10۔ طلب پناہ کے سلسلے کی دعا
(۱۰) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
فِی اللَّجَاِ اِلَى اللّٰهِ تَعَالٰى
اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کرنےکے سلسلہ میں حضرتؑ کی دُعا:
اَللّٰهُمَّ اِنْ تَشَاْ تَعْفُ عَنَّا فَبِفَضْلِكَ، وَ اِنْ تَشَاْ تُعَذِّبْنَا فَبِعَدْلِكَ، فَسَهِّلْ لَنا عَفْوَكَ بِمَنِّكَ، وَ اَجِرْنَا مِنْ عَذَابِكَ بِتَجَاوُزِكَ، فَاِنَّهٗ لَا طَاقَةَ لَنا بِعَدْلِكَ، وَ لَا نَجَاةَ لِاَحَدٍ مِّنَّا دُوْنَ عَفْوِكَ.
بارالٰہا ! اگر تو چاہے کہ ہمیں معاف کر دے تو یہ تیرے فضل کے سبب سے ہے، اور اگر تو چاہے کہ ہمیں سزا دے تو یہ تیرے عدل کی رُو سے ہے۔ تو اپنے شیوہ ٔاحسان کے پیش نظر ہمیں پوری معافی دے، اور ہمارے گناہوں سے درگزر کر کے اپنے عذاب سے بچا لے۔ اس لئے کہ ہمیں تیرے عدل کی تاب نہیں ہے اور تیرے عفو کے بغیر ہم میں سے کسی ایک کی بھی نجات نہیں ہو سکتی۔
یَا غَنِیَّ الْاَغْنِیَآءِ، هَا نَحْنُ عِبَادُكَ بَیْنَ یَدَیْكَ، وَ اَنَاۤ اَفْقَرُ الْفُقَرَآءِ اِلَیْكَ، فَاجْبُرْ فَاقَتَنَا بِوُسْعِكَ،وَ لَا تَقْطَعْ رَجَآءَنَا بِمَنْعِكَ، فَتَكُوْنَ قَدْ اَشْقَیْتَ مَنِ اسْتَسْعَدَ بِكَ، وَ حَرَمْتَ مَنِ اسْتَرْفَدَ فَضْلَكَ، فَاِلٰى مَنْ حِیْنَئِذٍ مُّنْقَلَبُنَا عَنْكَ، وَ اِلٰۤى اَیْنَ مَذْهَبُنَا عَن بَابِكَ.
اے بے نیازوں کے بے نیاز! ہاں تو پھر ہم سب تیرے بندے ہیں جو تیرے حضور کھڑے ہیں، اور میں سب محتاجوں سے بڑھ کر تیرا محتاج ہوں۔ لہٰذا اپنے بھرے خزانے سے ہمارے دامن فقر و احتیاج کو بھر دے، اور اپنے دروازے سے رد کر کے ہماری امیدوں کو قطع نہ کر۔ ورنہ جو تجھ سے خوش حالی کا طالب تھا وہ تیرے ہاں سے حرماں نصیب ہو گا، اور جو تیرے فضل سے بخشش و عطا کا خواستگار تھا وہ تیرے در سے محروم رہے گا۔ تو اب ہم تجھے چھوڑ کر کس کے پاس جائیں اور تیرا در چھوڑ کر کدھر کا رخ کریں۔
سُبْحَانَكَ نَحْنُ الْمُضْطَرُّوْنَ الَّذِیْنَ اَوْجَبْتَ اِجَابَتَهُمْ، وَ اَهْلُ السُّوْٓءِ الَّذِیْنَ وَعَدْتَّ الْكَشْفَ عَنْهُمْ، وَ اَشْبَهُ الْاَشْیَآءِ بِمَشِیَّتِكَ، وَ اَوْلَى الْاُمُوْرِ بِكَ فِیْ عَظَمَتِكَ، رَحْمَةُ مَنِ اسْتَرْحَمَكَ، وَ غَوْثُ مَنِ اسْتَغَاثَ بِكَ، فَارْحَمْ تَضَرُّعَنَاۤ اِلَیْكَ، وَ اَغْنِنَاۤ اِذْ طَرَحْنَاۤ اَنْفُسَنَا بَیْنَ یَدَیْكَ.
تو اس سے منزہ ہے (کہ ہمیں ٹھکرا دے جبکہ) ہم ہی وہ عاجز و بے بس ہیں جن کی دُعائیں قبول کرنا تو نے اپنے اوپر لازم کر لیا ہے، اور وہ درد مند ہیں جن کے دکھ دور کرنے کا تو نے وعدہ کیا ہے، اور تمام چیزوں میں تیرے مقتضائے مشیت کے مناسب اور تمام امور میں تیری بزرگی و عظمت کے شایان یہ ہے کہ جو تجھ سے رحم کی درخواست کرے تو اس پر رحم فرمائے اور جو تجھ سے فریاد رسی چاہے تو اس کی فریاد رسی کرے۔ تو اب اپنی بارگاہ میں ہماری تضرع و زاری پر رحم فرما، اور جبکہ ہم نے اپنے کو تیرے آگے (خاک مذلّت پر) ڈال دیا ہے تو ہمیں (فکر و غم سے) نجات دے۔
اَللّٰهُمَّ اِنَّ الشَّیْطٰنَ قَدْ شَمِتَ بِنَاۤ اِذْ شَایَعْنَاهُ عَلٰی مَعْصِیَتِكَ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ لَا تُشْمِتْهُ بِنَا بَعْدَ تَرْكِنَاۤ اِیَّاهُ لَكَ، وَ رَغْبَتِنَا عَنْهُ اِلَیْكَ.
بار الٰہا! جب ہم نے تیری معصیت میں شیطان کی پیروی کی تو اس نے (ہماری اس کمزوری پر) اظہار مسرت کیا۔ تو محمدﷺ اور ان کی آل اطہارؑ پر درود بھیج اور جب ہم نے تیری خاطر اسے چھوڑ دیا، اور اس سے روگردانی کر کے تجھ سے لو لگا چکے ہیں تو کوئی ایسی افتاد نہ پڑے کہ وہ ہم پر شماتت کرے۔
–٭٭–
یہ دُعا، طلبِ پناہ، خواستگاریٔ رحمت اور عدلِ الٰہی کے تقاضوں سے بے بسی و ناطاقتی کے اعتراف کے سلسلہ میں ہے۔
’’رحمت‘‘ و ’’عدالت‘‘ اللہ کی دو صفتیں ہیں جو دو مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرتی ہیں: ایک پہلو بخشش و مغفرت کا ہے اور دوسرا پہلو تعزیر و عقوبت کا۔
’’رحمت‘‘ کا تقاضا یہ ہے کہ وہ گنہگاروں اور مجرموں سے درگزر کرے اور ’’عدالت‘‘ کا تقاضا یہ ہے کہ اُن کے گناہوں اور جرموں کی انہیں سزا دے۔
جب اُس کے عفو و رحمت کی وسعت پر نظر جاتی ہے تو دل میں ’’رجاء‘‘ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، اور جب اُس کے غضب و انتقام کا تصور ہوتا ہے تو دل ’’خوف‘‘ سے لرز اٹھتا ہے۔ مگر اس ’’خوف و رجاء‘‘ کے ملے جلے جذبات میں رحمت کا نقش پہلے دل و دماغ پر اُبھرتا ہے اور قہر و غضب کا احساس بعد میں ہوتا ہے۔ کیونکہ دنیا و آخرت کے ہر گوشہ میں اصل رحمت ہی کی کارفرمائی ہے اور تعزیر و انتقام تو بعض ناگزیر حالتوں کیلئے ہے جہاں سزا وعقوبت کے بغیر چارہ ہی نہیں ہے۔
چنانچہ امام علیہ السلام نے اپنے دلنشین اور مخصوص اندازِ طلب میں پہلے رحمت کا تذکرہ کیا ہے اور بعد میں عدالت کا، اس طرح کہ:
اگر تُو معاف کر دے تو یہ تیری رحمت کی کارسازی ہے اور اگر سزا دے تو یہ تیری عدالت کا تقاضا ہے۔
پھر اس کی رحمت و عدالت کے دونوں رُخوں کو سامنے رکھتے ہوئے بارگاہِ الٰہی میں عرض کرتے ہیں کہ:
اگر نجات کا فیصلہ تیرے عدل کی رُو سے ہو تو دنیا میں کوئی بھی نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ اور کون ایسا ہو سکتا ہے جو تیری رحمت سے بے نیاز ہو کر صرف اپنے اعمال کے بل بوتے پر نجات و رستگاری کا پروانہ حاصل کر لے جائے؟ لہٰذا جب نجات تیرے دامن عفو و رحمت سے وابستہ ہے تو بغیر کسی محاسبہ و باز پُرس کے ہمیں معاف کر دے اور اپنے فضل و احسان سے محروم نہ کر۔اس لئے کہ اے بے نیازوں کے بے نیاز! ہم سب بندے تیرے حضور کھڑے ہیں اور میں سب محتاجوں سے بڑھ کر تیرا محتاج ہوں۔
اس جملہ میں نہ معلوم طلب و نیاز کی کتنی منزلیں طے ہو گئی ہیں اور التجا و استرحام کے کتنے دفتر سمٹ آئے ہیں۔
سید نعمت اللہ جزائریؒ اس جملہ کے ذیل میں تحریر کرتے ہیں کہ:
وَ يُمْكِنُ اسْتِخْرَاجُ زُهَآءِ مِائَةٍ لَطِيْفَةٍ مِّنْ هٰذِهِ الْفَقْرَةِ الشَّرِيْفَةِ.
اگر غور کیا جائے تو اس جملہ سے سو کے بقدر دقائق و نکات مستنبط ہو سکتے ہیں[۱]
چنانچہ پہلی نظر اس صنعت طباق و تضاد پر پڑتی ہے جو ’’اغنی الاغنیاء‘‘ اور ’’افقر الفقراء‘‘ میں ہے کہ جب اسے سب سے زیادہ غنی کہا ہے تو اس کے مقابلہ میں اپنے کو بہت زیادہ فقیر کہہ کر پیش کیا ہے۔ اور اس سے طلب و سوال کے استحقاق پر بھی روشنی پڑتی ہے اس طرح کہ جب وہ غنی ہے تو کسی نعمت و دولت کے بخشنے سے قاصر نہیں ہو سکتا۔ اور ادھر فقر ہے تو فقیر اپنی ضرورت و احتیاج کے پیش نظر مانگے گا اور جب کہ پانی کا بہاؤ اُدھر کا رخ کرتا ہے جدھر نشیب ہوتا ہے تو کریم کا دستِ کرم بھی اُدھر بڑھنا چاہیے جہاں فقر و احتیاج ہو۔ اور پھر وہ صرف غنی نہیں بلکہ ’’اغنی الاغنیاء‘‘ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہر لحاظ سے غنی و بے نیاز ہے۔ ایسا نہیں کہ ایک لحاظ سے غنی ہو اور ایک اعتبار سے محتاج کہ یہ کہا جا سکے کہ اس سوال کا تعلق اس پہلو سے ہے جس میں احتیاج کارفرما ہے اور اسی طرح دوسری طرف صرف احتیاج نہیں بلکہ حد سے بڑھی ہوئی احتیاج ہے۔ تو اس کے فضل و کرم کا زیادہ محل وہی ہو گا جہاں احتیاج اپنی پوری بے سر و سامانی کے ساتھ ہو۔
اس مقام پر لفط’’ھا‘‘ سے جو حرف تنبیہ ہے قدرت کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ حالانکہ حرف تنبیہ اس محل پر استعمال ہوتا ہے جہاں مخاطب کو جھنجھوڑنا اور غفلت و بے توجہی سے ہوشیار کرنا مقصود ہوتا ہے۔ مگر اللہ کو متنبہ و ہوشیار کرنے کے کیا معنی جب کہ اس پر نہ غفلت طاری ہو سکتی ہے اور نہ وہ بندوں کے حال سے غافل و بے خبر رہ سکتا ہے۔ تو اس محل پر اللہ کو متنبہ کرنا نہیں ہے، بلکہ اس تنبیہ کے پردے میں اپنی غفلت و کوتاہی کا اعتراف مقصود ہے۔ اس طرح کہ جب انسان گناہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے معنوی لحاظ سے دور ہو جاتا ہے اور جوں جوں گناہ میں بڑھتا جاتا ہے اس دوری کا احساس بھی بڑھتا جاتا ہے اور وہ یہ تصور کرنے لگتا ہے کہ اب وہ اللہ سے اتنا دُور ہو چکا ہے کہ وہ اسے نظرانداز کر دے اور ناقابلِ التفات سمجھ کر اپنی توجہ کا رُخ اُس سے موڑ لے۔ اس احساس کے پیش نظر جو خود اس کی غفلت کا نتیجہ ہوتا ہے، اللہ کو گویا اپنے سے غافل قرار دے لیتا ہے اور اس موقع پر خطاب کیلئے حرف تنبیہ کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ اور جب تضرع و زاری اور دُعا و مناجات سے اس کی طرف رجوع ہوتا ہے تو یہ دُوری کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور اس کی طرف متوجہ ہونے سے اُسے اپنے سے قریب تر تصور کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ جب اپنی غفلت کے پیشِ نظر دُوری کا تصور ہوا تو لفظ ’’ھا‘‘ سے اُسے متوجّہ کیا اور جب اس کی طرف رجوع ہونے سے قرب کا احساس ہوا تو فرمایا: «بَيْنَ يَدَيْكَ«: ’’ہم تیرے سامنے ہی تو ہیں‘‘۔ اور اسی امر کی طرف اس حدیث قدسی میں اشارہ ہے:
مَنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ اِلَيْهِ ذِرَاعًا.
جو ایک بالشت مجھ سے قریب ہوتا ہے میں ایک ہاتھ اس کے قریب جاتا ہوں۔ [۲]
اور کبھی اس محل پر بھی حرف تنبیہ لایا جاتا ہے جہاں مخاطب کو خصوصی توجہ دلا کر کوئی اہم اور غیر معمولی بات کہنا ہوتی ہے اور اس طریقہ سے مقصد کی اہمیّت کو واضح کرنا مقصود ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس مقصد سے اہم مقصد کیا ہو سکتا ہے جو انسان کی دائمی فلاح و بہبود سے متعلق ہو۔ اور پھر مقصد کی اہمیّت اس کی مقتضی ہوتی ہے کہ پوری عاجزی و سرافگندگی کے ساتھ سوال کیا جائے اور انتہائی تضرع و اصرار سے دامن طلب پھیلایا جائے تو اس مختصر اور دو حرفی لفظ ’’ھا‘‘ میں اپنی غفلت اور اس کے نتیجہ میں اللہ کی طرف سے بے توجّہی، مدّعا و مقصد کی اہمیت اور اس کیلئے گڑگڑاہٹ سب معانی سمٹ کر جمع ہو گئے ہیں۔
حضرتؑ نے اس مورد پر لفظ ’’عباد‘‘ استعمال کی ہے جو عبد کی جمع ہے تو یہ وہی اسلوب ہے جو ارشادِ الٰہی ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ﴾ [۳]: ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں‘‘ کا ہے کہ تنہا عبادت کرنے والا بھی عبودیت کا اظہار بصورت جمع کرتا ہے، گویا وہ عبادت گزاروں کے زمرہ میں منسلک ہو کر اپنی عبادت کو اللہ کے حضور پیش کرتا ہے تا کہ ان میں سے قبول ہونے والی عبادتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی قبولیت کا شرف حاصل کر لے جائے۔ اسی طرح حضرتؑ کے ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ اگر میں تیرے کرم و رحمت کا سزاوار نہیں تو ان بندوں میں جنہیں میں نے اپنے ساتھ شامل کیا ہے، بے گناہ، کمزور و ناتواں بوڑھے، عاجز و درماندہ افراد بھی ہیں۔ ان میں کوئی نہ کوئی تو تیری نظرِ کرم کا مستحق اور قابلِ شفقت و مرحمت ہو گا۔ تو میں بھی ان کی صف میں کھڑا ہوا جاتا ہوں تا کہ جب تیری رحمت جوش میں آئے اور تیرے فضل و انعام کی گھنگھور گھٹائیں برسیں تو میرا دامن بھی چھلک جائے، کیونکہ ابر باراں جب برستا ہے بلا امتیاز برستا ہے اور پھر لفظ ’’عباد‘‘ سے اس آیت کی طرف اشارہ بھی ہے کہ:
﴿يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ﴾
اے میرے بندو! جنہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی ہے میری رحمت سے بے آس نہ ہو جاؤ۔[۴]
مقصد یہ ہے کہ جب تو نے اپنے ’’عباد‘‘ کو اپنی رحمت کا امیدوار بنایا ہے تو ہم وہی ’’عباد‘‘ تو ہیں جو جھولی پھیلائے، تجھ سے آس لگائے تیرے دَر پر ایستادہ ہیں۔ بلکہ «طَرَحْنَاۤ اَنْفُسَنَا بَیْنَ یَدَیْكَ«: ’’ہم نے اپنے کو تیرے آگے خاکِ مذلت پر ڈال دیا ہے‘‘، تو اب آگے تیری خوشی جو سرفراز کرے۔
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ نور الانوار فی شرح الصحیفۃ السجادیہ، السید نعمت اللہ الجزائریؒ، ج ۱، ص ۱۴۸
[۲]۔ عوالی اللئالی، ج۱، ص ۵۶
[۳]۔ سورۂ فاتحہ، آیت ۴
[۴]۔ سورۂ زمر، آیت ۵۳