لِنْ لِمَنْ غَالَظَكَ فَاِنَّهُ يُوشِكُ اَنْ يَلِيْنَ لَكَ۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
جو شخص تم سے سختی سے پیش آئے اس سے نرمی کا برتاؤ کرو کیونکہ اس رویّے سے وہ خود ہی نرم پڑ جائے گا۔
یہ انسانیت کی زینت کا ایک دستور العمل ہے۔ نرمی کے برتاؤ کی تاکید وہ فرما رہا ہے جو شجاعت میں اللہ کا شیر کہلاتا ہے۔ جسے اپنی زندگی میں کئی تلخیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں نرمی سے پیش آنے والے کے لیے نرمی کا حکم نہیں بلکہ سختی کا برتاؤ کرنے والے سے نرمی کا برتاؤ کرنے کا فرمان ہے۔
امامؑ اس کا نتیجہ واضح فرما رہے ہیں کہ زیادہ احتمال یہی ہے کہ آپ سے کوئی سختی کرے اور آپ اس سے نرمی کا برتاؤ کریں تو اس کا ضمیر زندہ ہوا تو وہ اپنی سختی پر نادم و شرمندہ ہوگا اور اگر آپ کی نرمی کے باوجود وہ نرمی سے پیش نہیں آتا تو آپ کی شرافت و سعادت سب کے سامنے آ جائے گی اور لوگوں کی نگاہیں اسی سختی کرنے والے کو برا جانیں گی۔ جواب میں آپ بھی سختی سے پیش آئیں گے تو معاملہ بڑھتے بڑھتے خطرناک حد تک پہنچ سکتا ہے اور یوں حالات کے بگاڑ میں آپ بھی شامل ہو جائیں گے اور اگر آپ نرمی کو اپنائیں گے تو نہ فقط یہ کہ معاملات بگڑنے سے بچ جائیں گے بلکہ ممکن ہے یہی آپس میں دوستی و محبت کی بنیاد بن جائے۔ یعنی محبت کے پانی سے نفرت کی آگ کے شعلوں کو خاموش کیا جا سکتا ہے۔
البتہ اس نرمی کا تعلق انسان کی ذاتی زندگی سے ہے۔ جہاں اصولوں اور قوم و عقیدے کی بات ہوتی ہے وہاں اگر نرمی دکھانے سے کام چلتا ہے تو کوشش کرنی چاہیے جیسے اللہ سبحانہ نے حضرتِ موسی ؑ سے کہا کہ فرعون کو نرمی سے سمجھاؤ اور جب وہ نہ سمجھا تو خود اللہ نے اسے دریا میں غرق کر دیا۔ یعنی نرمی سے اگر مد مقابل کی گستاخی بڑھتی ہے تو وہاں نرمی نہیں سختی ہی اس مرض کا علاج ہو گا۔