78۔ سخت گیری
اِذَا کَانَ الرِّفْقُ خُرْقاً، کَانَ الْخُرْقُ رِفْقاً۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
جہاں نرمی سے کام لینا نا مناسب ہو وہاں سخت گیری ہی نرمی ہے۔
نرمی و سختی دو متضاد رویے ہیں، البتہ انسانی رویوں میں ہمیشہ اعتدال کو اہمیت دی گئی ہے۔ نہ اتنے نرم بنو کہ آپ کو نگل لیا جائے اور نہ اتنے سخت بنو کہ آپ کو چھوا نہ جا سکے۔ البتہ کمال تک وہی پہنچ سکتا ہے جو صحیح مقاصد کے لیے حالات کے مطابق فیصلہ کر سکے۔ جب ہدف معین ہو جاتا ہے تو دیکھنا ہوتا ہے کہ یہاں نرمی سے کام آگے بڑھ سکتا ہے تو وہ نرمی روا رکھی جائے اور جہاں نرمی کو کمزوری یا سادگی سمجھا جاتا ہے وہاں ممکن ہےسختی ضروری ہو۔ بچوں کی تربیت میں، نظم و ضبط کے قیام میں، حکومتی قوانین کے اجرا میں اس اصول کو مدنظر رکھنا ضروری ہے تب ہی معاشرے میں امن و سکون ہو گا۔ جیسے جسم کے علاج کے لیے کبھی کچھ اعضاء کو کاٹنا پڑتا ہے یا باندھنا پڑتا ہے تب ان کو صحت ملتی ہے اور اگر انہیں کھلا چھوڑ دیا جائے تو مرض بڑھے گا۔
معاشرے کے افراد بھی اسی طرح ہوتے ہیں کہ کبھی سختی سے اصلاح ہوتی ہے اور کبھی نرمی سے۔ یعنی انسان کو موقع کی پہچان ہونی چاہیے۔ خاص کر مربی اور سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ نظام کو بچانے کے لیے سختی سے کام لینے کی ضرورت ہو تو سختی کرے۔ کسی سے زیادتی ہو رہی ہو تو اسے روکنے کے لیے یا کسی مجرم کے جرائم سے معاشرے کو محٖفوظ رکھنے کے لیے سزا دینی پڑے تو اسے سزا دینی چاہے ورنہ ایک فرد پر سختی نہ کرنے سے بہت سو کی زندگیوں میں تلخیاں پیدا ہوں گی۔ اس لیے نظامِ عدل کے مطابق سزا دینا بھی انسانیت کی بہتری کا ایک ذریعہ ہے۔