شمع زندگی

91۔ تعلقات کی حد

اِنْ اَرَدْتَ قَطِيْعَةَ اَخِيْكَ فَاسْتَبْقِ لَهٗ مِنْ نَفْسِكَ بَقِيَّةً يَرْجِعُ اِلَيْهَا اِنْ بَدَا لَهٗ ذَلِكَ يَوْماً مَّا۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
کسی دوست سے تعلقات قطع کرنا چاہو تو اپنے دل میں اتنی جگہ رہنے دو کہ اگر اُس کا رویّہ بدلے تو اس کے لئے گنجائش ہو۔

یہ انسانی تعلقات اور معاشرتی روابط کے لیے ایک نہایت ہی قیمتی اصول ہے۔ معاشرتی موضوعات پر لکھی جانے والی کتابوں میں آپ کو یہ طریقے تو عام ملیں گے کہ آپ تعلقات بڑھا کیسے سکتے ہیں تعلقات ٹوٹنے سے بچا کیسے سکتے ہیں اور معاشرے میں اپنے مقام کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں مگر امیرالمومنینؑ کا یہ فرمان خاص اہمیت کا حامل ہے کہ جب حالات مجبور کریں اور تعلقات توڑنے کی نوبت آ جائے تو اُس وقت سب راہوں کو مکمل بند نہ کریں۔

تعلقات توڑتے وقت بھی تعلقات جوڑنے کی سوچ ذہن میں رہے اور اتنی گنجائش باقی رہے کہ کل اگر زمانہ اور تجربات حالات بدل دیں تو واپسی کا راستہ باقی ہو۔ ایک دوسرے کا آمنا سامنا کرنا پڑے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا پڑے تو شرمساری نہ ہو۔ اگر یہ سوچ انسان کے ذہن میں رہے تو پہلے تو یہ روابط کٹنے سے ہی محفوظ رہیں گے اور اگر روابط کٹ بھی گئے تو زیادہ امکان یہی رہے گا کہ ایک دن وہ تعلقات دوبارہ جڑ جائیں۔

اس فرمان سے یہ مفہوم بھی اخذ ہوتا ہے کہ رشتے ناتے کی اور دوستی و بھائی چارے کی اہمیت کو سمجھیں۔ ان رشتوں کو اپنے لیے آئینہ سمجھیں۔اگر کسی وجہ سے آئینہ میں کوئی کمی دیکھ کر اس سے خفا ہو گئے تو اسے توڑیں نہیں اس لیے کہ ٹوٹا ہوا آئینہ جڑ بھی گیا تو داغ اور نشان باقی رہیں گے۔ خفگی ہو جائے تو وقتی طور پر منہ موڑ لیں اس لیے کہ کبھی پلٹ کر اسے دیکھنا پڑے تو اس میں آپ کا چہرہ صاف نظر آئے گا خراش زدہ نہیں دکھائی دے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button