی و ذلت میں ڈالنے کے اسباب میں سے ایک لالچ اور طمع ہے۔ امیرالمومنینؑ نے اس خطرے سے آگاہ کرنے اور اس سے بچنے کے لیے بار بار خبردار کیا ہے۔ اس فرمان میں آپؑ نے طمع و حرص کو تیز رفتار سواری سے تشبیہ دی ہے اگر انسان کسی منہ زور سواری پر سوار ہو اور اُس کا کنٹرول اُس کے ہاتھ میں نہ ہو تو وہ یقیناً اُسے کہیں نہ کہیں گرائے گی۔ البتہ عام سواری سے گرنے والے کے بارے میں معلوم نہیں کہ بچے گا یا کسی جسمانی نقصان سے دوچار ہوگا مگر امیرالمومنینؑ نے لالچ کے مرکب کے سوار کے لیے یہ بھی واضح فرمایا کہ یہ ہلاکت ہی کے گھاٹ پر اُتارے گی یعنی گرنا بھی یقینی اور گر کر ہلاکت بھی واضح ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ لالچ کی سواری سے گرنے والے نہ فقط جسمانی ہلاکت سے دوچار ہوتے ہیں بلکہ انسانی مقام سے بھی گر جاتے ہیں۔
لالچ کی سواری قرار دے کر امامؑ نے واضح فرمایا کہ تیز رفتار سواری پر انسان بیٹھا ہو تو یہی سمجھتا ہے کہ میری منزل جلدی طے ہو رہی ہے اور میں فوراً اپنے مقصود کو پا لوں گا۔ مگر وہی تیز رفتاری اُسے منزل کے بجائے ہلاکت کے قریب لے جا رہی ہوتی ہے۔ لالچ انسان کے عقل و شعور اور آنکھ اور کان پر پردہ ڈال دیتی ہے اور وہ بچاؤ کی راہوں کا سوچتا ہی نہیں۔ لالچ و حرص یعنی جو ہے اس پر اکتفا نہ کیا جائے اور مزید کی طلب رہے اور اس مزید کے حصول میں کوئی قانون اور اصول بھی مدنظر نہ ہو۔ لالچ ایسی آگ ہے جو بھڑک جائے تو کہیں رکتی نہیں۔