2۔ رسول اکرم (ص) پر درود و سلام
(۲) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
بَعْدَ هٰذَا التَّحْمِیْدِ فِی الصَّلٰوةِ عَلٰى رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اٰلِهٖ:
تحمید و ستائش کے بعد رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام کے سلسلہ میں آپؑ کی دُعا:
وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ مَنَّ عَلَیْنَا بِمُحَمَّدٍ نَّبِیِّهٖ- صَلَّى اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اٰلِهٖ، دُوْنَ الْاُمَمِ الْمَاضِیَةِ وَ الْقُرُوْنِ السَّالِفَةِ، بِقُدْرَتِهِ الَّتِیْ لَا تَعْجِزُ عَنْ شَیْءٍ وَّ اِنْ عَظُمَ، وَ لَا یَفُوْتُهَا شَیْءٌ وَّ اِنْ لَّطُفَ، فَخَتَمَ بِنَا عَلٰى جَمِیْعِ مَنْ ذَرَاَ، وَ جَعَلَنَا شُهَدَآءَ عَلٰى مَنْ جَحَدَ، وَ كَثَّرَنَا بِمَنِّهٖ عَلٰى مَنْ قَلَّ.
تمام تعریف اُس اللہ تعالیٰ کیلئے ہے جس نے اپنے پیغمبر محمدﷺ کی بعثت سے ہم پر وہ احسان فرمایا جو نہ گزشتہ امتوں پر کیا اور نہ پہلے لوگوں پر، اپنی اس قدرت کی کارفرمائی سے جو کسی شے سے عاجز و درماندہ نہیں ہوتی، اگرچہ وہ کتنی ہی بڑی ہو اور کوئی چیز اس کے قبضہ سے نکلنے نہیں پاتی، اگرچہ وہ کتنی ہی لطیف و نازک ہو۔ اس نے اپنے مخلوقات میں ہمیں آخری اُمت قرار دیا اور انکار کرنے والوں پر گواہ بنایا اور اپنے لطف و کرم سے کم تعداد والوں کے مقابلہ میں ہمیں کثرت دی۔
اَللّٰهُمَّ فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ اَمِیْنِكَ عَلٰى وَحْیِكَ، وَ نَجِیْبِكَ مِنْ خَلْقِكَ، وَ صَفِیِّكَ مِنْ عِبَادِكَ، اِمَامِ الرَّحْمَةِ، وَ قَآئِدِ الْخَیْرِ، وَ مِفْتَاحِ الْبَرَكَةِ.
اے اللہ! تو رحمت نازل فرما محمدﷺ اور ان کی آلؑ پر جو تیری وحی کے امانتدار، تمام مخلوقات میں تیرے برگزیدہ، تیرے بندوں میں پسندیدہ، رحمت کے پیشوا، خیر و سعادت کے پیشرو اور برکت کا سرچشمہ تھے۔
كَمَا نَصَبَ لِاَمْرِكَ نَفْسَهٗ وَ عَرَّضَ فِیْكَ لِلْمَكْرُوْهِ بَدَنَهٗ، وَ كَاشَفَ فِی الدُّعَآءِ اِلَیْكَ حَامَّتَهٗ، وَ حَارَبَ فِیْ رِضَاكَ اُسْرَتَهٗ، وَ قَطَعَ فِیْ اِحْیَآءِ دِیْنِكَ رَحِمَهٗ، وَ اَقْصَى الْاَدْنَیْنَ عَلٰى جُحُوْدِهِمْ، وَ قَرَّبَ الْاَقْصَیْنَ عَلَى اسْتِجَابَتِهِمْ لَكَ، وَ وَالٰى فِیْكَ الْاَبْعَدِیْنَ، وَ عَادٰى فِیْكَ الْاَقْرَبِیْنَ، و اَدْاَبَ نَفْسَهٗ فِیْ تَبْلِیْغِ رِسَالَتِكَ، وَ اَتْعَبَهَا بِالدُّعَآءِ اِلٰى مِلَّتِكَ، وَ شَغَلَهَا بِالنُّصْحِ لِاَهْلِ دَعْوَتِكَ، وَ هَاجَرَ اِلٰى بِلَادِ الْغُرْبَةِ، وَ مَحَلِّ النَّاْیِ عَنْ مَّوْطِنِ رَحْلِهٖ، وَ مَوْضِعِ رِجْلِهٖ، وَ مَسْقَطِ رَاْسِهٖ، وَ مَاْنَسِ نَفْسِهٖ، اِرَادَةً مِّنْهُ لِاِعْزَازِ دِیْنِكَ، وَ اسْتِنْصَارًا عَلٰۤى اَهْلِ الْكُفْرِ بِكَ.
