صحیفہ کاملہ

17۔ شر شیطان کے دفیعہ کی دعا

(۱۷) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

اِذَا ذُكِرَ الشَّیْطٰنُ فَاسْتَعَاذَ مِنْهُ وَ مِنْ عَدَاوَتِهٖ وَ كَیْدِهٖ:

جب شیطان کا ذکر آتا تو اُس سے اور اُس کے مکر و عداوت سے بچنے کیلئے یہ دُعا پڑھتے:

اَللّٰهُمَّ اِنَّا نَعُوْذُ بِكَ مِنْ نَزَغَاتِ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ، وَ كَیْدِهٖ وَ مَكَایِدِهٖ، وَ مِنَ الثِّقَةِ بِاَمَانِیِّهٖ وَ مَوَاعِیْدِهٖ وَ غُرُوْرِهٖ وَ مَصَآئِدِهٖ، وَ اَنْ یُّطْمِـعَ نَفْسَهٗ فِیْۤ اِضْلَالِنَا عَنْ طَاعَتِكَ، وَ امْتِهَانِنَا بِمَعْصِیَتِكَ، اَوْ اَنْ یَّحْسُنَ عِنْدَنَا مَا حَسَّنَ لَنا، اَوْ اَنْ یَّثْقُلَ عَلَیْنَا مَا كَرَّهَ اِلَیْنَا.

اے اللہ! ہم شیطان مردود کے وسوسوں، مکروں اور حیلوں سے اور اس کی جھوٹی طفل تسلیوں پر اعتماد کرنے اور اس کے ہتھکنڈوں سے تیرے ذریعہ پناہ مانگتے ہیں، اور اس بات سے کہ اس کے دل میں یہ طمع و خواہش پیدا ہو کہ وہ ہمیں تیری اطاعت سے بہکائے اور تیری معصیت کے ذریعہ ہماری رسوائی کا سامان کرے، یا یہ کہ جس چیز کو وہ رنگ و روغن سے آراستہ کرے وہ ہماری نظروں میں کھب جائے، یا جس چیز کو وہ بدنما ظاہر کرے وہ ہمیں شاق گزرے۔

اَللّٰهُمَّ اخْسَاْهُ عَنَّا بِعِبَادَتِكَ، وَ اكْبِتْهُ بِدُءُوْبِنَا فِیْ مَحَبَّتِكَ، وَ اجْعَلْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَهٗ سِتْرًا ا یَهْتِكُهٗ، وَ رَدْمًا مُّصْمِتًا لَّا یَفْتُقُهٗ.

اے اللہ! تو اپنی عبادت کے ذریعہ اسے ہم سے دور کر دے اور تیری محبت میں محنت و جانفشانی کرنے کے باعث اسے ٹھکرا دے، اور ہمارے اور اس کے درمیان ایک ایسا پردہ جسے وہ چاک نہ کر سکے اور ایک ایسی ٹھوس دیوار جسے وہ توڑ نہ سکے، حائل کر دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اشْغَلْهُ عَنَّا بِبَعْضِ اَعْدَآئِكَ، وَ اعْصِمْنَا مِنْهُ بِحُسْنِ رِعَایَتِكَ، وَ اكْفِنَا خَتْرَهٗ، وَ وَلِّنَا ظَهْرَهٗ، وَ اقْطَعْ عَنَّاۤ اِثْرَهٗ.

اے اللہ! رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر، اور اسے ہمارے بجائے اپنے کسی دشمن کے بہکانے میں مصروف رکھ، اور ہمیں اپنے حسن نگہداشت کے ذریعہ اس سے محفوظ کر دے، اس کے مکر و فریب سے بچا لے اور ہم سے رو گرداں کر دے اور ہمارے راستے سے اس کے نقش قدم مٹا دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اَمْتِعْنَا مِنَ الْهُدٰى بِمِثْلِ ضَلَالَتِهٖ، وَ زَوِّدْنَا مِنَ الْتَّقْوٰى ضِدَّ غَوَایَتِهٖ، وَ اسْلُكْ بِنَا مِنَ التُّقٰى خِلَافَ سَبِیْلِهٖ مِنَ الرَّدٰى.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمیں ویسی ہی (محفوظ) ہدایت سے بہرہ مند فرما جیسی اس کی گمراہی (مستحکم) ہے، اور ہمیں اس کی گمراہی کے مقابلہ میں تقویٰ و پرہیز گاری کا زادِ راہ دے اور اس کی ہلاکت آفرین راہ کے خلاف رشد اور تقویٰ کے راستے پر لے چل۔

اَللّٰهُمَّ لَا تَجْعَلْ لَهٗ فِیْ قُلُوْبِنَا مَدْخَلًا، وَ لَا تُوْطِنَنَّ لَهٗ فِیْمَا لَدَیْنَا مَنْزِلًا.

