13۔ طلب حاجات کی دعا
(۱۳) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
فِی طَلَبِ الْحَوَآئِجِ اِلَى اللّٰهِ تَعَالَى
خداوند عالم سے طلبِ حاجات کے سلسلہ میں حضرتؑ کی دُعا:
اَللّٰهُمَّ یَا مُنْتَهٰى مَطْلَبِ الْحَاجَاتِ، وَ یَا مَنْ عِنْدَهٗ نَیْلُ الطَّلِبَاتِ، وَ یَا مَنْ لَّا یَبِیْعُ نِعَمَهٗ بِالْاَثْمَانِ، وَ یَا مَنْ لَّا یُكَدِّرُ عَطَایَاهُ بِالِامْتِنَانِ، وَ یَا مَنْ یُّسْتَغْنٰى بِهٖ وَ لَا یُسْتَغْنٰى عَنْهُ، وَ یَا مَنْ یُّرْغَبُ اِلَیْهِ وَ لَا یُرْغَبُ عَنْهُ، وَ یَا مَنْ لَّا تُفْنِیْ خَزَآئِنَهٗ الْمَسَآئِلُ، وَ یَا مَنْ لَّا تُبَدِّلُ حِكْمَتَهٗ الْوَسَآئِلُ، وَ یَا مَنْ لَّا تَنْقَطِعُ عَنْهُ حَوَآئِجُ الْمُحْتَاجِیْنَ.
اے معبود! اے وہ جو طلب حاجات کی منزلِ منتہیٰ ہے، اے وہ جس کے یہاں مرادوں تک رسائی ہوتی ہے، اے وہ جو اپنی نعمتیں قیمتوں کے عوض فروخت نہیں کرتا، اور نہ اپنے عطیوں کو احسان جتا کر مکدر کرتا ہے، اے وہ جس کے ذریعہ بے نیازی حاصل ہوتی ہے اور جس سے بے نیاز نہیں رہا جا سکتا، اے وہ جس کی خواہش و رغبت کی جاتی ہے اور جس سے منہ موڑا نہیں جا سکتا، اے وہ جس کے خزانے طلب و سوال سے ختم نہیں ہوتے، اور جس کی حکمت و مصلحت کو وسائل و اسباب کے ذریعہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
وَ یَا مَنْ لَّا یُعَنِّیْهِ دُعَآءُ الدَّاعِیْنَ، تَمَدَّحْتَ بِالْغَنَآءِ عَنْ خَلْقِكَ وَ اَنْتَ اَهْلُ الْغِنٰى عَنْهُمْ، وَ نَسَبْتَهُمْ اِلَى الْفَقْرِ وَ هُمْ اَهْلُ الْفَقْرِ اِلَیْكَ.
اے وہ جس سے حاجت مندوں کا رشتۂ احتیاج قطع نہیں ہوتا، اور جسے پکارنے والوں کی صدا خستہ و ملول نہیں کرتی، تو نے خلق سے بے نیاز ہونے کی صفت کا مظاہرہ کیا ہے اور تو یقیناً ان سے بے نیاز ہے اور تو نے ان کی طرف فقر و احتیاج کی نسبت دی ہے اور وہ بیشک تیرے محتاج ہیں۔
فَمَنْ حَاوَلَ سَدَّ خَلَّتِهٖ مِنْ عِنْدِكَ، وَ رَامَ صَرْفَ الْفَقْرِ عَنْ نَّفْسِهٖ بِكَ، فَقَدْ طَلَبَ حَاجَتَهٗ فِیْ مَظَانِّهَا، وَ اَتٰى طَلِبَتَهٗ مِنْ وَّجْهِهَا، وَ مَنْ تَوَجَّهَ بِحَاجَتِهٖ اِلٰۤى اَحَدٍ مِّنْ خَلْقِكَ، اَوْ جَعَلَهٗ سَبَبَ نُجْحِهَا دُوْنَكَ، فَقَدْ تَعَرَّضَ لِلْحِرْمَانِ، وَ اسْتَحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَوْتَ الْاِحْسَانِ.