جس طرح انہوں نے تیری شریعت کی خاطر اپنے کو مضبوطی سے جمایا اور تیری راہ میں اپنے جسم کو ہر طرح کے آزار کا نشانہ بنایا اور تیری طرف دعوت دینے کے سلسلہ میں اپنے عزیزوں سے دشمنی کا مظاہرہ کیا اور تیری رضامندی کیلئے اپنے قوم قبیلے سے جنگ کی اور تیرے دین کو زندہ کرنے کیلئے سب رشتے ناطے قطع کر لئے، نزدیک کے رشتہ داروں کو انکار کی وجہ سے دور کر دیا اور دور والوں کو اقرار کی وجہ سے قریب کیا اور تیری وجہ سے دور والوں سے دوستی اور نزدیک والوں سے دشمنی رکھی اور تیرا پیغام پہنچانے کیلئے تکلیفیں اٹھائیں اور دین کی طرف دعوت دینے کے سلسلہ میں زحمتیں برداشت کیں اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے پند و نصیحت کرنے میں مصروف رکھا جنہوں نے تیری دعوت کو قبول کیا اور اپنے محل سکونت و مقام رہائش اور جائے ولادت و وطن مالوف سے پردیس کی سر زمین اور دور و دراز مقام کی طرف محض اس مقصد سے ہجرت کی کہ تیرے دین کو مضبوط کریں اور تجھ سے کفر اختیار کرنے والوں پر غلبہ پائیں۔
حَتّٰى اسْتَتَبَّ لَهٗ مَا حَاوَلَ فِیْ اَعْدَآئِكَ وَ اسْتَتَمَّ لَهٗ مَا دَبَّرَ فِیْۤ اَوْلِیَآئِكَ، فَنَهَدَ اِلَیْهِمْ مُسْتَفْتِحًا بِعَوْنِكَ، وَ مُتَقَوِّیًا عَلٰى ضَعْفِهٖ بِنَصْرِكَ، فَغَزَاهُمْ فِیْ عُقْرِ دِیَارِهِمْ، وَ هَجَمَ عَلَیْهِمْ فِیْ بُحْبُوْحَةِ قَرَارِهِمْ، حَتّٰى ظَهَرَ اَمْرُكَ، وَ عَلَتْ كَلِمَتُكَ، وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ.
