صحیفہ کاملہ

18۔ دفع بلیات کے سلسلے میں دعا

(۱۸) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

اِذَا دُفِعَ عَنْهُ مَا یَحْذَرُ، اَوْ عُجِّلَ لَهٗ مَطْلَبُهٗ:

جب کوئی مصیبت بر طرف ہوتی یا کوئی حاجت پوری ہوتی تو یہ دُعا پڑھتے:

اَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلٰۤى حُسْنِ قَضَآئِكَ، وَ بِمَا صَرَفْتَ عَنِّیْ مِن بَلَآئِكَ، فَلَا تَجْعَلْ حَظِّیْ مِنْ رَّحْمَتِكَ مَا عَجَّلْتَ لِیْ مِنْ عَافِیَتِكَ، فَاَكُوْنَ قَدْ شَقِیْتُ بِمَاۤ اَحْبَبْتُ وَ سَعِدَ غَیْرِیْ بِمَا كَرِهْتُ.

اے اللہ! تیرے ہی لئے حمد و ستائش ہے تیرے بہترین فیصلہ پر اور اس بات پر کہ تو نے بلاؤں کا رخ مجھ سے موڑ دیا، تو میرا حصہ اپنی رحمت میں سے صرف اس دنیوی تندرستی میں منحصر نہ کر دے کہ میں اپنی اس پسندیدہ چیز کی وجہ سے (آخرت کی) سعادتوں سے محروم رہوں اور دوسرا میری ناپسندیدہ چیز کی وجہ سے خوش بختی و سعادت حاصل کر لے جائے،

وَ اِنْ یَّكُنْ مَّا ظَلِلْتُ فِیْهِ اَوْ بِتُّ فِیْهِ، مِنْ هٰذِهِ الْعَافِیَةِ بَیْنَ یَدَیْ بَلَآءٍ لَّا یَنْقَطِعُ، وَ وِزْرٍ لَّا یَرْتَفِعُ فَقَدِّمْ لِیْ مَاۤ اَخَّرْتَ، وَ اَخِّرْ عَنِّیْ مَا قَدَّمْتَ، فَغَیْرُ كَثِیْرٍ مَّا عَاقِبَتُهٗ الْفَنَآءُ، وَ غَیْرُ قَلِیْلٍ مَّا عَاقِـبَتُهٗ الْبَقَآءُ، وَ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ.

اور اگر یہ تندرستی کہ جس میں دن گزارا ہے یا رات بسر کی ہے کسی لا زوال مصیبت کا پیش خیمہ اور کسی دائمی وبال کی تمہید بن جائے تو جس (زحمت و اندوہ) کو تو نے مؤخر کیا ہے اسے مقدم کر دے، اور جس ( صحت و عافیت) کو مقدم کیا اسے مؤخر کر دے، کیونکہ جس چیز کا نتیجہ فنا ہو وہ زیادہ نہیں، اور جس کا انجام بقا ہو وہ کم نہیں۔ اے اللہ! تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما۔

–٭٭–

دنیا کے مصائب و آلام، ابدی عیش و آرام کا پیش خیمہ ہیں۔ اس لئے خداوند عالم اپنے مخصوص بندوں کو رنج و زحمت میں مبتلا دیکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

وَ مَاۤ اَحَبَّ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ قَوْمًاً اِلَّا ابْتَلَاهُمْ.

خدا جن لوگوں کو دوست رکھتا ہے انہیں مصیبت و بلا میں جکڑ لیتا ہے۔[۱]

اور جس کا مرتبہ جتنا بلند ہوتا ہے اسی قدر اسے رنج و محن سے سابقہ پڑتا ہے۔

چنانچہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اَشَدُّ النَّاسِ بَلَآءً الْاَنْبِيَآءُ، ثُمَّ الْاَوْصِيَآءُ، ثُمَّ الْاَمَاثِلُ، فَالْاَمَاثِلُ.

سب سے زیادہ مصیبت میں انبیاء علیہ السلام مبتلا ہوتے ہیں، پھر اوصیاء علیہ السلام، پھر علی الترتیب دوسرے برگزیدگانِ خدا۔[۲]

اور اس مصیبت کے لحاظ سے ان کے اجر وثواب میں اضافہ اور ان کے درجات میں بلندی ہوتی ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

اِنَّ عَظِيْمَ الْبَلَآءِ يُكَافَئُ بِهٖ عَظِيْمُ الْجَزَآءِ، فَاِذَاۤ اَحَبَّ اللّٰهُ عَبْدًا ابْتَلَاهُ بِعَظِيْمِ الْبَلَآءِ.

بڑی مصیبت کی جزا بھی بڑی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو اپنی محبت کا مرکز بناتا ہے تو اسے سختیوں سے آزماتا ہے۔[۳]

چنانچہ خاصانِ خدا بڑی سے بڑی مصیبتوں میں ڈالے گئے، طرح طرح کی آزمائشوں سے دوچار ہوئے مگر محبت و رضا کے جذبۂ بے پایاں کے زیرِ اثر رنج و مصیبت کے کڑوے گھونٹ خوشی سے پیتے رہے۔ نہ ان کے چہروں پر کڑواہٹ کھلی، نہ اُن کی پیشانیوں پر بَل آئے اور نہ زبان شکوہ و شکایت سے آلودہ ہوئی۔ بلکہ مصیبت کے پھندوں سے رہائی نصیب ہوتی یا کسی مرض سے شفا حاصل ہوتی تو جہاں اُن کے دل میں شکر کا جذبہ پیدا ہوتا تھا وہاں یہ اندیشہ بھی دامن گیر ہوتا تھا کہ کہیں یہ آسائش و عافیت آخرت کی کسی کامرانی اور عقبیٰ کی کسی سعادت سے محرومی کا باعث نہ بن جائے۔ چنانچہ امام علیہ السلام اس دُعا میں ایک طرف صحت و عافیت کے حصول اور ابتلاؤ مصیبت سے رہائی پر شکریہ ادا کرتے ہیں تو دوسری طرف یہ اندیشہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ اگر عافیت کا دور طویل ہو جائے تو یہ کہیں صبر و ضبط کے ثواب سے محرومی کا باعث نہ بن جائے۔ مقصد یہ ہے کہ دنیا کے کسی آرام و راحت کا اثر آخرت کی زندگی پر نہ پڑے۔ اور اگر پڑتا ہے تو پھر وہاں کی تکلیف کے بجائے دنیا ہی میں مجھ پر تکلیف ڈال دی جائے۔ کیونکہ دنیا کی تکلیفیں خواہ کتنی شدید ہوں انہیں جھیلا جا سکتا ہے۔ اس لئے کہ انہیں ایک نہ ایک دن ختم ہونا ہے۔ اور آخرت کی تکلیفوں اور صعوبتوں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کا سلسلہ خدا جانے کہاں پر ختم ہونے والا ہے۔ لہٰذا یہ صحت و تندرستی اور آسائش و راحت جو دنیا میں مجھے نصیب ہوئی ہے اس پر اسی صورت میں خوش ہوں کہ یہ مصیبتوں پر اجر و ثواب اور آخرت کی سعادت و کامرانی سے محرومی کا سبب نہ بنے۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ مسکن الفواد، ص ۱۲۴

[۲]۔ الکافی، ج۲، ص ۲۵۳

[۳]۔ ریاض السالکین، ج ۳ ص ۲۲۴

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button