اِيَّاكَ وَالْاِتِّكَالَ عَلَى الْمُنَى فَاِنَّهَا بَضَآئِعُ النَّوْكَى۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
خبردار امیدوں کے سہارے پر نہ بیٹھے رہنا کیونکہ امیدیں احمقوں کا سرمایہ ہوتی ہیں۔
انسان بعض اوقات ذہن میں ایک تصور پیدا کرتا ہے اور اس کے مطابق بڑے بڑے خیالاتی محلات تعمیر کرتا ہے۔ یوں نا قابل عمل امیدوں کا ایک وسیع جال بُن لیتا ہے جس کی تکمیل اس کے بس میں نہیں ہوتی یا اس کی تکمیل کے لیے جو محنت و مشقت درکار ہوتی ہے وہ انجام نہیں دیتا اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ جو کام کر سکتا تھا اس سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ شیخ چلی کا کردار ایسے مواقع پر مشہور ہے۔
امیرالمؤمنینؑ نے ان لمبی اور خیالی امیدوں سے سختی سے منع کیا ہے اور اسے احمقوں کے سرمایہ سے تعبیر فرمایا ہے۔ حکماء کہتے ہیں کہ یہ خیالی پلاؤ انسان کی کامیابی کی راہ کا اژدہا ہے۔ بڑے بڑے منصوبوں کے لیے بڑی محنت و زحمت گوارا کرنی پڑتی ہے اور جو لوگ محنت نہیں کرتے وہ ترقی کی منزلوں کو بھی طے نہیں کرسکتے۔ اسی طرح بعض لوگ بڑے منصوبے بنا کر دوسرے لوگوں سے محنت کی امیدیں رکھ بیٹھتے ہیں کہ فلاں میرے لیے یہ کام انجام دے گا۔ اس فرمان کے مطابق دوسروں سے امیدیں کام نہیں آئیں گی اپنی محنت سے کامیابیاں ملیں گی۔ علامہ اقبال اپنے فارسی کلام میں فرماتے ہیں؛
در جہاں بال و پر خویش گشودن آموزکہ
پریدن نتواں با پر و بالِ دیگراں
دنیا میں اپنے پر و بال کھولنا سیکھیں کیونکہ دوسروں کے پر و بال سے پرواز نہیں کی جا سکتی۔