اے اللہ! ہمارے دلوں میں اسے عمل دخل کا موقع نہ دے اور ہمارے پاس کی چیزوں میں اس کیلئے منزل مہیا نہ کر۔

اَللّٰهُمَّ وَ مَا سَوَّلَ لَنا مِن بَاطِلٍ فَعَرِّفْنَاهُ، وَ اِذَا عَرَّفْتَنَاهُ فَقِنَاهُ، وَ بَصِّرْنَا مَا نُكَایِدُهٗ بِهٖ، وَ اَلْهِمْنَا مَا نُعِدُّهٗ لَهٗ، وَ اَیْقِظْنَا عَنْ سِنَةِ الْغَفْلَةِ بِالرُّكُوْنِ اِلَیْهِ، وَ اَحْسِنْ بِتَوْفِیْقِكَ عَوْنَنَا عَلَیْهِ.

اے اللہ! وہ جس بیہودہ بات کو خوشنما بنا کے ہمیں دکھائے وہ ہمیں پہچنوا دے، اور جب پہچنوا دے تو اس سے ہماری حفاظت بھی فرما، اور ہمیں اس کو فریب دینے کے طور طریقوں میں بصیرت اور اس کے مقابلہ میں سرو سامان کی تیاری کی تعلیم دے، اور اس خواب غفلت سے جو اس کی طرف جھکاؤ کا باعث ہو ہوشیار کر دے اور اپنی توفیق سے اس کے مقابلہ میں کامل نصرت عطا فرما۔

اَللّٰهُمَّ وَ اَشْرِبْ قُلُوْبَنَاۤ اِنْكَارَ عَمَلِهٖ، وَ الْطُفْ لَنا فِیْ نَقْضِ حِیَلِهٖ.

بارالٰہا! اس کے اعمال سے ناپسندیدگی کا جذبہ ہمارے دلوں میں بھر دے اور اس کے حیلوں کو توڑنے کی توفیق کرامت فرما۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ حَوِّلْ سُلْطَانَهٗ عَنَّا، وَ اقْطَعْ رَجَآءَهٗ مِنَّا، وَ ادْرَاْهُ عَنِ الْوُلُوْعِ بِنَا.

اے اللہ! رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور شیطان کے تسلط کو ہم سے ہٹا دے، اور اس کی امیدیں ہم سے قطع کر دے، اور ہمیں گمراہ کرنے کی حرص و آز سے اسے دور کر دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اجْعَلْ اٰبَآءَنَا وَ اُمَّهَاتِنَا وَ اَوْلَادَنَا، وَ اَهَالِیَنَا وَ ذَوِیْۤ اَرْحَامِنَا وَ قَرَابَاتِنَا، وَ جِیْرَانَنَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ مِنْهُ فِیْ حِرْزٍ حَارِزٍ، وَ حِصْنٍ حَافِظٍ، وَ كَهْفٍ مَّانِعٍ، وَ اَلْبِسْهُمْ مِنْهُ جُنَنًا وَّاقِیَةً، وَ اَعْطِهِمْ عَلَیْهِ اَسْلِحَةً مَّاضِیَةً.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمارے باپ داداؤں، ہماری ماؤں،ہماری اولادوں، ہمارے قبیلہ والوں، عزیزوں، رشتہ داروں اور ہمسایہ میں رہنے والے مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو اس کے شر سے ایک محکم جگہ، حفاظت کرنے والے قلعہ اور روک تھام کرنے والی پناہ میں رکھ، اور اس سے بچالے جانے والی زرہیں انہیں پہنا، اور اس کے مقابلہ میں تیز دھار والے ہتھیار انہیں عطا کر۔

اَللّٰهُمَّ وَ اعْمُمْ بِذٰلِكَ مَنْ شَهِدَ لَكَ بِالرُّبُوْبِیَّةِ، وَ اَخْلَصَ لَكَ بِالْوَحْدَانِیَّةِ، وَ عَادَاهُ لَكَ بِحَقِیْقَةِ الْعُبُوْدِیَّةِ، وَ اسْتَظْهَرَ بِكَ عَلَیْهِ فِیْ مَعْرِفَةِ الْعُلُوْمِ الرَّبَّانِیَّةِ.

