93۔ اہل خانہ سے برتاؤ
لَا يَكُنْ اَهْلُكَ اَشْقَى الْخَلْقِ بِكَ۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱ )
تمھارے گھر والے تمھارے ہاتھوں دُکھی نہ ہوں۔
انسان کی پہچان کا بہترین ذریعہ اُس کے قریبی ہوتے ہیں۔ اہل خانہ ہی وہ قریبی ہیں جو اُس کی اچھائیوں یا کوتاہیوں کے گواہ ہوتے ہیں۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے یہاں خبردار کیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ آپ بہت سے لوگوں کی خدمت میں مشغول ہوں مگر جن کی زندگی آپ کے سہارے پر ہے اُن سے آپ کا برتاؤ ایسا ہو کہ وہ آپ سے نفرت کرنے لگیں اور آپ سے نالاں ہوں۔
گھر میں پیار اور محبت کی فضا قائم ہونی چاہیے اور اگر آپ انسانیت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں یا اچھائیوں میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اہل خانہ کی یوں تربیت کریں کہ وہ خیر و بھلائی کے سفر میں آپ کے پر و بال بن جائیں۔ آپ کو دنیا کی جو نعمات میسر ہیں اُنھیں اہل خانہ پر خرچ کریں تاکہ وہ آپ کے سائے میں رہتے ہوئے گھر کو جنت محسوس کریں جہنم شمار نہ کریں۔
جس سے قریبی خوش ہوں گے اور سہولت و راحت میں ہوں گے، دور والے بھی اس سے اچھائیوں کی امید رکھیں گے۔ آپ کی بد نظمی، بے توجہی اور بد اخلاقی کی وجہ سے گھر والے آپ کے دشمن اور آپ سے دل تنگ نہ ہوں۔ اہل خانہ کے حقوق کا خاص خیال رکھا جائے۔
کسی بزرگ نے کیا خوب کہا کہ ہزاروں میل دور خوشیاں بانٹنے سے پہلے اپنے گھر کے آنگن میں خوشیاں بانٹیں۔ اتنی خوشیاں بانٹیں کہ آپ کے گھر والے بھی خوشیاں بانٹنے والے بن جائیں۔ دوسروں سے رشتے بنانے سے پہلے اللہ نے جن سے آپ کا پیدائش سے رشتہ بنا دیا ہے اسے اتنا مضبوط کریں کہ دوسروں کے لیے نمونہ بن جائے۔ اہل خانہ کے لیے ایسا سایہ بن جائیں جس کے نیچے آ کر وہ خود کو دنیا کی تپش سے محفوظ سمجھیں اور راحت پائیں۔