لہٰذا جس نے اپنے افلاس کے رفع کرنے کیلئے تیرا ارادہ کیا، اور اپنی احتیاج کے دور کرنے کیلئے تیرا قصد کیا اس نے اپنی حاجت کو اس کے محل و مقام سے طلب کیا، اور اپنے مقصد تک پہنچنے کا صحیح راستہ اختیار کیا اور جو اپنی حاجت کو لے کر مخلوقات میں سے کسی ایک طرف متوجہ ہوا، یا تیرے علاوہ دوسرے کو اپنی حاجت برآوری کا ذریعہ قرار دیا وہ حرماں نصیبی سے دوچار، اور تیرے احسان سے محرومی کا سزا وار ہوا۔
اَللّٰهُمَّ وَ لِیْۤ اِلَیْكَ حَاجَةٌ قَدْ قَصَّرَ عَنْهَا جُهْدِیْ، وَ تَقَطَّعَتْ دُوْنَهَا حِیَلِیْ، وَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ رَفْعَهَاۤ اِلٰى مَنْ یَّرْفَعُ حَوَآئِجَهٗۤ اِلَیْكَ، وَ لَا یَسْتَغْنِیْ فِیْ طَلِبَاتِهٖ عَنْكَ، وَ هِیَ زَلَّةٌ مِّنْ زَلَلِ الْخَاطِئِیْنَ، وَ عَثْرَةٌ مِّنْ عَثَرَاتِ الْمُذْنِبِیْنَ.
بارالٰہا! میری تجھ سے ایک حاجت ہے جسے پورا کرنے سے میری طاقت جواب دے چکی ہے، اور میری تدبیر و چارہ جوئی بھی ناکام ہو کر رہ گئی ہے، اور میرے نفس نے مجھے یہ بات خوش نما صورت میں دکھائی کہ میں اپنی حاجت کو اس کے سامنے پیش کروں جو خود اپنی حاجتیں تیرے سامنے پیش کرتا ہے اور اپنے مقاصد میں تجھ سے بے نیاز نہیں ہے، یہ سراسر خطا کاروں کی خطاؤں میں سے ایک خطا اور گنہگاروں کی لغزشوں میں سے ایک لغزش تھی۔
ثُمَّ انْتَبَهْتُ بِتَذْكِیْرِكَ لِیْ مِنْ غَفْلَتِیْ، وَ نَهَضْتُ بِتَوْفِیْقِكَ مِنْ زَلَّتِیْ، وَ رَجَعْتُ وَ نَكَصْتُ بِتَسْدِیْدِكَ عَنْ عَثْرَتِیْ، وَ قُلْتُ: سُبْحَانَ رَبِّیْ كَیْفَ یَسْئَلُ مُحْتَاجٌ مُّحْتَاجًا، وَ اَنّٰى یَرْغَبُ مُعْدِمٌ اِلٰى مُعْدِمٍ.
لیکن تیرے یاد دلانے سے میں اپنی غفلت سے ہوشیار ہوا، اور تیری توفیق نے سہارا دیا تو ٹھوکر کھانے سے سنبھل گیا، اور تیری رہنمائی کی بدولت اس غلط اقدام سے باز آیا اور واپس پلٹ آیا، اور میں نے کہا: واہ سبحان اللہ! کس طرح ایک محتاج دوسرے محتاج سے سوال کر سکتا ہے، اور کہاں ایک نادار دوسرے نادار سے رجوع کر سکتا ہے۔
فَقَصَدْتُّكَ یَاۤ اِلٰهِیْ! بِالرَّغْبَةِ، وَ اَوْفَدْتُ عَلَیْكَ رَجَآئِیْ بِالثِّقَةِ بِكَ، وَ عَلِمْتُ اَنَّ كَثِیْرَ مَاۤ اَسْئَلُكَ یَسِیْرٌ فِیْ وُجْدِكَ، وَ اَنَّ خَطِیْرَ مَاۤ اَسْتَوْهِبُكَ حَقِیْرٌ فِیْ وُسْعِكَ، وَ اَنَّ كَرَمَكَ لَا یَضِیْقُ عَنْ سُؤَالِ اَحَدٍ، وَ اَنَّ یَدَكَ بِالْعَطَایَاۤ اَعْلَى مِنْ كُلِّ یَدٍ.
