وَ تَجَرَّعِ الْغَيْظَ فَاِنِّيْ لَمْ اَرَ جُرْعَةً اَحْلَى مِنْهَا عَاقِبَةً وَ لَا اَلَذَّ مَغَبَّةً۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
غصہ کے کڑوے گھونٹ پی جاؤ کیونکہ میں نے نتیجہ کے لحاظ سے اس سے زیادہ خوش مزہ و شیریں گھونٹ نہیں پائے۔
انسان کی زندگی میں کئی ایسے مواقع آتے ہیں جب حالات اس کی طبیعت کے خلاف ہوتے ہیں یا دوسرے لوگوں کا برتاؤ ایسا ہوتا ہے جو اس کے مزاج کے موافق نہیں ہوتا۔ کوئی نا زیبا بات کرتا ہے یا کوئی گھٹیا حرکت انجام دیتا ہے تو انسان کے اعصاب میں تناؤ پیدا ہوتا ہے اور اسے غصہ آ جاتا ہے۔
ایسی صورت میں امیرالمومنینؑ نے غصے کو ایک بیماری قرار دیتے ہوئے اسے پی جانے اور کنٹرول کرنے کو کڑوی دوا قرار دیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں اب یہ غصہ کڑوی دوا کی طرح پی جاؤ تو غضب کے مرض سے شفا پاؤ گے اور یہ مرض ختم ہو جائے گا۔ اس مرض سے نجات کے بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ گھونٹ کڑوے نہیں بلکہ بہت ہی خوش مزہ تھے۔ انسان اگر غضب سے شکست کھا جاتا ہے اور اس بات یا عمل کے خلاف بات کرتا ہے تو یہ معاملہ آگے بڑھ جاتا ہے اور ایک بات جو برداشت نہیں کر سکا تھا اس جیسی کئی باتیں سننا اور سہنا پڑتی ہیں۔
امامؑ نے جہاں غیظ و غضب کو مرض سے تعبیر کیا ہے وہاں متعدد مقامات پر اس کے علاج سے بھی آگاہ فرمایا ہے۔ اہم یہ ہے کہ انسان اسے مرض اور کمزوری سمجھے۔ اس کے غصہ کے سامنے دوسرے کے خاموش ہو جانے کو اپنے لیے عزت و فخر یا فتح قرار نہ دے۔ اسی طرح سامنے والے کو بھی چاہیے کہ وہ غصہ میں مبتلا شخص سے ایک مریض سمجھ کر برتاؤ کرے اور ویسے ہی یا اس سے بھی سخت الفاظ میں اسے جواب دینے اور خاموش کرنے کے بجائے خود خاموش ہو جائے۔