یہاں تک کہ تیرے دشمنوں کے بارے میں جو انہوں نے چاہا تھا وہ مکمل ہو گیا اور تیرے دوستوں (کو جنگ و جہاد پر آمادہ کرنے) کی تدبیریں کامل ہو گئیں تو وہ تیری نصرت سے فتح و کامرانی چاہتے ہوئے اور اپنی کمزوری کے باوجود تیری مدد کی پشت پناہی پر دشمنوں کے مقابلہ کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے گھروں کے حدود میں ان سے لڑے اور ان کی قیام گاہوں کے وسط میں ان پر ٹوٹ پڑے۔ یہاں تک کہ تیرا دین غالب اور تیرا کلمہ بلند ہو کر رہا، اگرچہ مشرک اسے ناپسند کرتے رہے۔
اَللّٰهُمَّ فَارْفَعْهُ بِمَا كَدَحَ فِیْكَ اِلَى الدَّرَجَةِ الْعُلْیَا مِنْ جَنَّتِكَ حَتّٰى لَا یُسَاوٰى فِیْ مَنْزِلَةٍ، وَ لَا یُكَافَاَ فِیْ مَرْتَبَةٍ، وَ لَا یُوَازِیَهٗ لَدَیْكَ مَلَكٌ مُّقَرَّبٌ، وَ لَا نَبِیٌّ مُّرْسَلٌ، وَ عَرِّفْهُ فِیْۤ اَهْلِهِ الطَّاهِرِیْنَ، وَ اُمَّتِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ، مِنْ حُسْنِ الشَّفَاعَةِ اَجَلَّ مَا وَعَدْتَّهٗ، یَا نَافِذَ الْعِدَةِ، یَا وَافِیَ الْقَوْلِ، یَا مُبَدِّلَ السَّیِّئَاتِ بِاَضْعَافِهَا مِنَ الْحَسَنَاتِ، اِنَّكَ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ.
اے اللہ!انہوں نے تیری خاطر جو کوششیں کی ہیں ان کے عوض انہیں جنت میں ایسا بلند درجہ عطا کر کہ کوئی مرتبہ میں ان کے برابر نہ ہو سکے، اور نہ منزلت میں ان کا ہم پایہ قرار پا سکے، اور نہ کوئی مقرب بارگاہ فرشتہ اور نہ کوئی فرستادہ پیغمبر تیرے نزدیک ان کا ہمسر ہو سکے، اور ان کے اہل بیت اطہار علیہم السلام اور مومنین کی جماعت کے بارے میں جس قابل قبول شفاعت کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے اس وعدہ سے بڑھ کر انہیں عطا فرما۔ اے وعدہ کے نافذ کرنے والے، قول کے پورا کرنے اور برائیوں کو کئی گنا زائد اچھائیوں سے بدل دینے والے، بے شک تو فضل عظیم کا مالک ہے۔
–٭٭–
یہ دعا کا دوسرا افتتاحیہ ہے جو پہلے افتتاحیہ کیلئے ایک تکملہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے واؤ عطف کے ذریعہ اس کا سلسلہ پہلے افتتاحیہ سے جوڑ دیا گیا ہے۔
پہلا افتتاحیہ حمد و ثنائے الٰہی پر مشتمل تھا اور یہ رسولِ خدا ﷺ پر دُرود و سلام کے سلسلہ میں ہے۔ حمد و ستائش اور دُرود و سلام ایک دوسرے سے مرتبط اور ایک قدرتی ترتیب کے زیرِ اثر ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ چنانچہ جب خداوند عالم کے اس احسان و انعام پر نظر جاتی ہے کہ اس نے نوعِ انسانی کی ہدایت کیلئے پیغمبروں اور دین کے رہنماؤں کا سلسلہ جاری کیا تا کہ وحی و تنزیل کے ذریعہ ہدایت کی تعلیم ہوتی رہے تو بے ساختہ زبان اس کی تحمید و ستائش کے استحقاق کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ جس نے مادی تربیت کے سر و سامان کے ساتھ روحانی تربیت کے سامان کی بھی تکمیل کی۔ تو جب خُدا کے انعامات اس کی حمد و ستائش کے محرّک ہوتے ہیں تو جو عرفانِ الٰہی کا ذریعہ ہوں اور انسانی صلاحیتوں کو اس قابل بنائیں کہ ان میں ہدایت کے عناصر نشو و نما پا سکیں تو تحمید الٰہی کے بعد احسان شناسی کا تقاضا یہ ہو گا کہ ان ہستیوں سے بھی دُرود و سلام کے ذریعہ اظہارِ عقیدت و ارادت کیا جائے۔ اور ان ذواتِ مقدسہ میں سب سے اکمل و افضل ہستی رسول اکرم ﷺ کی تھی جنہوں نے تہذیبِ نفس و ترقی رُوحانی کی راہیں بتائیں اور صداقت و روحانیت کی تعلیم سے مُردہ انسانیت کو نشاۃ ثانیہ عطا کیا۔ لہٰذا حمد کے بعد دُرود و سلام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ دُعا کے ساتھ جس طرح حمد کو منضم کیا گیا ہے، اسی طرح دُرود و صلوٰۃ کو بھی استجابت دُعا کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے:
اِذَا كَانَتْ لَكَ اِلَى اللهِ سُبْحَانَهٗ حَاجَةٌ فَابْدَاْ بِمَسْئَلَةِ الصَّلٰوةِ عَلَى رَسُوْلِہٖﷺ، ثُمَّ سَلْ حَاجَتَكَ، فَاِنَّ اللهَ اَكْرَمُ مِنْ اَنْ یُّسْئَلَ حَاجَتَیْنِ، فَیَقْضِیَ اِحْدَاهُمَا وَ یَمْنَعَ الْاُخْرٰى.
جب اللہ تعالیٰ سے کوئی حاجت طلب کرو تو پہلے رسول اللہ ﷺ پر دُرود بھیجو پھر اپنی حاجت مانگو۔ کیونکہ خُدا اس سے بلند تر ہے کہ اس سے دو حاجتیں طلب کی جائیں اور ایک پوری کر دے اور ایک روک لے۔[۱]
امام علیہ السلام نے دُرود و سلام کے سلسلہ میں آنحضرت ﷺ کی شخصیت پر اس طرح جچے تُلے الفاظ میں روشنی ڈالی ہے کہ ان کی زندگی کے تمام گوشوں کی مکمل تصویر نگاہوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ چنانچہ ان کلمات سے آپؐ کی ہستی کے حسبِ ذیل اوصاف و کمالات واضح ہوتے ہیں:
آپؐ وحیِ الٰہی کے حامل، پاکیزہ نسب اور برگزیدۂ خلائق تھے۔
خداوند عالم نے آپؐ کو تمام انبیاء علیہ السلام کے آخر میں بھیجا جس کے بعد سلسلۂ نبوت ختم کر دیا۔ لہٰذا آپؐ آخری پیغمبرﷺ اور آپؐ کی اُمّت آخری اُمّت ہے، اور اُن کے اہل بیت علیہم السلام لوگوں کے اعمال کے نگران اور اُن کے گواہ ہیں۔
آپؐ رحمت و رأفت کا مجسمہ اور خیر و برکت کا سرچشمہ تھے۔
اُن کی دوستی و دشمنی کا معیار صرف ایمان و عمل صالح ہے اور اس سلسلہ میں اپنے اور بیگانے میں کوئی امتیاز و تفرقہ روا نہیں رکھا۔
انہوں نے تبلیغ احکام اور اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے جان کی بازی لگا دی۔ دین کی خاطر دُکھ سہے، مصیبتیں جھیلیں، گھر بار چھوڑا اور ہجرت اختیار کی اور اپنی صلاحیتِ نظم و نسق سے مسلمانوں کی شیرازہ بندی کی اور ان کی فلاح و نجاح کا سامان کیا اور ہر طرح کے خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے دُشمنوں سے صف آرا ہوئے اور کسی موقع پر اپنی قوت و طاقت پر بھروسا نہیں کیا بلکہ ہمیشہ خُدا کی نصرت و تائید کے خواہاں اور اس کی مدد کے طالب رہے اور آخر حُسنِ نیّت و حُسنِ عمل کی بدولت انجام کار کی کامیابی انہیں نصیب ہوئی اور قبولیّتِ شفاعت کے درجۂ رفیعہ پر فائز ہوئے۔
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۳۶۱