16۔ عذر و عفو تقصیر کے سلسلے میں دعا
(۱۶) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
اِذَا اسْتَقَالَ مِنْ ذُنُوْبِهٖ، اَوْ تَضَرَّعَ فِیْ طَلَبِ الْعَفْوِ عَنْ عُیُوْبِهٖ:
جب گناہوں سے معافی چاہتے یا اپنے عیبوں سے درگزر کی التجا کرتے تو یہ دُعا پڑھتے:
اَللّٰهُمَّ یَا مَن بِرَحْمَتِهٖ یَسْتَغیْثُ الْمُذْنِبُوْنَ، وَ یَا مَنْ اِلٰى ذِكْرِ اِحْسَانِهٖ یَفْزَعُ الْمُضْطَرُّوْنَ ،وَ یَا مَنْ لِّخِیْفَتِهٖ یَنْتَحِبُ الْخَاطِئُوْنَ، یَاۤ اُنْسَ كُلِّ مُسْتَوْحِشٍ غَرِیْبٍ، وَ یَا فَرَجَ كُلِّ مَكْرُوْبٍ كَئِیْبٍ، وَ یَا غَوْثَ كُلِّ مَخْذُوْلٍ فَرِیْدٍ، وَ یَا عَضُدَ كُلِّ مُحْتَاجٍ طَرِیْدٍ.
اے خدا! اے وہ جسے گنہگار اس کی رحمت کے وسیلہ سے فریاد رسی کیلئے پکارتے ہیں، اے وہ جس کے تفضل و احسان کی یاد کا سہارا بےکس و لاچار ڈھونڈتے ہیں، اے وہ جس کے خوف سے عاصی و خطاکار نالہ و فریاد کرتے ہیں، اے ہر وطن آوارہ و دل گرفتہ کے سرمایۂ انس، ہر غمزدہ و دل شکستہ کے غمگسار، ہر بے کس و تنہا کے فریاد رس اور ہر راندہ و محتاج کے دست گیر۔
اَنْتَ الَّذِیْ وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَحْمَةً وَّ عِلْمًا، وَ اَنْتَ الَّذِیْ جَعَلْتَ لِكُلِّ مَخْلُوْقٍ فِیْ نِعَمِكَ سَهْمًا، وَ اَنْتَ الَّذِیْ عَفْوُهٗۤ اَعْلٰى مِنْ عِقَابِهٖ، وَ اَنْتَ الَّذِیْ تَسْعٰى رَحْمَتُهٗۤ اَمَامَ غَضَبِهٖ، وَ اَنْتَ الَّذِیْ عَطَآؤُهٗ اَكْثَرُ مِنْ مَّنْعِهٖ، وَ اَنْتَ الَّذِی اتَّسَعَ الْخَلَآئِقُ كُلُّهُمْ فِیْ وُسْعِهٖ، وَ اَنْتَ الَّذِیْ لَا یَرْغَبُ فِیْ جَزَآءِ مَنْ اَعْطَاهُ، وَ اَنْتَ الَّذِیْ لَا یُفْرِطُ فِیْ عِقَابِ مَنْ عَصَاهُ.
تو وہ ہے جو اپنے علم و رحمت سے ہر چیز پر چھایا ہوا ہے اور تو وہ ہے جس نے اپنی نعمتوں میں ہر مخلوق کا حصہ رکھا ہے، تو وہ ہے جس کا عفو و درگزر اس کے انتقام پر غالب ہے، تو وہ ہے جس کی رحمت اس کے غضب سے آگے چلتی ہے، تو وہ ہے جس کی عطائیں فیض و عطا کے روک لینے سے زیادہ ہیں، تو وہ ہے جس کے دامن وسعت میں تمام کائناتِ ہستی کی سمائی ہے، تو وہ ہے کہ جس کسی کو عطا کرتا ہے اس سے عوض کی توقع نہیں رکھتا اور تو وہ ہے کہ جو تیری نافرمانی کرتا ہے اسے حد سے بڑھ کر سزا نہیں دیتا۔
وَ اَنَا یَاۤ اِلٰهِیْ! عَبْدُكَ الَّذِیْۤ اَمَرْتَهٗ بِالدُّعَآءِ فَقَالَ: لَبـَّیْكَ وَ سَعْدَیْكَ، هَاۤ اَنَا ذَا یَا رَبِّ! مَطْرُوْحٌ بَیْنَ یَدَیْكَ، اَنَا الَّذِیْۤ اَوْقَرَتِ الْخَطَایَا ظَهْرَهٗ، وَ اَنَا الَّذِیْ اَفْنَتِ الذُّنُوْبُ عُمُرَهٗ، وَ اَنَا الَّذِیْ بِجَهْلِهٖ عَصَاكَ، وَ لَمْ تَكُنْ اَهْلًا مِّنْهُ لِذٰاكَ.