بارالٰہا! اس دُعا میں ان لوگوں کو بھی شامل کر جو تیری ربوبیت کی گواہی دیں، اور دوئی کے تصور کے بغیر تجھے یکتا سمجھیں، اور حقیقتِ عبودیت کی روشنی میں تیری خاطر اسے دشمن رکھیں، اور الٰہی علوم کے سیکھنے میں اس کے برخلاف تجھ سے مدد چاہیں۔

اَللّٰهُمَّ احْلُلْ مَا عَقَدَ، وَ افْتُقْ مَا رَتَقَ، وَ افْسَخْ مَا دَبَّرَ، وَ ثَبِّطْهُ اِذَا عَزَمَ، وَ انْقُضْ مَاۤ اَبْرَمَ.

اے اللہ! جو گِرہ وہ لگائے اسے کھول دے، جسے جوڑے اسے توڑ دے، اور جو تدبیر کرے اسے ناکام بنا دے، اور جب کوئی ارادہ کرے اسے روک دے، اور جسے فراہم کرے اُسے درہم و برہم کر دے۔

اَللّٰهُمَّ وَ اهْزِمْ جُنْدَهٗ، وَ اَبْطِلْ كَیْدَهٗ وَ اهْدِمْ كَهْفَهٗ، وَ اَرْغِمْ اَنْفَهٗ.

خدایا! اس کے لشکر کو شکست دے، اس کے مکر و فریب کو ملیا میٹ کر دے، اس کی پناہ گاہ کو ڈھا دے، اور اس کی ناک رگڑ دے۔

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنَا فِیْ نَظْمِ اَعْدَآئِهٖ، وَ اعْزِلْنَا عَنْ عِدَادِ اَوْلِیَآئِهٖ، لَا نُطِیْعُ لَهٗ اِذَا اسْتَهْوَانَا، وَ لَا نَسْتَجِیْبُ لَهٗۤ اِذَا دَعَانَا، نَاْمُرُ بِمُنَاوَاتِهٖ، مَنْ اَطَاعَ اَمْرَنَا، وَ نَعِظُ عَنْ مُّتَابَعَتِهٖ مَنِ اتَّبَعَ زَجْرَنَا.

اے اللہ! ہمیں اس کے دشمنوں میں شامل کر، اور اس کے دوستوں میں شمار ہونے سے علیحدہ کر دے، تاکہ وہ ہمیں بہکائے تو اس کی اطاعت نہ کریں، اور جب ہمیں پکارے تو اس کی آواز پر لبیک نہ کہیں، اور جو ہمارا حکم مانے ہم اسے اس سے دشمنی رکھنے کا حکم دیں، اور جو ہمارے روکنے سے باز آئے اسے اس کی پیروی سے منع کریں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ وَ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ، وَ عَلٰۤى اَهْلِ بَیْتِهِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهِرِیْنَ، وَ اَعِذْنَا وَ اَهَالِیَنَا وَ اِخْوَانَنَا وَ جَمِیْعَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ مِمَّا اسْتَعَذْنَا مِنْهُ، وَ اَجِرْنَا مِمَّا اسْتَجَرْنَا بِكَ مِنْ خَوْفِهٖ، وَ اسْمَعْ لَنا مَا دَعَوْنَا بِهٖ، وَ اَعْطِنَا مَاۤ اَغْفَلْنَاهُ، وَ احْفَظْ لَنا مَا نَسِیْنَاهُ، وَ صَیِّرْنَا بِذٰلِكَ فِیْ دَرَجَاتِ الصّٰلِحِیْنَ وَ مَرَاتِبِ الْمُؤْمِنِیْنَ، اٰمِیْنَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ.