(جب یہ حقیقت واضح ہو گئی ) تو میں نے اے میرے معبود! پوری رغبت کے ساتھ تیرا ارادہ کیا، اور تجھ پر بھروسا کرتے ہوئے اپنی امیدیں تیرے پاس لایا ہوں، اور میں نے اس امر کو بخوبی جان لیا ہے کہ میری کثیر حاجتیں تیری تو نگری کے آگے کم، اور میری عظیم خواہشیں تیری وسعت رحمت کے سامنے ہیچ ہیں، تیرے دامن کرم کی وسعت کسی کے سوال کرنے سے تنگ نہیں ہوتی اور تیرا دست کرم عطا و بخشش میں ہر ہاتھ سے بلند ہے۔
اَللّٰهُمَّ فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ احْمِلْنِیْ بِكَرَمِكَ عَلَى التَّفَضُّلِ، وَ لَا تَحْمِلْنِیْ بِعَدْلِكَ عَلَى الْاِسْتِحْقَاقِ، فَمَاۤ اَنَا بِاَوَّلِ رَاغِبٍ رَغِبَ اِلَیْكَ فَاَعْطَیْتَهٗ وَ هُوَ یَسْتَحِقُّ الْمَنْعَ، وَ لَا بِاَوَّلِ سَآئِلٍ سَئَلَكَ فَاَفْضَلْتَ عَلَیْهِ وَ هُوَ یَسْتَوْجِبُ الْحِرْمَانَ.
اے اللہ! محمدﷺ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور اپنے کرم سے میرے ساتھ تفضل و احسان کی روش اختیار کر، اور اپنے عدل سے کام لیتے ہوئے میرے استحقاق کی رُو سے فیصلہ نہ کر، کیونکہ میں پہلا وہ حاجت مند نہیں ہوں جو تیری طرف متوجہ ہوا اور تو نے اسے عطا کیا ہو حالانکہ وہ رد کئے جانے کا مستحق ہو، اور پہلا وہ سائل نہیں ہوں جس نے تجھ سے مانگا ہو اور تو نے اس پر اپنا فضل کیا ہو حالانکہ وہ محروم کئے جانے کے قابل ہو۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ كُنْ لِّدُعَآئِیْ مُجِیْبًا، وَ مِنْ نِّدَآئِیْ قَرِیْبًا، وَ لِتَضَرُّعِیْ رَاحِمًا، وَ لِصَوْتِی سَامِعًا. وَ لَا تَقْطَعْ رَجَآئِیْ عَنْكَ، وَ لَا تَبُتَّ سَبَبِیْ مِنْكَ، وَ لَا تُوَجِّهْنِیْ فِیْ حَاجَتِیْ هَذِهٖ وَ غَیْرِهَاۤ اِلٰى سِوَاكَ، وَ تَوَلَّنِیْ بِنُجْحِ طَلِبَتِیْ، وَ قَضَآءِ حَاجَتِیْ، وَ نَیْلِ سُؤْلِیْ قَبْلَ زَوَالِیْ عَنْ مَوْقِفِیْ هٰذَا، بِتَیْسِیْرِكَ لِیَ الْعَسِیْرَ، وَ حُسْنِ تَقْدِیْرِكَ لِیْ فِیْ جَمِیْعِ الْاُمُوْرِ.
