95۔ احسان کا بدلا
لَيْسَ جَزَاءُ مَنْ سَرَّكَ اَنْ تَسُوْءَهٗ۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
جو تمھاری خوشی کا باعث ہو اس کا صلہ یہ نہیں کہ اُس سے برائی کرو۔
انسان ہمیشہ دوسروں سے اچھائی کی امید رکھتا ہے مگر کوئی اس سے اچھائی کرے تو اُسے جلد بھول جاتا ہے۔ اگر کوئی زندگی بھر اچھائی سے پیش آتا ہے اور کسی ایک موڑ پر اُس سے کوتاہی ہو جاتی ہے یا وہ حالات کی وجہ سے اُس کی خواہش کو پورا نہیں کر سکتا تو گزشتہ ساری اچھائیوں پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔ امیرالمومنینؑ نے یہاں قرآنی اصولِ زندگی کو اپنے لفظوں میں پیش کیا ہے۔
قرآن کا حکم ہے کہ احسان کا بدلا احسان سے دو۔
آپؑ یہاں فرماتے ہیں کہ کسی نے زندگی میں آپ کی خوشی و مسرت کا اہتمام کیا تو اُس عمل کو یاد رکھیں اور آپ اس تلاش میں رہیں کہ اُس کی مسرت کا بدلا مسرت کی صورت میں دیں۔ خیال رہے کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرا آپ کی خوشیوں کے لیے کوشش کرتا رہے اور آپ اُس کی جڑیں کاٹنے کے انتظار میں رہیں۔
انسان اگر اتنا یاد رکھے کہ فلاں شخص فلاں موقع پر میرے لیے خوشی و مسرت کا سبب بنا تھا تو یہ یاد انسانی معاشرے میں خوشگوار اور مثبت اثرات چھوڑے گی۔ لوگ عموماً ایسے لحظات کو بھلا دیتے ہیں اور اگر کہیں کسی سے جانے یا نا جانے میں کوتاہی ہو جاتی ہے تو ساری زندگی اُسے یاد رکھا جاتا اور مختلف مواقع پر اسے دُہرایا جاتا ہے۔ یعنی جس چیز کو بھلا دینا چاہیے اسے یاد رکھا جاتا ہے اور جسے یاد رکھنا چاہیے اسے بھلا دیا جاتا ہے۔
یہ کم ظرفی کی نشانی ہے۔ البتہ اچھائی و احسان کرنے والے کو کسی کے ایسے کردار سے دل شکستہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ایک شخص احسان فراموش ہے تو سب ایسے نہیں ہوا کرتے اور اس کا احسان خدا کے لیے ہو تو پھر بندے سے اس احسان کا شکریہ یا جزا کی توقع ہی نہیں ہونی چاہیے۔