خدایا! میں تیرا وہ بندہ ہوں جسے تو نے دُعا کا حکم دیا تو وہ لبیک لبیک پکار اٹھا۔ ہاں تو وہ میں ہوں اے میرے معبود! جو تیرے آگے خاک مذلت پر پڑا ہے، میں وہ ہوں جس کی پشت گناہوں سے بوجھل ہو گئی ہے، میں وہ ہوں جس کی عمر گناہوں میں بیت چکی ہے، میں وہ ہوں جس نے اپنی نادانی و جہالت سے تیری نافرمانی کی، حالانکہ تو میری جانب سے نافرمانی کا سزاوار نہ تھا۔
هَلْ اَنْتَ یَاۤ اِلٰهِیْ! رَاحِمٌ مَّنْ دَعَاكَ فَاُبْلِغَ فِی الدُّعَآءِ؟ اَمْ اَنْتَ غَافِرٌ لِّمَن بَكَاكَ فَاُسْرِعَ فِی الْبُكَآءِ؟ اَمْ اَنْتَ مُتَجَاوِزٌ عَمَّنْ عَفَّرَ لَكَ وَجْهَهٗ تَذَلُّلًا؟ اَمْ اَنْتَ مُغْنٍ مَّنْ شَكَاۤ اِلَیْكَ فَقْرَهٗ تَوَكُّلًا؟.
اے میرے معبود! جو تجھ سے دُعا مانگے آیا تو اس پر رحم فرمائے گا؟ تاکہ میں لگاتار دُعا مانگوں، یا جو تیرے آگے روئے اسے بخش دے گا؟ تاکہ میں رونے پر جلد آمادہ ہو جاؤں، یا جو تیرے سامنے عجز و نیاز سے اپنا چہرہ خاک پر ملے اس سے درگزر کرے گا؟ یا جو تجھ پر بھروسا کرتے ہوئے اپنی تہی دستی کا شکوہ کرے اسے بے نیاز کر دے گا؟
اِلٰهِیْ! لَا تُخَیِّبْ مَنْ لَّا یَجِدُ مُعْطِیًا غَیْرَكَ، وَ لَا تَخْذُلْ مَنْ لَّا یَسْتَغْنِیْ عَنْكَ بِاَحَدٍ دُوْنَكَ.
بارالٰہا! جس کا دینے والا تیرے سوا کوئی نہیں ہے اُسے نا امید نہ کر اور جس کا تیرے علاوہ اور کوئی ذریعہ بے نیازی نہیں ہے اُسے محروم نہ کر۔
اِلٰهِیْ فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ لَا تُعْرِضْ عَنِّیْ وَ قَدْ اَقْبَلْتُ عَلَیْكَ، وَ لَا تَحْرِمْنِیْ وَ قَدْ رَغِبْتُ اِلَیْكَ، وَ لَا تَجْبَهْنِیْ بِالرَّدِّ وَ قَدِ انْتَصَبْتُ بَیْنَ یَدَیْكَ.
خداوندا! رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور مجھ سے روگردانی اختیار نہ کر جبکہ میں تیری طرف متوجہ ہو چکا ہوں، اور مجھے ناامید نہ کر جبکہ تیری طرف خواہش لے کر آیا ہوں، اور مجھے سختی سے دھتکار نہ دے جبکہ میں تیرے سامنے کھڑا ہوں۔
اَنْتَ الَّذِیْ وَصَفْتَ نَفْسَكَ بِالرَّحْمَةِ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَ ارْحَمْنِیْ، وَ اَنْتَ الَّذِیْ سَمَّیْتَ نَفْسَكَ بِالْعَفْوِ فَاعْفُ عَنِّیْ.
تو وہ ہے جس نے اپنی توصیف رحم و کرم سے کی ہے، لہٰذا محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھ پر رحم فرما اور تو نے اپنا نام درگزر کرنے والا رکھا ہے لہٰذا مجھ سے درگزر فرما۔
قَدْ تَرٰى یَاۤ اِلٰهِیْ! فَیْضَ دَمْعِیْ مِنْ خِیْفَتِكَ، وَ وَجِیْبَ قَلْبِیْ مِنْ خَشْیَتِكَ، وَ انْتِقَاضَ جَوَارِحِیْ مِنْ هَیْبَتِكَ، كُلُّ ذٰلِكَ حَیَآءٌ مِّنْكَ لِسُوْٓءِ عَمَلِیْ، وَ لِذَاكَ خَمَدَ صَوْتِیْ عَنِ الْجَاْرِ اِلَیْكَ، وَ كَلَّ لِسَانِیْ عَنْ مُّنَاجَاتِكَ.