اے اللہ! رحمت نازل فرما محمدؐ پر جو تمام نبیوں کے خاتم اور سب رسولوں کے سرتاج ہیں، اور ان کے اہل بیتؑ پر جو طیب و طاہر ہیں، اور ہمارے عزیزوں، بھائیوں اور تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو اس چیز سے پناہ میں رکھ جس سے ہم نے پناہ مانگی ہے اور جس چیز سے خوف کھاتے ہوئے ہم نے تجھ سے امان چاہی ہے اس سے امان دے، اور جو درخواست کی ہے اسے منظور فرما، اور جس کے طلب کرنے میں غفلت ہو گئی ہے اسے مرحمت فرما، اور جسے بھول گئے ہیں اسے ہمارے لئے محفوظ رکھ، اور اس وسیلہ سے ہمیں نیکوکاروں کے درجوں اور اہل ایمان کے مرتبوں تک پہنچا دے، ہماری دُعا قبول فرما، اے تمام جہان کے پروردگار۔

–٭٭–

وہ محرکاتِ شر جو انسان پر ہر طرف سے ہجوم کئے ہوئے ہیں، ان میں وہ خطرات و وساوس بھی شامل ہیں جو انسان کے دل میں پیدا ہوتے اور اُسے متاثر کرتے ہیں۔ فلاسفہ کے نزدیک یہ خیالاتِ فاسدہ قوت واہمہ کے تسلط کا نتیجہ ہیں جو انسانی حسیات کو متاثر کرتی اور عقل کے تقاضوں سے متصادم رہتی ہے۔ اور بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ جسم سے الگ ہونے والی روحوں میں جو اچھی روحیں ہوتی ہیں وہ نیکو کارانہ زندگی کا راستہ ہموار کرتی اور حق و صداقت کی راہ کا سالک بناتی ہیں اور جو بُری ہوتی ہیں وہ برائیوں کی طرف لے چلتی ہیں اور گناہوں پر اُبھارتی ہیں۔ ان اچھی روحوں کو وہ جنّات سے اور بُری روحوں کو شیاطین سے تعبیر کرتے ہیں اور خیالاتِ فاسدہ کو انہی ارواح خبیثہ کی تحریک کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔

مگر اسلامی نقطۂ نظر یہ ہے کہ بُرے افکار و تخیلات چاہے وہ کسی عمل بد کے محرک ہوں یا صرف خیالات تک محدود ہوں ایک ناری مخلوق کی وسوسہ انگیزی سے پیدا ہوتے ہیں، جو حسد و خود پسندی کی وجہ سے مردودِ بارگاہ قرار پائی اور ایک معینہ عرصہ تک ضلالت و معصیت کی طرف دعوت دیتی رہے گی، اُسے شیطان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اور اچھے خیالات و جذبات خواہ وہ کسی عمل خیر کا پیش خیمہ ہوں یا صرف خیالات تک محدود ہوں، فیضانِ الٰہی کا کرشمہ ہیں جسے القاء و الہام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

فِیْ الْقَلْبِ لَمَّتَانِ: لَمَّةٌ مِّنَ الْمَلَكِ اِيْعَادٌ بِالْخَيْرِ وَ تَصْدِيْقٌ بِالْحَقِّ، وَ لَمَّةٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ اِيْعَادٌ بِالشَّرِّ وَ تَكْذِيْبٌ بِالْحَقِّ.

انسان کے دل میں دو طرح کے خیالات و افکار وارد ہوتے ہیں: ایک ملک کی جانب سے اور وہ دل میں نیکی کا ارادہ اور حق کی تصدیق کا جذبہ پیدا کرتے ہیں اور دوسرے شیطان کی طرف سے اور وہ گناہ و شر اور حق کی تکذیب پر آمادہ کرتے ہیں۔[۱]

