خُذْ عَلٰی عَدُوِّكَ بِالْفَضْلِ فَاِنَّهٗ اَحْلَى الظَّفَرَيْنِ۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
دشمن سے فضل و کرم سے پیش آؤ کیونکہ دو قسم کی کامیابیوں میں سے یہ زیادہ میٹھی کامیابی ہے۔
دشمن سے لطف و کرم کے ساتھ پیش آؤ یہ کوئی معمولی دستور العمل نہیں۔ یہ ایک کامیاب انسان کا طرز زندگی ہے۔ وہ شخصیت جو اپنے قاتل کے لیے بھی اپنے بچوں کو وصیت کر رہی تھی کہ اُس نے مجھے ایک وار سے زخمی کیا ہے لہذا میرے مرنے کے بعد اس پر بھی ایک ہی وار کرنا اور دیگر مہربانی کی تاکیدیں اس کے سوا تھیں۔
امیرالمومنینؑ کی یہ وصیت جو امامؑ نے اپنے بیٹے کے لیے تحریر فرمائی کے بارے مشہور عیسائی مصنف جورج جورداق نے لکھتے ہیں کہ علیؑ نے اپنے بیٹے کو وصیت کی ”آپ اور آپ کا انسانی بھائی” یہ انسان کو انسان کا بھائی سمجھنے والی شخصیت کی وصیت ہے۔ اگر انسانوں میں انسانیت کایہ رشتہ بیدار ہو جائے تو دُنیا کے بہت سے مسائل حل ہو جا ئیں۔
یہاں آپؑ دشمن سے لطف و کرم کی بات کر رہے ہیں۔ اور فرماتے ہیں کہ دشمن سے لطف و کرم سے پیش آنا دو کامیابیوں میں سے میٹھی اور خوش مزہ کامیابی ہے۔اس لیے کہ اگر دشمن پر غلبہ و انتقام کے ذریعہ کامیاب ہوئے تو ممکن ہے کل اُسے دوبارہ قوّت و طاقت حاصل ہو اور وہ آپ سے جنگ پر آمادہ ہو سکتا ہے اور آپ کو شکست بھی دے سکتا ہے تو یہ وقتی کامیابی حساب ہو گی۔ مگر آپ نے اگر عفو و احسان کے ذریعے دشمنی کو مٹا دیا تو مخالفت ختم ہو سکتی ہے اور یہ دشمنی و انتقام دوستی و احسان میں بدل سکتی ہے اور یہ بڑی اور دیرپا کامیابی ہو گی۔