بار الٰہا! تو میرے اشکوں کی روانی کو جو تیرے خوف کے باعث ہے، میرے دل کی دھڑکن کو جو تیرے ڈر کی وجہ سے ہے اور میرے اعضاء کی تھرتھری کو جو تیری ہیبت کے سبب سے ہے، دیکھ رہا ہے۔ یہ سب اپنی بداعمالیوں کو دیکھتے ہوئے تجھ سے شرم و حیا محسوس کرنے کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تضرع و زاری کے وقت میری آواز رک جاتی ہے اور مناجات کے موقع پر زبان کام نہیں دیتی۔
یَاۤ اِلٰهِیْ! فَلَكَ الْحَمْدُ، فَكَمْ مِنْ عَآئِبَةٍ سَتَرْتَهَا عَلَیَّ فَلَمْ تَفْضَحْنِیْ، وَ كَمْ مِنْ ذَنبٍ غَطَّیْتَهٗ عَلَیَّ فَلَمْ تَشْهَرْنِیْ، وَ كَمْ مِنْ شَآئِبَةٍ اَلْمَمْتُ بِهَا فَلَمْ تَهْتِكْ عَنِّیْ سِتْرَهَا، وَ لَمْ تُقَلِّدْنِیْ مَكْرُوْهَ شَنَارِهَا، وَ لَمْ تُبْدِ سَوْءَاتِهَا لِمَنْ یَّلْتَمِسُ مَعَایِبِیْ مِنْ جِیْرَتِیْ، وَ حَسَدَةِ نِعْمَتِكَ عِنْدِیْ، ثُمَّ لَمْ یَنْهَنِیْ ذٰلِكَ عَنْ اَنْ جَرَیْتُ اِلٰى سُوْٓءِ مَا عَهِدْتَّ مِنِّیْ!.
اے خدا تیرے ہی لئے حمد و سپاس ہے کہ تو نے میرے کتنے ہی عیبوں پر پردہ ڈالا اور مجھے رسوا نہیں ہونے دیا، اور کتنے ہی میرے گناہوں کو چھپا یا اور مجھے بدنام نہیں کیا، اور کتنی ہی برائیوں کا میں مرتکب ہوا مگر تو نے پردہ فاش نہ کیا اور نہ میرے گلے میں ننگ و عار کی ذلت کا طوق ڈالا اور نہ میرے عیبوں کی جستجو میں رہنے والے ہمسایوں اور ان نعمتوں پر جو مجھے عطا کی ہیں حسد کرنے والوں پر ان برائیوں کو ظاہر کیا۔ پھر بھی تیری مہربانیاں مجھے ان برائیوں کے ارتکاب سے جن کا تو میرے بارے میں علم رکھتا ہے، روک نہ سکیں۔
فَمَنْ اَجْهَلُ مِنِّیْ یَاۤ اِلٰهِیْ بِرُشْدِهٖ؟ وَ مَنْ اَغْفَلُ مِنِّیْ عَنْ حَظِّهٖ؟ وَ مَنْ اَبْعَدُ مِنِّیْ مِنِ اسْتِصْلَاحِ نَفْسِهٖ حِیْنَ اُنْفِقُ مَاۤ اَجْرَیْتَ عَلَیَّ مِنْ رِزْقِكَ فِیْمَا نَهَیْتَنِیْ عَنْهُ مِنْ مَّعْصِیَتِكَ؟ وَ مَنْ اَبْعَدُ غَوْرًا فِی الْبَاطِلِ وَ اَشَدُّ اِقْدَامًا عَلَى السُّوْٓءِ مِنِّیْ حِیْنَ اَقِفُ بَیْنَ دَعْوَتِكَ وَ دَعْوَةِ الشَّیْطٰنِ فَاَتَّبِعُ دَعْوَتَهٗ عَلٰى غَیْرِ عَمًى مِّنِّیْ فِیْ مَعْرِفَةٍ بِهٖ، وَ لَا نِسْیَانٍ مِّنْ حِفْظِیْ لَهٗ؟، وَ اَنَا حِیْنَئِذٍ مُّوقِنٌ بِاَنَّ مُنْتَهٰى دَعْوَتِكَ اِلَى الْجَنَّةِ، وَ مُنْتَهٰى دَعْوَتِهٖ اِلَی النَّارِ.
