97۔ پریشانیوں کا مقابلہ
اِطْرَحْ عَنْكَ وَارِدَاتِ الْهُمُوْمِ بِعَزَائِمِ الصَّبْرِ وَحُسْنِ الْيَقِيْنِ۔ (نہج البلاغہ وصیت 31)
ٹوٹ پڑنے والے غموں کو صبر کی پختگی اور حسن یقین سے دور کرو۔
غموں کے طوفان اور خوشیوں کی بارشیں انسان کی زندگی کا حصہ ہیں۔ غم بڑھیں تو گھبرایا نہ جائے خوشیاں ملیں تو خود کو بھلایا نہ جائے۔ امیرالمومنین امام علی علیہ السلام غموں کے طوفانوں کے سامنے بند باندھنے کے لیے دو طریقے بیان فرماتے ہیں۔ ان موضوعات پر ماہرین نفسیات نے بڑی بڑی کتابیں لکھیں اور غموں سے نجات اور خوش رہنے کے طریقے بیان کیے ہیں۔
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں زمانے کے حالات اور دنیا کے تغیرات اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ کبھی مرض ہے تو کبھی فقر، کبھی پیاروں کی جدائی ہے تو کبھی قریبیوں کی بے وفائی، ان سے دل دُکھتا رہتا ہے مگر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مضبوط و محکم صبر اور پختہ یقین ان دکھوں سے نجات کا ذریعہ ہے۔ صبر یعنی جو دکھ آیا ہے اُسے نبھانا ہے، آہ و زاری اسے دور نہیں کر سکتی بلکہ اپنا دُکھ بھی بڑھے گا اور اُس سے محبت کرنے والے اور اردگرد والے بھی دُکھی ہو جائیں گے۔
دوسرا علاج یہ ہے کہ یقین محکم ہو کہ جو دُکھ دیتا ہے وہ دُکھوں کو دور بھی کر دیتا ہے۔ آپ کے دُکھوں سے بھی بڑے دُکھ لوگوں پرگزرے ہیں انھوں نے برداشت کئے، ان کی زندگی کی رفتار ان غموں سے کم نہ ہوئی بلکہ ان غموں نے زندگی کے سفر کو اور تیز کر دیا اور دُکھوں کے بعد انہیں زندگی میں بڑی کامیابیاں نصیب ہوئیں۔ یہ یقین رہے گا تو دُکھ جلد دور ہو جائیں گے اور اگر دُکھ دور نہ بھی ہوئے تو زندگی کا سفر رُکے گا نہیں۔