اِحْمِلْ نَفْسَكَ مِنْ اَخِيْكَ عِنْدَ صَرْمِهٖ عَلَى الصِّلَةِ۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
خود کو اپنے بھائی کے لیے اس پر آمادہ کرو کہ جب وہ دوستی توڑے تو تم اُسے جوڑو۔
انسانیت کے لیے ضابطہ حیات تلاش کیا جائے تو امیر المؤمنینؑ کی یہ وصیت ایک مکمل دستاویز ہے۔ انسان ان ضوابط کو اپنا کر کامیاب زندگی کی معراج کو پا سکتا ہے۔ آپ نے اس حصے میں دوسروں سے برتاؤ کے طریقے بیان فرمائے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی تفصیل پیش کی جا سکتی ہے مگر اختصار کی بنا پر تفصیل پیش نہیں کی جا رہی۔ چھ اصول آپ نے اس تعلق کے لیے پیش فرمائے۔ سب سے پہلے فرمایا خود کو آمادہ کرو یعنی دوسروں کی برائیوں اور بے توجہیوں کے مقابلے میں اچھائی سے پیش آنا مشکل ہے مگر آپ اس مشکل پر عمل کریں تبھی آپ کامیاب قرار پائیں گے۔
(الف) وہ دوستی و تعلق توڑے تو آپ جوڑیں،
(ب) وہ منہ پھیرے تو آپ آگے بڑھیں اور لطف و مہربانی سے پیش آئیں،
(ج) وہ آپ کے لیے کنجوسی کرے تو آپ اس پر خرچ کریں،
(د) وہ دوری اختیار کرے آپ نزدیکی کی کوشش کریں،
(ھ) وہ سختی کرے آپ نرمی کریں،
(و) وہ خطا کا مرتکب ہو تو آپ اس کی خطا کے لیے عذر تلاش کریں یہاں تک کہ گویا آپ اس کے غلام اور وہ آقا ہے۔
البتہ امامؑ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ یہ برتاؤ بے محل نہ ہو اور نا اہل سے نہ ہو۔
ان اصولوں سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کسی سے ناراض ہو کر اور زبردستی کر کے اپنا نہیں بنا سکتے مگر محبت بھرے رویوں اور دوستانہ طرزِ عمل سے انہیں اپنا غلام بنا سکتے ہیں۔ مال خرچ کرکے آپ کسی کو خرید لیں تو وہ جسم کی خرید ہو گی مگر اخلاق سے آپ دل خرید سکتے ہیں۔ خاص کر یہ تعلق قریبی رشتوں سے ضرور نبھانا چاہیے۔
زندگی میں یہ ہنر بھی آزمانا چاہیے جنگ اگر اپنوں سے ہو تو ہار جانا چاہیے۔