تو اے میرے معبود! مجھ سے بڑھ کر کون اپنی اصلاح و بہبود سے بے خبر، اپنے حظ و نصیب سے غافل اور اصلاح نفس سے دور ہو گا، جبکہ میں اس روزی کو جسے تو نے میرے لئے قرار دیا ہے، ان گناہوں میں صرف کرتا ہوں جن سے تو نے منع کیا ہے، اور مجھ سے زیادہ کون باطل کی گہرائی تک اترنے والا اور برائیوں پر اقدام کی جرأت کرنے والا ہو گا، جبکہ میں ایسے دو راہے پر کھڑا ہوں کہ جہاں ایک طرف تُو دعوت دے اور دوسری طرف شیطان آواز دے، تو میں اس کی کارستانیوں سے واقف ہوتے ہوئے اور اس کی شرانگیزیوں کو ذہن میں محفوظ رکھتے ہوئے اس کی آواز پر لبیک کہتا ہوں، حالانکہ مجھے اس وقت بھی یقین ہوتا ہے کہ تیری دعوت کا مآل جنت اور اس کی آواز پر لبیک کہنے کا انجام دوزخ ہے۔
سُبْحَانَكَ! مَاۤ اَعْجَبَ مَاۤ اَشْهَدُ بِهٖ عَلٰى نَفْسِیْ، وَ اُعَدِّدُهٗ مِنْ مَكْتُوْمِ اَمْرِیْ، وَ اَعْجَبُ مِنْ ذٰلِكَ اَنَاتُكَ عَنِّیْ، وَ اِبْطَاؤُكَ عَنْ مُّعَاجَلَتِیْ، وَ لَیْسَ ذٰلِكَ مِنْ كَرَمِیْ عَلَیْكَ، بَلْ تَاَنِّیًا مِّنْكَ لِیْ، وَ تَفَضُّلًا مِّنْكَ عَلَیَّ، لِاَنْ اَرْتَدِعَ عَنْ مَّعْصِیَتِكَ الْمُسْخِطَةِ، وَ اُقْلِعَ عَنْ سَیِّئَاتِی الْمُخْلِقَةِ، وَ لِاَنَّ عَفْوَكَ عَنِّیْۤ اَحَبُّ اِلَیْكَ مِنْ عُقُوْبَتِیْ.
اللہ اکبر! کتنی یہ عجیب بات ہے جس کی گواہی میں خود اپنے خلاف دے رہا ہوں، اور اپنے چھپے ہوئے کاموں کو ایک ایک کر کے گن رہا ہوں، اور اس سے زیادہ عجیب تیرا مجھے مہلت دینا اور عذاب میں تاخیر کرنا ہے۔ یہ اس لئے نہیں کہ میں تیری نظروں میں باوقار ہوں بلکہ یہ میرے معاملہ میں تیری بردباری اور مجھ پر تیرا لطف و احسان ہے تاکہ میں تجھے ناراض کرنے والی نافرمانیوں سے باز آجاؤں اور ذلیل و رسوا کرنے والے گناہوں سے دست کش ہو جاؤں، اور اس لئے ہے کہ مجھ سے درگزر کرنا سزا دینے سے تجھے زیادہ پسند ہے۔
بَلْ اَنَا یَاۤ اِلٰهِیْ! اَكْثَرُ ذُنُوْبًا، وَ اَقْبَحُ اٰثَارًا، وَ اَشْنَعُ اَفْعَالًا، وَ اَشَدُّ فِی الْبَاطِلِ تَهَوُّرًا، وَ اَضْعَفُ عِنْدَ طَاعَتِكَ تَیَقُّظًا، وَ اَقَلُّ لِوَعِیْدِكَ انْتِبَاهًا وَ ارْتِقَابًا، مِنْ اَنْ اُحْصِیَ لَكَ عُیُوْبِیْ، اَوْ اَقْدِرَ عَلٰى ذِكْرِ ذُنُوْبِیْ.
بلکہ میں تو اے میرے معبود! بہت گنہگار، بہت بد صفات و بد اعمال اور غلط کاریوں میں بیباک اور تیری اطاعت کے وقت سست گام اور تیری تہدید و سرزنش سے غافل اور اس کی طرف بہت کم نگران ہوں، تو کس طرح میں اپنے عیوب تیرے سامنے شمار کر سکتا ہوں یا اپنے گناہوں کا ذکر و بیان سے احاطہ کر سکتا ہوں۔
وَ اِنَّمَاۤ اُوَبِّخُ بِهٰذَا نَفْسِیْ طَمَعًا فِیْ رَاْفَتِكَ الَّتِیْ بِهَا صَلَاحُ اَمْرِ الْمُذْنِبِیْنَ، وَ رَجَآءً لِّرَحْمَتِكَ الَّتِیْ بِهَا فَكَاكُ رِقَابِ الْخَاطِئِیْنَ.