اے اللہ ! محمدﷺ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور میری دُعا کا قبول کرنے والا، میری پکار پر التفات فرمانے والا، میری عجز و زاری پر رحم کرنے والا، اور میری آواز کا سننے والا ثابت ہو، اور میری امید جو تجھ سے وابستہ ہے اسے نہ توڑ، اور میرا وسیلہ اپنے سے قطع نہ کر، اور مجھے اس مقصد اور دوسرے مقاصد میں اپنے سوا دوسرے کی طرف متوجہ نہ ہونے دے، اور اس مقام سے الگ ہونے سے پہلے میری مشکل کشائی، اور تمام معاملات میں حسن تقدیر کی کارفرمائی سے میرے مقصد کے برلانے، میری حاجت کے روا کرنے، اور میرے سوال کے پورا کرنے کا خود ذمہ لے۔
وَ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، صَلَاةً دَآئِمَةً نَّامِیَةً، لَا انْقِطَاعَ لِاَبَدِهَا وَ لَا مُنْتَهٰى لِاَمَدِهَا، وَ اجْعَلْ ذٰلِكَ عَوْنًا لِّیْ وَ سَبَبًا لِّنَجَاحِ طَلِبَتِیْ، اِنَّكَ وَاسِعٌ كَرِیْمٌ.
اور محمدﷺ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما، ایسی رحمت جو دائمی اور روز افزوں ہو، جس کا زمانہ غیر مختتم اور جس کی مدت بے پایاں ہو، اور اسے میرے لئے معین اور مقصد برآوری کا ذریعہ قرار دے، بیشک تو وسیع رحمت اور جود و کرم کی صفت کا مالک ہے۔
وَ مِنْ حَاجَتِیْ یَا رَبِّ كَذَا وَ كَذَا.
اے میرے پروردگار! میری کچھ حاجتیں یہ ہیں۔
[وَ تَذْكُرُ حَاجَتَكَ ثُمَّ تَسْجُدُ وَ تَقُوْلُ فِیْ سُجُوْدِكَ:]
(اس مقام پر اپنی حاجتیں بیان کرو، پھر سجدہ کرو اور سجدہ کی حالت میں یہ کہو):
فَضْلُكَ اٰنَسَنِیْ، وَ اِحْسَانُكَ دَلَّنِیْ، فَاَسْئَلُكَ بِكَ وَ بِمُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ صَلَوَاتُكَ عَلَیْهِمْ، اَن لَّا تَرُدَّنِی خَآئِبًا.
تیرے فضل و کرم نے میری دل جمعی اور تیرے احسان نے رہنمائی کی، اس وجہ سے میں تجھ سے تیرے ہی وسیلہ سے اور محمدﷺ و آل محمد علیہم السلام کے ذریعہ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے (اپنے دَر سے) ناکام و نامراد نہ پھیر۔
–٭٭–
اس دُعا میں خداوند عالم کو حاجت روائیوں کی انتہا اور مقصد برآریوں کی حد آخر قرار دیا ہے۔ یہ اس لحاظ سے کہ جب انسان اپنے کو ہر دروازے سے ناکام ہوتے دیکھتا ہے اور کہیں سے حاجت روائی و مقصد براری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور ہر طرف سے راہِ چارہ و تدبیر مسدود ہو جاتی ہے تو وہ انجامِ کار اللہ کی طرف رجوع ہوتا اور اس سے حاجت روائی کا طالب ہوتا ہے۔ یا اس اعتبار سے کہ جتنی بھی حاجتیں بظاہر دوسروں سے پوری ہوتی ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی کارسازی و کارفرمائی کا کرشمہ ہے۔ کیونکہ تمام مقصدوں اور حاجتوں کے بر آنے کے اسباب و وسائل اسی کی ذات پر منتہی ہوتے ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی شخص کسی کو کچھ دیتا ہے تو اسی میں سے جو اللہ تعالیٰ نے اُس کو دیا ہے اور کسی کیلئے تگ و دو کرتا ہے تو اسی قوت و طاقت سے جو اللہ کی بخشی ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے جو کچھ بھی دوسروں کے ہاتھ سے ملتا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملتا ہے اور جو کام اوروں کے ذریعہ انجام پاتا ہے در حقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی کارسازی کا نتیجہ ہے، ورنہ جو خود سراپا احتیاج ہو وہ دوسرے کی احتیاج کیا دور کر سکتا ہے اور جو خود عاجز و درماندہ ہو وہ دوسرے کی کیا مدد کر سکتا ہے۔ لہٰذا تمام احتیاجوں اور بے نوائیوں کا علاج اسی ذات بے نیاز سے ہو گا جس سے تمام کائنات کا دامن احتیاج وابستہ ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:
﴿يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللہِ۰ۚ وَاللہُ ھُوالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ۱۵﴾
اے لوگو! تم سب کے سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ غنی و بے نیاز اور ہر لحاظ سے قابلِ ستائش ہے۔[۱]
جب وہی ذات(جلّ شانہٗ) تمام نعمتوں کا سرچشمہ اور حاجت روائیوں کا نقطہ آخر ہے تو پھر دستِ سوال بھی اسی کے سامنے بڑھنا چاہیے نہ اُن کے سامنے جو خود مانگنے والے اور سراپا احتیاج ہیں:
مَنْ يَّسْئَلُ النَّاسَ يُحَرِّمُوْهُ وَ سَآئِلُ اللهِ لَا يَخيْبُ
’’جو لوگوں سے مانگے گا وہ اُسے محروم رکھیں گے اور اللہ سے مانگنے والا کبھی محروم نہیں ہوتا‘‘۔
اور پھر اللہ کے فیضان و بخشش اور دوسروں کی داد و دہش میں فرق یہ ہے کہ لوگوں کی عطا وبخشش عوض و بدل کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ کسی نہ کسی موقع پر احسان جتا کر تفوق و برتری کا مظاہرہ ضرور کریں گے، مگر اللہ صرف اپنے تفضّل و احسان کی بناپر نعمتوں سے مالا مال کرتا ہے اور ان کے مقابلہ میں کسی اجر و عوض کا طلب گار نہیں ہوتا اور نہ وہ احسان جتاتا ہے کہ میں نے یہ دیا اور یہ دیا۔ اور اگر وہ اپنی نعمتوں کا ذکر کرتا ہے تو اس لئے کہ بندوں میں شکرگزاری کا جذبہ پیدا ہو اور اس کے نتیجہ میں انہیں زیادہ سے زیادہ نعمتیں حاصل ہوں۔ اس سے مقصد احسان جتانا نہیں ہے۔ کیونکہ احسان تو وہ جتاتا ہے جو اپنی عطا کو بڑا تصور کرتا اور معمولی بخشش کو بھی اہم سمجھتا ہو، اور خداوندِ عالم خواہ کتنی نعمتیں بخشے اور کتنے احسانات کرے وہ اس کے کرم و وسعت کے مقابلہ میں کوئی وزن نہیں رکھتے اور نہ اس کے غیر متناہی مقدورات کو دیکھتے ہوئے اس کے ہاں کمی کا تصور ہو سکتا ہے۔ چنانچہ وہ نہ خود احسان جتاتا ہے اور نہ احسان جتانے کو پسند کرتا ہے، کیونکہ یہ دنایت و کم ظرفی کی علامت اور حاجت مندوں کی دل شکنی و تنفّر کا باعث ہے۔چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:
﴿يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى۰ۙ﴾
اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتانے اور اذیّت پہنچانے سے رائیگاں نہ کرو[۲]
اس دُعا میں انسان کی اس طبعی کمزوری کا بھی ذکر ہے کہ جب اسے اپنی کوششیں رائیگاں اور تدبیریں بے نتیجہ نظر آتی ہیں تو وہ اِدھر اُدھر سے وسائل و ذرائع ڈھونڈتا ہے تا کہ اپنے مقصدوں اور حاجتوں میں کامیابی حاصل کرے۔ یہ چیزیں اس پر نظر کرتے ہوئے کہ دنیا عالم اسباب ہے اور ایک کا کا م دوسرے سے نکلتا ہی ہے مذموم نہیں ہے، بشرطیکہ اصل کارفرما اور حقیقی حاجت روا اللہ ہی کو مانے اور اسی کی مشیّت کے عمل دخل کا عقیدہ رکھے۔ چنانچہ قرآن مجید میں حضرت یوسفؑ کے متعلق ہے کہ انہوں نے قید خانہ کے دو ساتھیوں میں سے جس کے متعلق یہ سمجھا کہ یہ بچ رہے گا، کہا کہ: ﴿اذْكُرْنِيْ عِنْدَ رَبِّكَ۰ۡ﴾ [۳]: ’’اپنے آقا سے میرا ذکر کیجیو‘‘۔ مگر حضرتؑ اسے توکّل اور انقطاع الی اللہ کے منافی سمجھتے اور اپنے مقام رفیع کے پیش نظر اسے خطا و لغزش سے تعبیر کرتے ہیں۔ اگرچہ اس حد تک یہ لغزش و خطا نہیں ہے، لیکن جب ان وسائل و ذرائع پر وثوق و اعتماد کر لیا جائے تو پھر اس سے بڑھ کر دوسری لغزش نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ یہ اللہ پر سے بے اعتمادی اور اس کے دروازہ سے منہ موڑ کر دوسروں کے آستانوں کی پرستاری ہے۔ اس لغزش و کجروی سے اگر کوئی چیز بچا لے جا سکتی ہے تو وہ یہ کہ اپنے دل و دماغ میں یہ تصور راسخ کرے کہ اس بے نیاز کے علاوہ کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں ہے اور محتاج، محتاج کے اور بے نوا، بے نوا کے کچھ کام نہیں آسکتا۔ چنانچہ جب یہ تصور پختہ اور نیت و ارادہ مضبوط اور یقین مستحکم ہو جاتا ہے تو غفلت کے پردے چاک اور لڑکھڑاتے قدم سنبھل جاتے ہیں اور ہر طلب و نیاز اسی کی بارگاہ کیلئے مخصوص ہو کر رہ جاتی ہے اور خداوند عالم جب یہ دیکھتا ہے کہ وہ سب سے منہ موڑ کر میرے آستانہ کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو چکا ہے تو وہ اپنے فضل و کرم سے اس کی حاجتیں بر لاتا اور مشکلیں حل کر دیتا ہے۔
یہ دُعا طلبِ حاجات کا ایک افتتاحیہ ہے جب اسے پڑھ لے تو اس کے خاتمہ پر اپنی حاجتیں بیان کرے۔ اگرچہ خداوند عالم سب کی حاجتوں اور خواہشوں کو جانتا ہے مگر وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کے سامنے حاجتوں کو پیش کیا جائے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللّٰهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰى يَعْلَمُ مَا يُرِيْدُ الْعَبْدُ اِذَا دَعَاهُ وَ لٰكِنَّهٗ يُحِبُّ اَنْ تُبَثَّ اِلَيْهِ الْحَوَآئِجُ، فَاِذَا دَعَوْتَ فَسَمِّ حَاجَتَكَ.
خداوندِ عالم بخوبی جانتا ہے کہ جب بندہ دُعا کرتا ہے تو وہ اپنے پروردگار سے کیا چاہتا ہے، لیکن اللہ اس چیز کو پسند کرتا ہے کہ تم اپنی حاجتیں کھل کر اس کے سامنے پیش کرو۔ لہٰذا دُعا کرو تو اپنی حاجتوں کا نام بنام ذکر کرو۔[۴]
دُعا کے بعد سجدہ کرے اور سجدہ میں حضرتؑ کے فرمودہ کلمات پڑھے تا کہ دُعا جلد شرفِ قبولیت حاصل کرے۔ اس لئے کہ سجدہ تضرع و الحاح کی آخری صورت اور عجز و نیازمندی کی خاص علامت ہے اور عجز و الحاح قبولیتِ دُعا کا ذریعہ اور بارگاہِ الٰہی میں تقرب کا وسیلہ ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
اَقْرَبُ مَا يَكُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهٖ اِذَا دَعَا رَبَّهٗ وَ هُوَ سَاجِدٌ.
بندہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میں اس وقت زیادہ تقرب پر فائز ہوتا ہے جب سجدہ کی حالت میں اپنے پروردگار کو پکارے اور اُس سے دُعا مانگے۔[۵]
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ سورۂ فاطر، آیت ۱۵
[۲]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۲۶۴
[۳]۔ سورۂ یوسف، آیت ۴۲
[۴]۔ الکافی، ج۲، س۴۷۶
[۵]۔ الکافی، ج۳، ص ۳۲۳