مَا اَقْبَحَ الْخُشُوْعَ عِنْدَ الْحَاجَةِ،وَ الْجَفَاءَ عِنْدَ الْغِنَى۔ (نہج البلاغہ وصیت ۳۱)
ضرورت پڑنے پر گڑ گڑانا اور مطلب نکل جانے پر کج خلقی سے پیش آنا کتنی بُری عادت ہے۔
انسان کا انسان سے تعلق کچھ اصولوں پر قائم ہو تو یہ سعادت انسانی میں اضافہ کا سبب بنے گا اور اگر یہی تعلق ضرورتوں کی بنیاد پر قائم ہوگا اور مفاد کا حصول مدنظر ہو گا تو انسان کی منافقت اور پست فطرت ہونے کی نشاندہی کرے گا۔
امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے اس فرمان میں خود غرضی کی بنا پر قائم ہونے والے سلوک کی مذمت کی ہے۔ بعض لوگ ضرورت پڑتی ہے تو خود کو حقارت کی حد تک گرا دیتے ہیں اور ضرورت نہ رہے تو نہ فقط احترام کو بھول جاتے ہیں بلکہ بے احترامی و جفا پر اُتر آتے ہیں۔
آپ علیہ السلام نے یہاں عمومی اصول ارشاد فرمایا ہے کہ دولت مل جائے یا کسی سے مطلب نکل آئے تو متکبر بن کر اُسے بھلائیں نہیں اور اگر فقر سے امتحان ہونے لگے تو خود کو دنیا والوں کے سامنے ذلیل مت کریں۔ کریم النفس شخص پر آسانیاں اور مشکلیں آتی رہتی ہیں مگر اُس کے اصول بدلا نہیں کرتے۔ مشکل اور سہولت دونوں حالتوں میں وہ اپنے مقام و منزلت کا محافظ ہوتا ہے۔ مشکلوں میں وہ مضبوط پہاڑ کے مانند سر بلند ہی رہتا ہے اور مشکلوں کے سامنے جھکتا نہیں بلکہ دوسروں کا سہارا بنا رہتا ہے اور اگر اسے بلندی عطا ہو جائے تو پھر بھی پہاڑ کی چوٹی کی طرح اس کے پاس جو ہوتا ہے اسے اپنے لئے سمیٹ کر نہیں رکھتا بلکہ نیچے والوں کے لیے بھیج دیتا ہے۔