اور جو اس طرح میں اپنے نفس کو ملامت و سرزنش کر رہا ہوں تو تیری اس شفقت و مرحمت کے لالچ میں جس سے گنہگاروں کے حالات اصلاح پذیر ہوتے ہیں اور تیری اس رحمت کی توقع میں جس کے ذریعہ خطاکاروں کی گردنیں (عذاب سے) رہا ہوتی ہیں۔
اَللّٰهُمَّ وَ هٰذِهٖ رَقَبَتِیْ قَدْ اَرَقَّتْهَا الذُّنُوْبُ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَ اَعْتِقْهَا بِعَفْوِكَ، وَ هٰذَا ظَهْرِیْ قَدْ اَثْقَلَتْهُ الْخَطَایَا، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ وَ خَفِّفْ عَنْهُ بِمَنِّكَ.
بار الٰہا! یہ میری گردن ہے جسے گناہوں نے جکڑ رکھا ہے، تو رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور اپنے عفو و درگزر سے اسے آزاد کر دے، اور یہ میری پشت ہے جسے گناہوں نے بوجھل کر دیا ہے، تو رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور اپنے لطف و انعام کے ذریعہ اسے ہلکا کر دے۔
یَاۤ اِلٰهِیْ! لَوْ بَكَیْتُ اِلَیْكَ حَتّٰى تَسْقُطَ اَشْفَارُ عَیْنَیَّ، وَ انْتَحَبْتُ حَتّٰى یَنْقَطِعَ صَوْتِیْ، وَ قُمْتُ لَكَ حَتّٰى تَتَنَشَّرَ قَدَمَایَ، وَ رَكَعْتُ لَكَ حَتّٰى یَنْخَلِعَ صُلْبِیْ، وَ سَجَدْتُّ لَكَ حَتّٰى تَتَفَقَّاَ حَدَقَتَایَ، وَ اَكَلْتُ تُرَابَ الْاَرْضِ طُوْلَ عُمُرِیْ، وَشَرِبْتُ مَآءَ الرَّمَادِ اٰخِرَ دَهْرِیْ، وَ ذَكَرْتُكَ فِیْ خِلَالِ ذٰلِكَ حَتّٰی یَكِلَّ لِسَانِیْ، ثُمَّ لَمْ اَرْفَعْ طَرْفِیْۤ اِلٰۤى اٰفَاقِ السَّمَآءِ اسْتِحْیَآءً مِّنْكَ، مَا اسْتَوْجَبْتُ بِذٰلِكَ مَحْوَ سَیِّئَةٍ وَّاحِدَةٍ مِّنْ سَیِّئَاتِیْ.
بارالٰہا! اگر میں تیرے سامنے اتنا روؤں کہ میری آنکھوں کی پلکیں جھڑ جائیں اور اتنا چیخ چیخ کر گریہ کروں کہ آواز بند ہو جائے اور تیرے سامنے اتنی دیر کھڑا رہوں کہ دونوں پیروں پر ورم آجائے اور اتنے رکوع کروں کہ ریڑھ کی ہڈیاں اپنی جگہ سے اکھڑ جائیں اور اس قدر سجدے کروں کہ آنکھیں اندر کو دھنس جائیں اور عمر بھر خاک پھانکتا رہوں اور زندگی بھر گندلا پانی پیتا رہوں اور اس اثنا میں تیرا ذکر اتنا کروں کہ زبان تھک کر جواب دے جائے، پھر شرم و حیا کی وجہ سے آسمان کی طرف نگاہ نہ اٹھاؤں تو اس کے باوجود میں اپنے گناہوں میں سے ایک گناہ کے بخشے جانے کا بھی سزا وار نہ ہوں گا۔
وَ اِنْ كُنْتَ تَغْفِرُ لِیْ حِیْنَ اَسْتَوْجِبُ مَغْفِرَتَكَ، وَ تَعْفُو عَنِّیْ حِیْنَ اَسْتَحِقُّ عَفْوَكَ، فَاِنَّ ذٰلِكَ غَیْرُ وَاجِبٍ لِّیْ بِاسْتِحْقَاقٍ، وَ لَاۤ اَنَا اَهْلٌ لَّهٗ بِاسْتِیْجَابٍ، اِذْ كَانَ جَزَآئِیْ مِنْكَ فِیْ اَوَّلِ مَا عَصَیْتُكَ النَّارَ، فَاِنْ تُعَذِّبْنِیْ فَاَنْتَ غَیْرُ ظَالِمٍ لِیْ.
اور اگر تو مجھے بخش دے جبکہ میں تیری مغفرت کے لائق قرار پاؤں اور مجھے معاف کر دے جبکہ میں تیری معافی کے قابل سمجھا جاؤں تو یہ میرے استحقاق کی بنا پر لازم نہیں ہو گا اور نہ میں استحقاق کی بنا پر اس کا اہل ہوں، کیونکہ جب میں نے پہلے پہل تیری معصیت کی تو میری سزا جہنم طے تھی، لہٰذا تو مجھ پر عذاب کرے تو میرے حق میں ظالم نہیں ہو گا۔
اِلٰهِیْ! فَاِذْ قَدْ تَغَمَّدْتَنِیْ بِسِتْرِكَ فَلَمْ تَفْضَحْنِیْ، وَ تَاَنَّیْتَنِیْ بِكَرَمِكَ فَلَمْ تُعَاجِلْنِیْ، وَ حَلُمْتَ عَنِّیْ بِتَفَضُّلِكَ فَلَمْ تُغَیِّرْ نِعْمَتَكَ عَلَیَّ، وَ لَمْ تُكَدِّرْ مَعْرُوْفَكَ عِنْدِیْ، فَارْحَمْ طُوْلَ تَضَرُّعِیْ وَ شِدَّةَ مَسْكَنَتِیْ، وَ سُوْٓءَ مَوْقِفِیْ.
اے میرے معبود! جبکہ تو نے میری پردہ پوشی کی اور مجھے رسوا نہیں کیا اور اپنے لطف و کرم سے نرمی برتی اور عذاب میں جلدی نہیں کی اور اپنے فضل سے میرے بارے میں حلم سے کام لیا اور اپنی نعمتوں میں تبدیلی نہیں کی اور نہ اپنے احسان کو مکدّر کیا ہے تو میری اس طویل تضرع و زاری اور سخت احتیاج اور موقف کی بد حالی پر رحم فرما۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ قِنِیْ مِنَ الْمَعَاصِیْ، وَ اسْتَعْمِلْنِیْ بِالطَّاعَةِ، وَ ارْزُقْنِیْ حُسْنَ الْاِنَابَةِ، وَ طَهِّرْنِیْ بِالتَّوْبَةِ، وَ اَیِّدْنِیْ بِالْعِصْمَةِ، وَ اسْتَصْلِحْنِیْ بِالْعَافِیَةِ، وَ اَذِقْنِیْ حَلَاوَةَ الْمَغْفِرَةِ، وَ اجْعَلْنِیْ طَلِیْقَ عَفْوِكَ، وَ عَتِیْقَ رَحْمَتِكَ، وَ اكْتُبْ لِیْۤ اَمَانًا مِّنْ سُخْطِكَ، وَ بَشِّرْنِیْ بِذٰلِكَ فِی الْعَاجِلِ دُوْنَ الْاٰجِلِ بُشْرٰۤى اَعْرِفُهَا، وَ عَرِّفْنِیْ فِیْهِ عَلَامَةً اَتَبَیَّنُهَا، اِنَّ ذٰلِكَ لَا یَضِیْقُ عَلَیْكَ فِیْ وُسْعِكَ، وَ لَا یَتَكَاَّدُكَ فِیْ قُدْرَتِكَ، اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.
اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے گناہوں سے محفوظ اور اطاعت میں سرگرم عمل رکھ اور مجھے حسن رجوع کی توفیق دے اور توبہ کے ذریعہ پاک کر دے اور اپنی حسن نگہداشت سے نصرت فرما اور تندرستی سے میری حالت سازگار کر اور مغفرت کی شیرینی سے کام و دہن کو لذت بخش اور مجھے اپنے عفو کا رہا شدہ اور اپنی رحمت کا آزاد کردہ قرار دے اور اپنے عذاب سے رہائی کا پروانہ لکھ دے اور آخرت سے پہلے دنیا ہی میں نجات کی ایسی خوش خبری سنا دے جسے واضح طور سے سمجھ لوں اور اس کی ایسی علامت دکھا دے جسے کسی شائبہ ابہام کے بغیر پہچان لوں، اور یہ چیز تیرے ہمہ گیر اقتدار کے سامنے مشکل اور تیری قدرت کے مقابلہ میں دشوار نہیں ہے، بے شک تیری قدرت ہر چیز پر محیط ہے۔
–٭٭–
یہ دُعا امید و بیم کا ایک مرقع ہے جس کے نقوش زندگی کو خوف و رجاء کے خطوط پر چلنے کیلئے شمع ہدایت کا کام دیتے ہیں۔ ’’خوف و رجاء‘‘ دونوں عملی زندگی کی بنیاد اور اُخروی کامرانی کا پیش خیمہ ہیں۔ اگر ’’خوف‘‘ نہ ہو تو انسان پاداشِ عمل سے غافل ہو جائے گا اور ’’اُمید‘‘ نہ ہو تو عمل میں سرگرمی پیدا نہ ہونے پائے گی اور یہ خوف و رجاء کی کیفیت خدا کی صفتِ عدالت و رحمت کے تصور سے پیدا ہوتی ہے، کیونکہ عدالت کا تقاضا یہ ہے کہ جو اس کے دروازۂ رحمت پر دستک دے، توبہ و انابت کا ہاتھ پھیلائے اور اس سے عفو و در گزر کا سوال کرے، اسے بے آس نہ کرے، جس سے اُمید کا سوتا پھوٹے گا اور مغفرت کی آس مایوسیوں سے بچا کر برسر عمل رکھے گی۔ یہ اس کی رحمت ہی کی کارفرمائی ہے کہ وہ بڑے بڑے گناہوں پر بھی سزا و عقوبت میں تعجیل سے کام نہیں لیتا اور سخت سے سخت جرم کی پاداش میں بھی فوری گرفت نہیں کرتا۔ اور اگر وہ سزا دینے میں جلدی کرتا تو توبہ و انابت کا وقت کہاں ملتا، بلکہ توبہ کا وسیلہ ڈھونڈنے اور انابت کا ہاتھ پھیلانے سے پہلے ہی ہلاکت و تباہی گھیر لیتی۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:
﴿وَلَوْ يُعَجِّلُ اللہُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَھُمْ بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ اِلَيْہِمْ اَجَلُھُمْ﴾
اور جس طرح لوگ اپنی بھلائی کیلئے جلدی کرتے ہیں اسی طرح اگر خدا (ان گناہوں کی) سزا میں جلدی کرتا تو ان کا مقررہ وقت کب کا آ چکا ہوتا۔[۱]
اگر وہ گناہ کے فوراً بعد اپنے غضب سے کام لیتا اور مجرم کو اس کے جرم کی سزا دیتا تو یہ اس کے عدل و انصاف کے منافی تو نہ ہوتا، لیکن تقاضائے رحمت کے خلاف ضرور ہوتا۔ حالانکہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔ چنانچہ جہاں غضب و رحمت میں کشمکش ہوتی ہے وہاں رحمت آگے بڑھ جاتی ہے اور غضب کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔ کیونکہ رحمت اس کی ذات کا تقاضا ہے اور غضب مخالفت و نافرمانی کا نتیجہ۔ چنانچہ غضب خاص خاص موقعوں کیلئے ہے اور رحمت عام و ہمہ گیر ہے۔ اس طرح کہ اگر دنیا میں سرکشی و طغیان اور کفر و عصیان کا وجود نہ ہوتا تو پھر رحمت ہی رحمت ہوتی اور قہر و غضب کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔ کیونکہ اصل رحمت ہی کارفرمائی ہے اور غضب ایک تبعی و فرعی حیثیت رکھتا ہے جو صرف بد اعمالیوں کے نتیجہ میں مشتعل ہوتا ہے۔ اور پھر ایسا نہیں کہ ایک دفعہ مشتعل ہو جائے تو پھر فرو نہ ہو۔ بلکہ اس کے غضب کی صورت تو یہ ہے کہ ادھر کسی نے اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کر کے اصلاح عمل کا عہد کیا، غضب کا رُخ مڑ گیا۔ اور کسی نے اپنے گناہوں پر پشیمان ہو کر اس کی بارگاہ کا رُخ کیا، رحمت کا ارادہ جوش میں آ گیا اور گناہوں کو اس طرح ملیامیٹ کر دیا گویا اس کے دامن پر کبھی دھبّا پڑا ہی نہ تھا۔ چنانچہ ارشادِ نبویؐ ہے:
اَلتَّآئِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَهٗ.
گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔[۲]
اب اس دُعا پر ایک نظر ڈالیئے اور دیکھئے کہ حضرتؑ کے کلمات میں خوف و رجاء کی جو روح مضمر ہے وہ کس طرح غفلت سے جھنجھوڑتی اور دل و دماغ کو متاثر کرتی ہے۔ وہ اللہ کے سامنے عبودیت کے تقاضوں میں کوتاہی کا اعتراف کرتے ہیں مگر خوف و خشیت سے حالت یہ ہے کہ پیروں میں رعشہ، بدن میں تھرتھری اور جسم پر کپکی طاری ہے۔ بوجھل پلکوں میں آنسو تیر رہے ہیں اور دل کی دھڑکنیں کپکپاتی آواز سے ہم آہنگ ہیں اور فریاد کا انداز یہ ہے کہ: ’’اے معبود! اگر روتے روتے پلکیں جھڑ جائیں، کھڑے کھڑے پیر سوج جائیں، رکوع کرتے کرتے پشت خم ہو جائے، سجدوں میں عمر بیت جائے، زندگی بھر خاک پھانکوں اور خاک بسر زندگی بسر کروں پھر بھی تیری رحمت ہی کا سہارا ہے اور میں کسی استحقاق کی بنا پر عفو و مغفرت کا مستحق نہیں ہو سکتا‘‘۔
ان الفاظ میں عجز و نیاز کی جو تصویر کھینچی ہے وہ آپؑ کی زندگی کا ہو بہو نقشہ ہے۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ جب آپؑ وضو کرتے تو چہرے کا رنگ زرد ہو جاتا اور مصلائے عبادت پر کھڑے ہوتے تو لرزہ بر اندام ہو جاتے، اور شب و روز کے قیام سے پیروں پر وَرم آ جاتا۔ جب کسی نعمت کا ذکر کرتے تو سجدہ کرتے، جب کوئی نعمت ملتی تو سجدہ کرتے، جب کسی کارِ خیر کا ارادہ کرتے تو سجدہ کرتے۔ جب دو شخصوں میں صلح کراتے تو سجدہ کرتے اور اس وقت تک سجدہ سے سر نہ اٹھاتے جب تک پسینہ میں تر بتر نہ ہو جاتے۔ اور ماہِ رمضان میں تسبیح و استغفار کے علاوہ کوئی کلمہ آپؑ کی زبان سے نہ نکلتا تھا۔ اور اکثر و بیشتر غشی کی حالت طاری ہو جاتی تھی۔ چنانچہ ابن عینیہ کہتے ہیں کہ: میں نے مکّہ کے راستے میں دیکھا کہ آپؑ نے سواری کو روک کر احرام باندھنا چاہا تو جسم کانپنے لگا، چہرے پر زردی چھا گئی اور زبان سے کلماتِ تلبیہ نہ کہہ سکے۔ میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا کہ آپؑ تلبیہ کیوں نہیں کرتے؟ فرمایا: ’’اندیشہ ہے کہ میں لَبَّیْکَ کہوں اور ادھر سے لَا لَبَّیْکَ وَ لَاسَعْدَیْکَ کی آواز آئے‘‘۔ اور جب سنبھل کر تلبیہ کیا تو غش کھا کر گر پڑے اور حج کے اختتام تک برابر یہی صورت رہی کہ کبھی سنبھل گئے اور کبھی بے ہوش ہو کر گِر پڑے۔
بہرحال اگر ایک طرف زندگی کے چہرے پر خوف و خشیت کا غبار چھایا ہوا تھا تو دوسری طرف اُمید کی مسکراتی ہوئی کرنیں نور و نکہت بکھیر رہی تھیں اور قدم رجاء کی اُس منزل پر تھے جہاں کبھی یاس و ناامیدی کی پرچھائیں بھی نہیں پڑی اور روح اس مقامِ تقرب سے وابستہ تھی جہاں دل کا ریشہ ریشہ ندائے حق کیلئے گوش بر آواز اور سامعہ نوید رحمت کا منتظر تھا کہ کب ادھر سے آمرزش و رحمت کا پیغام آتا ہے کہ:
همه شب در این امیدم که نسیم صبحگاهی
به پیام آشنایان بنوازد آشنا را
چنانچہ خداوند عالم کا ارشاد ہے کہ:
﴿الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ۶۳ لَھُمُ الْبُشْرٰي فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ﴾
وہ لوگ جو ایمان لائے اور خوف کھاتے رہے انہیں دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔[۳]
یہ بشارت رویائے صالحہ کے ذریعہ ہوتی ہے۔ چنانچہ ابوالدرداء سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ: اس آیت میں ﴿الْبُشْرٰي﴾ سے کیا مراد ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: "هِیَ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْمُسْلِمُ اَوْ تُرٰى لَهٗ”: ’’وہ رویائے صالحہ ہے جسے مومن خود اپنے لئے دیکھتا ہے یا کوئی اُس کیلئے دیکھتا ہے‘‘۔[۴]
یہ رویائے صالحہ پاکیزگیٔ نفس و صفائے باطن اور عالم قدس سے اتصال کے نتیجہ میں دیکھا جاتا ہے۔ اس طرح کہ مردِ مومن اپنے حُسنِ انجام کو خواب میں دیکھتا، یا اس کے متعلق خواب میں ندائے غیب سنتا ہے، یا دوسرا اس کے بارے میں خواب دیکھتا، یا خواب میں کوئی آواز سنتا ہے۔ چنانچہ اس قسم کے خواب صلحاء و متورعین کے متعلق کتب میں مذکور ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس دُعا میں ’’بُشریٰ‘‘ سے ایسی ہی بشارت مراد ہو یا کسی دوسری قسم کی بشارت جو اس عام بشارت سے بلند تر ہو۔
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ سورۂ یونس، آیت ۱۱
[۲]۔ الکافی، ج۲، ص ۴۳۵
[۳]۔ سورۂ یونس، آیت ۶۳-۶۴
[۴]۔ بحارالانوار، ج ۵۸، ص ۱۹۱