اور انسان کا دل ان دونوں قسم کے خیالات کی آماجگاہ ہے اور دونوں کی یکساں صلاحیت رکھتا ہے۔ البتہ کبھی بداعمالیوں میں حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے توفیق سلب کر لی جاتی ہے اور نورِ ہدایت سے محروم ہو کر تاریکیوں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ اور کبھی خوش اطواریوں کے نتیجہ میں توفیقات بڑھ جاتے ہیں اور شیطان کی فریب کاریوں کے بندھن ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ ان اچھی اور بُری تحریکات کے اثرات اس کے اقوال و اعمال اور حرکات و سکنات سے ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ جہاں تک ان اچھے اور بُرے کاموں کا تعلق ہے وہ اسی کے حُسنِ اختیار و سُوءِ اختیار کا نتیجہ ہیں۔ نہ توفیق بہ جبر اسے نیکی کی طرف لاتی ہے اور نہ وسوسہ بہ جبر اُسے بُرائی کی جانب لاتا ہے کہ اُسے مجبور و معذور قرار دے لیا جائے۔ کیونکہ انسانی افعال و اعمال کی نوعیت یہ ہے کہ وہ ایک طبعی ترتیب سے وابستہ ہیں۔ اس طرح کہ پہلے کسی چیز میں لذت و منفعت کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ اس تصور کا نام ’’داعی‘‘ ہے جس کے نتیجہ میں انسان اس کے حصول کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اس میلان کا نام ’’ارادہ‘‘ ہے۔ پھر قدرت و اختیار کے زیر اثر اعضاء میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ فعل ظہور میں آتا ہے جس سے اس شے کا حصول وابستہ ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب کسی چیز میں لذت و منفعت کا تصور ہو گا تو اس کی طرف میلان کا ہونا ایک لازمی و طبعی امر ہے اور اگر کوئی مانع نہ ہو تو ارادہ و قدرت کے اجتماع سے فعل کا ظہور بھی ضروری ہے۔ لہٰذا ان میں سے کسی ایک میں بھی شیطان کا عمل دخل نہیں مانا جا سکتا۔

اب صرف یہ ایک صورت رہ جاتی ہے کہ جس چیز میں لذت و منفعت کا تصور پیدا ہوا ہے وہ شیطان کے بہکانے کا نتیجہ ہو۔ چنانچہ یہی وہ محل ہے جہاں وہ اپنے فریبوں اور حیلوں سے کام لیتا ہے اور زہر ہلاہل کو شہد و شکر کہہ کر پیش کرتا ہے اور اس کے بعد کے مراحل اس کے ارادہ و اختیار سے وابستہ ہیں۔ اس لئے اُسے معذور نہیں قرار دیا جا سکتا کہ یہ کہہ کر چھوٹ جائے کہ شیطان کے بہکانے میں آ گیا۔ کیونکہ ایک طرف عقل کا چراغ روشن ہے اور دوسری طرف آسمانی تعلیم ہدایت کیلئے موجود ہے۔ اب وہ ان دونوں کے سدّ راہ ہونے کے باوجود برائی کی طرف قدم اٹھاتا اور حصولِ لذت کی دُھن میں عواقب و نتائج سے آنکھیں بند کر لیتا ہے تو اس ہلاکت آفرینی کی ذمہ داری اسی پر عائد ہو گی۔ چنانچہ قرآن مجید میں شیطان کی زبانی وارد ہوا ہے:

﴿وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّآ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِيْ۝۰ۚ﴾

مجھے تم پر کوئی تسلّط نہ تھا سوا اس کے کہ میں نے تمہیں پکارا تو تم نے میری آواز پر لبیک کہی۔[۲]

ان شیطانی تحریصات و ترغیبات کا سلسلہ اس طرح شروع ہوتا ہے کہ پہلے وہ انسان کے دل میں فاسد خیالات کیلئے راہ پیدا کرتا ہے اور جب انسان کا دل و دماغ ان فاسد خیالات کو بغیر روک ٹوک کے قبول کر لیتا ہے تو اس کے تحت الشعور میں لذت اندوزی کی خواہش بیدار ہوتی ہے۔ مگر اخلاقی قوانین، شرعی احکام اور ماحول کے تاثرات اسے گناہ کی جرأت نہیں ہونے دیتے۔ اس موقع پر وہ انسان کی خواہش پرست طبیعت کو گناہِ صغیرہ کی طرف مائل کرتا ہے۔ اس طرح کہ ایک طرف اس گناہ کی اہمیت کو کم کر کے دکھاتا ہے اور دوسری طرف اس کی ہمت و جرأت بڑھاتا ہے اور جب گناہ کی خواہش اسے گناہِ صغیرہ کی منزل میں لا کھڑا کرتی ہے تو پھر وہ گناہِ کبیرہ کی دعوت دیتا ہے اور جب وہ اس کے ارتکاب سے ہچکچاتا اور پاداشِ عمل سے ڈرتا ہے تو یہ ڈھارس دیتا ہے کہ توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے جب چاہو توبہ کر سکتے ہو۔ اور جب وہ توبہ کے سہارے پر گناہ کر لیتا ہے تو پھر دوبارہ یہ کہہ کر اکساتا ہے کہ جہاں ایک دفعہ گناہ کیا ہے وہاں ایک دفعہ اور سہی اور دونوں سے ایک دفعہ توبہ ہو جائے گی۔ اور جب دوسری دفعہ ارتکابِ گناہ کے بعد توبہ کا قصد کرتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ ابھی زندگی بہت باقی ہے ایک آدھ مرتبہ اور سہی پھر توبہ کر لینا۔ یہاں تک کہ گناہ کی عادت اس حد تک پختہ ہو جاتی ہے کہ گناہ سے دست بردار ہونا مشکل ہو جاتا ہے اور بھولے سے بھی توبہ کا خیال نہیں آتا۔ اور جس طرح وہ ناسور جس کا شروع شروع میں علاج نہ کیا جائے اپنے زہریلے اثرات تمام جسم میں پھیلا دیتا ہے، اسی طرح گناہ کے مسموم اثرات رگ و پے میں سرایت کر جاتے ہیں اور گناہ کا احساس تک باقی نہیں رہتا اور وہ بے جھجک گناہوں میں پھاندتا، گمراہیوں میں بھٹکتا اور اپنی سرمستیوں میں کھویا رہتا ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿وَزَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِيْلِ فَہُمْ لَا يَہْتَدُوْنَ۝۲۴ۙ﴾

شیطان نے ان کیلئے ان کے کاموں کو سج دیا، چنانچہ وہ سیدھے راستہ سے بے راہ ہو گئے۔[۳]

یوں ہی کسی عمل خیر سے روکنا چاہتا ہے تو پہلے سہل انگاری کی طرف لاتا ہے، پھر غفلت کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ چنانچہ صبح کے وقت جب فطرت کی مسرت آمیز تر و تازگی ہر چیز میں دوڑتی ہے اور فضا تکبیر کی صداؤں سے گونج اٹھتی ہے تو وہ بستر پر کروٹیں بدلنے والے کو تھپکیاں دے کر سلاتا ہے کہ ابھی وقت بہت ہے کچھ دیر اور آرام کر لو۔ یہاں تک کہ جب وقت تنگ رہ جاتا ہے تو وہ کسمساتا اور آنکھیں مَلتا ہوا اٹھتا ہے اور بمشکل صبح کا دوگانہ ادا کر پاتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ ہوتا ہے کہ وقت گزر جاتا ہے اور اُسے بستر سے اٹھنا دوبھر ہو جاتا ہے۔ اور جب سورج نکلنے کے بعد بستر سے اٹھتا ہے تو نماز قضا کر کے پڑھتا ہے۔ پھر اس میں بھی سستی ہونے لگتی ہے اور ظہر کی نماز کے ساتھ نمازِ صبح قضا کر کے پڑھی جاتی ہے۔ اور جب ظہر و عصر کی نماز بھی قریب غروب پڑھی جاتی ہے تو صبح کی نماز کو کل پر ٹال دیا جاتا ہے یہاں تک کہ صبح کی نماز کی یہ صورت ہو جاتی ہے کہ کبھی قضاپڑھ لی اور کبھی چھوڑ دی۔ اب اس سہل انگاری کا اثر دوسری نمازوں پر بھی پڑنا شروع ہوا۔ اس طرح کہ دوست و احباب کی باتوں میں لگے رہے اور وقت کھو دیا۔ کچھ طبیعت میں اضمحلال محسوس کیا اور نماز چھوڑ دی۔ رفتہ رفتہ ناغوں میں اضافہ ہونے لگا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ صرف عید و بقر عید کی نماز رہ گئی اور باقی ختم، اور وہ بھی اس لئے کہ ذرا عیدگاہ کی چہل پہل دیکھ لیں اور اعزّہ و احباب سے ملاقات ہو جائے۔

اسی طرح جب مالی عبادات سے روکنا چاہتا ہے تو یہ فریب دیتا ہے کہ فی الحال خمس و زکوٰۃ وغیرہ کو اپنے ذمہ کر لو جب فلاں مدّ کا روپیہ آئے گا تو ادا کر دینا اور اس وقت ادا کرنے سے کاروبار پر بُرا اثر پڑے گا اور اسلام یہ نہیں چاہتا کہ تم اپنی اقتصادی حالت کو خراب ہونے دو۔ اگرچہ فقراء و مساکین موجود ہیں مگر ان کا انحصار ہم ہی پر تو نہیں ہے، انہیں کہیں اور سے مل جائے گا۔ اور پھر ان محتاجوں اور فقیروں کو دینے سے خود بھی تو محتاج ہونے کا اندیشہ ہے، لہٰذا ان میں سے اگر ایک محتاج کم ہو گا تو اس کی جگہ دوسرا آ جائے گا۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ۝۰ۚ﴾

شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بُرے کاموں کا حکم دیتا ہے۔[۴]

نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حالات کے سازگار ہونے کا منتظر رہتا ہے اور وہ کبھی سازگار ہوتے ہی نہیں کہ وہ صدقاتِ واجبہ اور مالی عبادات سے عہدہ برآ ہو سکے۔ بہرحال شیطان کی پُر فریب و عشرت انگیز دعوت کے مقابلہ میں گناہ کی آلودگیوں سے حفاظت کرنا مشکل ہے اور اس کے حیل و وساوس سے ایک عام انسان بچ کر نہیں رہ سکتا۔ مگر وہ نفوس قدسیہ جو جوہرِ عصمت سے آراستہ اور ملکوتی صفات کے حامل ہوتے ہیں وہ کسی مرحلہ پر اُس کے فریب میں نہیں آتے اور نہ اس کا کوئی حربہ اُن پر چل سکتا ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْہِمْ سُلْطٰنٌ﴾

میرے خاص بندوں پر تجھے غلبہ و تسلّط حاصل نہیں۔[۵]

اور شیطان نے بھی ﴿اِلَّا عِبَادَكَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِيْنَ۝۴۰﴾ [۶]: مگر تیرے مخلص بندے‘‘۔ کہہ کر ان کے مقابلہ میں اپنے عجز کا اظہار کیا ہے۔ مگر پھر بھی انہیں قدرت نے شیطان سے پناہ مانگنے کی تلقین کی ہے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ کو حکم دیا:

﴿فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۝۹۸﴾

جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے پناہ مانگ لیا کرو۔[۷]

یہ ’’استعاذہ‘‘ دُعا ہی کی ایک قسم ہے اور جس طرح بعض اُمور دُعا سے وابستہ ہیں اسی طرح شیطانی حربوں سے حفاظت کا ایک ذریعہ استعاذہ بھی ہے اور انبیاء و آئمہ علیہ السلام کے استعاذہ کا مقصد دوسروں کو تعلیم دینا بھی ہوتا ہے کہ جب وہ اس کے فریب سے مامون اور اس کے تسلّط سے آزاد ہونے کے باوجود پناہ مانگتے ہیں تو جو اس کی زد پر ہیں اور بآسانی اس کے قابو میں آ جاتے ہیں، وہ کس طرح استعاذہ سے مستغنی ہو سکتے ہیں۔

اس دُعا میں استعاذہ کے علاوہ اس کے وسوسوں کو مضمحل کرنے کیلئے دو چیزوں کی تعلیم بھی دی گئی ہے: ایک محبتِ الٰہی اور دوسرے بندگی و عبادت۔ کیونکہ جب دل اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار ہو گا تو اس کے دشمن کی فریب کاریاں بہکا نہ سکیں گی۔ اور جب عبادت میں انہماک ہو گا تو نفس میں عجز و تذلل کی کیفیت پیدا ہو گی اور یہ کیفیت شیطانی وساوس سے سدّ راہ ہو جاتی ہے۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ شرح اصول الکافی، ج ۱، ص ۲۶۴۔ تفسیر المراغی، ج ۲۹، ص ۹۴

[۲]۔ سورۂ ابراہیم، آیت ۲۲

[۳]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۲۶۸

[۴]۔ سورۂ حجر، آیت ۴۲

[۵]۔ سورۂ حجر، آیت ۴۰

[۶]۔ سورۂ نحل، آیت ۹۸

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button