وَ امْحَضْ اَخَاكَ النَّصِيْحَةَ حَسَنَةً كَانَتْ اَوْ قَبِيحَةً۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
دوست کو کھری کھری نصیحت کی باتیں سناؤ خواہ اسے اچھی لگیں یا بری۔
انسان کے قیمتی اثاثوں میں سے ایک اثاثہ مخلص دوست ہے۔ مخلص دوست کی نشانیوں میں سے اکثر یہ گنا جاتا ہے کہ وہ دوست کو کسی حال میں ناراض نہ کرے۔ ہمیشہ اس کی پسند و ناپسند کو ملحوظ خاطر رکھے۔
مگر امیر المؤمنینؑ نے یہاں ایک بہترین معیار بیان فرمایا کہ دوست کے خیر خواہ بنو اور اگر کہیں اس سے ایسا عمل سرزد ہو رہا ہے جو اس کے دین یا دنیا کے لیے نقصان دہ ہے تو اسے متوجہ کریں خواہ یہ تذکّر و نصیحت اسے اچھی لگے یا بری۔ اس لیے کہ حقیقی دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ دوست سے خیانت نہ کی جائے اور اگر دوست کوئی ایسا کام کر رہا ہے جو حقیقت کے خلاف ہے اور اس کے نقصان کا سبب ہے تو یہاں خاموش رہنا یا بعض اوقات اسے خوش رکھنے کے لیے اس کی ہاں میں ہاں ملانا خیانت و منافقت ہے۔
مثلاً ایک دوست اپنی علمی کمزوری کے با وجود خود کو بڑا صاحب علم سمجھتا ہے اور اپنے علم پر فخر کرتا ہے یا مثلاً جھوٹ بولتا ہے یا حسد کی مرض میں گرفتار رہتا ہے تو اسے اشارے کنائے سے آگاہ کریں اور اگر اس انداز سے وہ متوجہ نہ ہو اور نہ سمجھے تو تنہائی میں واضح الفاظ میں روکیں تاکہ وہ اس کمزوری کو خود سے دور کرے۔
اس فرمان سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اگر کوئی مخلص دوست آپ کی کسی کمزوری کی نشاندہی کرتا ہے تو اس سے ناراض ہونے کے بجائے شکر گزار ہوں کہ اس نے آپ کو ایک کمزوری سے مطلع کیا اور آپ اب خود کو اس کمزوری سے بچا سکتے ہیں۔