76۔ زیادہ بولنا
مَنْ اَكْثَرَ اَهْجَرَ۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
جو زیادہ بولتا ہے وہ بے معنی باتیں کرنے لگتا ہے۔
انسان سے جتنی غلطیاں اور اشتباہات ہوتے ہیں اتنا ہی وہ مقام انسانی سے گرتا چلا جاتا ہے اور جتنی زیادہ غلطیاں اور گناہ زبان سے ہوتے ہیں اتنے کسی دوسرے عضو سے نہیں ہوتے۔ امیرالمومنینؑ یہاں اس مشکل سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک اصول بیان فرماتے ہیں اور اسے آپؑ نے الگ الگ الفاظ میں متعدد بار ارشاد فرمایا ہے جو خود اس موضوع کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں زیادہ باتیں کرنے سے پرہیز کرو اس لیے کہ بات وہ مفید ہوتی ہے جو سوچ بچار کے بعد ہو اور جب انسان زیادہ بولتا ہے تو اسے غور و خوض کا موقع نہیں ملتا اس لیے بہت سی باتیں سوچے سمجھے بغیر کہہ دیتا ہے اور یوں ایسی باتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے جو عقل مند سے بعید ہوتی ہیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ زیادہ نہ بولا جائے تاکہ زیادہ غلطیاں نہ ہوں۔
بعض افراد بہت سی باتیں کرتے ہیں تاکہ دوسروں پر ان کا رعب قائم ہو اور اس سے وہ اپنا علم بھی ظاہر کرنا چاہتے ہیں جبکہ انسان کا معیار بہت سی باتیں کرنے سے نہیں بڑھتا بلکہ مفید اور سلیقہ کے مطابق بات سے عزت بڑھتی ہے۔ علامہ اقبال جواب شکوہ میں لکھتے ہیں۔
ناز ہے طاقتِ گفتار پر نادانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو