11۔ انجام بخیر ہونے کی دعا
(۱۱) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
بِخَوَاتِمِ الْخَیْرِ
انجام بخیر ہونے کی دُعا:
یَا مَنْ ذِكْرُهٗ شَرَفٌ لِّلذَّاكِرِیْنَ، وَ یَا مَنْ شُكْرُهٗ فَوْزٌ لِّلشَّاكِرِیْنَ، وَ یَا مَنْ طَاعَتُهٗ نَجَاةٌ لِّلْمُطِیْعِیْنَ، صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اشْغَلْ قُلُوْبَنَا بِذِكْرِكَ عَنْ كُلِّ ذِكْرٍ، وَ اَلْسِنَتَنَا بِشُكْرِكَ عَنْ كُلِّ شُكْرٍ، وَ جَوَارِحَنَا بِطَاعَتِكَ عَنْ كُلِّ طَاعَةٍ.
اے وہ ذات! جس کی یاد، یاد کرنے والوں کیلئے سرمایۂ عزت، اے وہ جس کا شکر، شکر گزاروں کیلئے وجۂ کامرانی، اے وہ جس کی فرمانبرداری فرمانبرداروں کیلئے ذریعہ نجات ہے، رحمت نازل فرما محمدﷺ اور ان کی آلؑ پر اور ہمارے دلوں کو اپنی یاد میں، اور ہماری زبانوں کو اپنے شکریہ میں، اور ہمارے اعضاء کو اپنی فرمانبرداری میں مصروف رکھ کر، ہر یاد، ہر شکر یہ اور ہر فرمانبرداری سے بے نیاز کر دے۔
فَاِنْ قَدَّرْتَ لَنا فَرَاغًا مِّنْ شُغْلٍ فَاجْعَلْهُ فَرَاغَ سَلَامَةٍ لَّا تُدْرِكُنَا فِیْهِ تَبِعَةٌ، وَ لَا تَلْحَقُنَا فِیْهِ سَاْمَةٌ، حَتّٰى یَنْصَرِفَ عَنَّا كُتَّابُ السَّیِّئَاتِ بِصَحِیْفَةٍ خَالِیَةٍ مِّنْ ذِكْرِ سَیِّئَاتِنَا، وَ یَتَوَلّٰى كُتَّابُ الْحَسَنَاتِ عَنَّا مَسْرُوْرِیْنَ بِمَا كَتَبُوْا مِنْ حَسَنَاتِنَا.
اور اگر تُو نے ہماری مصروفیتوں میں کوئی فراغت کا لمحہ رکھا ہے تو اسے سلامتی سے ہمکنار کر، اس طرح کہ نتیجہ میں کوئی گناہ دامن گیر نہ ہو اور نہ خستگی رونما ہو، تاکہ برُائیوں کو لکھنے والے فرشتے اس طرح پلٹیں کہ نامۂ اعمال ہماری برائیوں کے ذکر سے خالی ہو، اور نیکیوں کو لکھنے والے فرشتے ہماری نیکیوں کو لکھ کر مسرور و شاداں واپس ہوں۔
وَ اِذَا انْقَضَتْ اَیَّامُ حَیَاتِنَا، وَ تَصَرَّمَتْ مُدَدُ اَعْمَارِنَا، وَ اسْتَحْضَرَتْنَا دَعْوَتُكَ الَّتِیْ لَا بُدَّ مِنْهَا وَ مِنْ اِجَابَتِهَا، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اجْعَلْ خِتَامَ مَا تُحْصِیْ عَلَیْنَا كَتَبَةُ اَعْمَالِنَا تَوْبَةً مَّقْبُوْلَةً لَّا تُوْقِفُنَا بَعْدَهَا عَلٰى ذَنبٍ اجْتَرَحْنَاهُ، وَ لَا مَعْصِیَةٍ اقْتَرَفْنَاهَا، وَ لَا تَكْشِفْ عَنَّا سِتْرًا سَتَرْتَهٗ عَلٰى رُءُوْسِ الْاَشْهَادِ، یَوْمَ تَبْلُوْ اَخْبَارَ عِبَادِكَ.
اور جب ہماری زندگی کے دن بیت جائیں اور سلسلۂ حیات قطع ہو جائے، اور تیری بارگاہ میں حاضر ہونے کا بلاوا آئے، جسے بہرحال آنا اور جس پر بہر صورت لبیک کہنا ہے، تو محمدﷺ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کاتبانِ اعمال ہمارے جن اعمال کا شمار کریں ان میں آخری عمل مقبول توبہ کو قرار دے کہ اس کے بعد ہمارے ان گناہوں اور ہماری ان معصیتوں پر جن کے ہم مرتکب ہوئے ہیں سرزنش نہ کرے، اور جب اپنے بندوں کے حالات جانچے تو اس پردہ کو جو تو نے ہمارے گناہوں پر ڈالا ہے سب کے رو برو چاک نہ کرے۔
اِنَّكَ رَحِیْمٌ بِمَنْ دَعَاكَ، وَ مُسْتَجِیْبٌ لِّمَنْ نَّادَاكَ.
بیشک جو تجھے بلائے تو اس پر مہربانی کرتا ہے، اور جو تجھے پکارے تو اس کی سنتا ہے۔
–٭٭–
سرنامۂ دُعا میں ذکرِ الٰہی کو کرنے والوں کیلئے سرمایۂ عزّ و شرف قرار دیا ہے۔ کیونکہ جب بندہ اللہ کو یاد کرتا ہے تو اللہ بھی اُسے یاد رکھتا ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ﴾: ’’تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا‘‘۔[۱]
اور حدیث قدسی میں وارد ہوا ہے:
مَنْ ذَكَرَنِیْ فِیْ مَلَإٍ ذَكَرْتُهٗ فِیْ مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْ مَّلَئِهٖ، وَ مَنْ ذَكَرَنِیْ سِرًّا ذَكَرْتُهٗ عَلَانِيَةً.
جو شخص کسی بزم میں میرا ذکر کرتا ہے میں اس سے بہتر اجتماع میں اس کا ذکر کرتا ہوں اور جو خفیہ طور پر میرا ذکر کرتا ہے میں اس کا علانیہ ذکر کرتا ہوں۔[۲]
اور ظاہر ہے کہ خالق کا اپنے مخلوق کو اور معبود کا اپنے عبد کو یاد رکھنا اور اپنے الطاف کا مورد قرار دینا بندہ کیلئے باعثِ عزّ و افتخار ہے اور چونکہ یہ نتیجہ ہے ذکرِ الٰہی کا، لہٰذا ذکرِ الٰہی بھی شرف میں محسوب ہو گا۔
ذکرِ الٰہی کے مراتب :
اہلِ عرفان کے نزدیک ذکرِ الٰہی کے چار مرتبے ہیں:
پہلا مرتبہ:
یہ ہے کہ اللہ کا ذکر اور اس کی تسبیح و تحمید صرف زبان سے ہو اور دل اس کی یاد سے یکسر خالی ہو۔ یہ ذکر کا پست ترین مرتبہ ہے۔ تا ہم فائدے سے یہ بھی خالی نہیں ہے، کیونکہ جتنی دیر زبان اس کے ذکر میں مصروف رہے گی، غیبت، بدگوئی، فحش کلامی اور دوسری بیہودہ باتوں سے محفوظ رہے گی۔ اور ہو سکتا ہے کہ رفتہ رفتہ دل بھی زبان کا ساتھ دینے لگے اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجّہ ہو جائے، کیونکہ جب ذکر کی آوازیں پیہم کان کے پردوں سے ٹکرائیں گی تو کب تک دل متاثر نہ ہو گا۔
دوسرا مرتبہ:
یہ ہے کہ دل زبان کا ساتھ تو دے مگر توجہ و انہماک نہ ہو۔ ایسا معلوم ہو کہ اسے جبراً و قہراً اس طرف لایا جا رہا ہے۔ یہ مرتبہ پہلے مرتبہ سے کچھ بلند ہے، کیونکہ دل کچھ تھوڑا بہت تو زبان کا ہمنوا ہے۔
تیسرا مرتبہ:
یہ ہے کہ زبان کے ساتھ دل بھی اس کی یاد میں کھو جائے، لیکن دوسری طرف متوجہ کرنے سے متوجہ بھی ہو جائے، اگرچہ یہ توجہ وقتی و عارضی ہو۔ یہ رسوخ کی منزل ہے۔ اور
چوتھا مرتبہ:
یہ ہے کہ دل میں ذکراس طرح رچ بس جائے کہ خون کے ساتھ رگ و پے میں دوڑنے لگے اور حیات کا ہر لمحہ سوز و گداز کا لافانی مرقع اور جسم و جان کا ہر ریشہ محبت کی شعلہ فشانیوں کا مرکز بن جائے۔ یہ عشقِ الٰہی کی منزل فنا فی اللہ کا درجہ اور عبودیت کا وہ بلند مقام ہے جس کے اندر ربوبیت کے جوہر دہ ہیں۔ حضرتؑ کے ارشاد: «وَ اشْغَلْ قُلُوْبَنَا بِذِكْرِكَ عَنْ كُلِّ ذِكْرٍ«: ’’ہمارے دلوں کو اپنے ذکر کی بدولت ہر ذکر سے بے نیاز کر دے‘‘، میں اسی مرتبہ کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ ذکرِ الٰہی میں حضرتؑ کے انہماک کا یہ عالم ہوتا تھا کہ نہ کوئی خواہش آپؑ کے تصورات پر غالب آتی تھی اور نہ کوئی حادثہ توجہ کو موڑنے میں کامیاب ہو سکتا تھا۔ کمال الدین ابن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں تحریر کیا ہے کہ:
حضرتؑ محرابِ عبادت میں ایستادہ نماز شب پڑھ رہے تھے کہ شیطان ایک اژدہے کی صورت میں سامنے سے نمودار ہوا مگر آپؑ حسبِ معمول نماز میں مصروف رہے۔ اس نے بڑھ کر آپؑ کے پیر کا انگوٹھا اپنے دانتوں میں دبا لیا۔پھر بھی آپؑ کی توجہ کو ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ وہ اژدہے کی صورت میں شیطان ہے۔ آپؑ نے اُسے ٹھوکر لگائی اور پھر مصروفِ عبادت ہو گئے۔ اس منظر کو دیکھ کر ہاتف غیبی نے پکار کر کہا: «اَنْتَ زَیْنُ الْعَابِدِیْنَ «: ’’آپؑ عبادت گزاروں کی زینت ہیں‘‘۔[۳]
دوسری چیز یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ کا شکریہ ادا کرنا شکر گزاروں کیلئے باعثِ کامرانی ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے کہ:
﴿لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ۷﴾
اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہاری نعمتوں میں اضافہ کروں گا اور اگر تم نے کفرانِ نعمت کیا تو یاد رکھو کہ میرا عذاب سخت عذاب ہے۔[۴]
لہٰذا جب کفرانِ نعمت نعمتوں سے محرومی اور عذاب کا باعث ہے تو شکر نعمتوں کی افزائش اور عذاب سے رہائی کا ذریعہ ہو گا۔ اور یہی فوز و کامرانی ہے جو ادائے شکر کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔
تیسری چیز یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت، اطاعت گزاروں کیلئے نجات و رستگاری کی ضامن اور اُخروی کامرانی کی ذمہ دار ہے۔ چنانچہ جب انسان میں اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اللہ کے احکام کی پابندی اور اس کے ممنوعات و محرمات سے کنارا کرتا ہے تو قہراً اس کے افکار و اعمال پر ایک خوشگوار اثر پرتا ہے اور وہ اچھائی بُرائی، درست و نا درست اور صحیح و غلط میں امتیاز کر کے برائیوں سے علیحدگی اختیار کرتا اور اچھائیوں کو اپنے اندر نشو و نما دیتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ عزّت و کامرانی کی زندگی بسر کرتا اور مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے انعامات سے سرفراز ہوتا ہے، چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:
﴿وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَيْہِمْ﴾
جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے اپنا انعام کیا ہے۔[۵]
اور جو اس کی اطاعت سے انحراف کرتا ہوا اس کے حدود کو توڑتا اور گناہ و معصیت میں پڑا رہتا ہے۔ وہ اپنے ناپاک عمل و کردار کی وجہ سے دلوں میں کوئی مقام و منزلت حاصل نہیں کر سکتا اور ان دنیوی ذلتوں اور تباہیوں کے ساتھ آخرت کی ہلاکتوں کے اسباب بھی فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری ہے:
﴿وَمَنْ يَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ يُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا۰۠ وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۱۴ۧ﴾
جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کے حدود سے تجاوز کرتے ہیں انہیں ہمیشہ کیلئے جہنّم میں داخل کرے گا اور اس کیلئے رُسوا کرنے والا عذاب ہے۔[۶]
بہرحال ذکر، شکر اور اطاعت یہ وہ اعمال ہیں جو انسان کے دل، زبان اور اعضاء کو گناہ سے بچا لے جاتے ہیں۔ چنانچہ دل میں اگر اُس کی یاد ہو گی تو خیالاتِ فاسدہ اور معتقداتِ باطلہ کے قبول کرنے کی گنجائش اس میں نہ رہے گی۔ اور زبان پر اس کا ذکر یا شکر ہو گا تو وہ جھوٹ، بہتان، غیبت اور اس قبیل کے دوسرے عیوب سے بچا رہے گا۔ اور اگر اعضاء اس کی اطاعت میں مصروف رہیں گے تو وہ گناہ جو اِن اعضاء سے تعلق رکھتے ہیں، جیسے ظلم، سرقہ، قتل، زنا وغیرہ اس سے سرزد نہ ہوں گے اور یہی دل، زبان اور اعضاء گناہ و معاصی کا سرچشمہ ہیں۔ جب ان پر ذکر، شکر اور اطاعت کا پہرا بیٹھ جائے گا تو کلیّۃً گناہوں کا انسداد ہو جائے گا اور یہی مقام مقامِ عصمت ہے۔
اس کے بعد خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ التجا کی ہے کہ وہ ہمہ وقت ذکر، شکر اور اطاعت میں مصروف رہنے کی توفیق کرامت فرمائے۔ اور اگر عبادت سے کچھ فراغت کے لمحات میسر ہوں تواس فراغت کی وجہ سے دل میں تنگی کی صورت پیدا نہ ہو کہ پھر ذکر و عبادت کی طرف رجوع ہونا طبیعت پر شاق گزرے، اور کوئی ایسی بات نہ ہونے پائے جو رضائے الٰہی کے خلاف ہو۔ مقصد یہ ہے کہ بے کاری اور تعطل پیدا ہی نہ ہو اور نہ کوئی لمحہ ایسا گزرے جس میں مقصدِ حیات سے فراموشی ہونے پائے۔
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۱۵۳
[۲]۔ ریاض السالکین، ج ۲ ص ۴۴۹
[۳]۔ مطالب السؤول فی مناقب آل رسول، ص ۲۶۸
[۴]۔ سورۂ ابراہیم، آیت ۷
[۵]۔ سورۂ نساء، آیت ۶۹
[۶]۔ سورۂ نساء، آیت ۱۴