شمع زندگیھوم پیج

86۔ دوست کا دشمن

لَا تَتَّخِذَنَّ عَدُوَّ صَدِيْقِكَ صَدِيْقاً فَتُعَادِيَ صَدِيْقَكَ۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
اپنے دوست کے دشمن کو دوست نہ بناؤ ورنہ اس دوست کے دشمن قرار پاؤ گے۔

دوستی ایک ایسا موضوع ہے جس پر امیر المؤمنینؑ کے متعدد فرامین موجود ہیں اور ان اصولوں کو اگر الگ جمع کیا جائے تو مکمل کتاب بنتی ہے۔ ’’نہج البلاغہ میں دوستی‘‘ کے عنوان سے بعض کتابیں موجود ہیں۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو اس وصیت میں امیر المؤمنینؑ نے بار بار دوستی کے متعلق ارشادات فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ دوست کے دشمن کو دوست نہ بناؤ۔

اکثر لوگ اپنی زندگی میں یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ ہر شخص سے دوستی کے خواہاں ہوتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں کہ انسان دو ضدوں کو ایک جگہ جمع کر لے اور ہر کسی کو خوش رکھے۔ اگر کوئی ایسا سوچتا ہے یا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ منافقت ہوگی۔ اگر آپ کا کوئی واقعی دوست ہے تو اس دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے دشمن کو دوست نہ بنائیں ورنہ پہلے شخص سے آپ کی دوستی مشکوک ہو جائے گی۔ ہاں یہ خیال رہے کہ دوست کی دوسرے شخص سے دشمنی کسی اصول اور قانون کے تحت ہو اگر دوست کی غلطی کی وجہ سے دشمنی ہے تو دوست کو متوجہ کیا جائے اور اس دشمنی کو ختم کیا جائے۔ یہ دوستی کے تقاضوں میں سے اور محبت کے ثبوت میں سے ایک اچھا عمل ہوگا۔

قرآن مجید نے اللہ کے دشمنوں سے دوستی سے منع کیا ہے اور امیر المؤمنینؑ نے اسی مفہوم کو اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ اس فرمان سے یہ مفہوم بھی اخذ ہوتا ہے کہ ایسے شخص سے دوستی رکھو جو انسانیت کا احترام کرنے والا ہو اور ہر کسی سے دشمنی رکھنے والا نہ ہو۔ اس لیے دوست کے انتخاب میں دقت لازمی ہے۔ دوست وہ بنائیں جو اپنے چھوٹے چھوٹے فوائد کی خاطر دوسروں کے بڑے بڑے خسارے کو پسند نہ کرتا ہو بلکہ دوست اسے بنائیں جو خود بڑے بڑے گھاٹے کھا کر دوسروں کے چھوٹے چھوٹے فوائد کی تمنا رکھتا ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button