صحیفہ کاملہ

20۔ پاکیزہ اخلاق سے آراستگی کی دعا

(۲۰) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

فِی مَكَارِمِ الْاَخْلَاقِ وَ مَرْضِیِّ الْاَفْعَالِ

پسندیدہ اخلاق و شائستہ کردار کے سلسلہ میں حضرت ؑکی دُعا:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ بَلِّغْ بِاِیْمَانِیْۤ اَكْمَلَ الْاِیْمَانِ، وَ اجْعَلْ یَقِیْنِیْۤ اَفْضَلَ الْیَقِیْنِ، وَ انْتَهِ بِنِیَّتِیْۤ اِلٰى اَحْسَنِ النِّیَّاتِ، وَ بِعَمَلِیْۤ اِلٰى اَحْسَنِ الْاَعْمَالِ.

بارِالٰہا! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور میرے ایمان کو کامل ترین ایمان کی حد تک پہنچا دے، اور میرے یقین کو بہترین یقین قرار دے، اور میری نیت کو پسندیدہ ترین نیت، اور میرے اعمال کو بہترین اعمال کے پایہ تک بلند کر دے۔

اَللّٰهُمَّ وَفِّرْ بِلُطْفِكَ نِیَّتِیْ، وَ صَحِّحْ بِمَا عِنْدَكَ یَقِیْنِیْ، وَ اسْتَصْلِحْ بِقُدْرَتِكَ مَا فَسَدَ مِنِّیْ.

خداوندا! اپنے لطف سے میری نیت کو خالص و بے ریا، اور اپنی رحمت سے میرے یقین کو استوار، اور اپنی قدرت سے میری خرابیوں کی اصلاح کر دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اكْفِنِیْ مَا یَشْغَلُنِی الْاِهْتِمَامُ بِهٖ، وَ اسْتَعْمِلْنِیْ بِمَا تَسْئَلُنِیْ غَدًا عَنْهُ، وَ اسْتَفْرِغْ اَیَّامِیْ فِیْمَا خَلَقْتَنِیْ لَهٗ، وَ اَغْنِنِیْ وَ اَوْسِعْ عَلَیَّ فِیْ رِزْقِكَ، وَ لَا تَفْتِنِّیْ بِالنَّظَرِ، وَ اَعِزَّنِیْ وَ لَا تَبْتَلِیَنِّیْ بِالْكِبْرِ، وَ عَبِّدْنِیْ لَكَ وَ لَا تُفْسِدْ عِبَادَتِیْ بِالْعُجْبِ، وَ اَجْرِ لِلنَّاسِ عَلٰى یَدِیَ الْخَیْرَ وَ لَا تَمْحَقْهُ بِالْمَنِّ، وَ هَبْ لِیْ مَعَالِیَ الْاَخْلَاقِ وَ اعْصِمْنِیْ مِنَ الْفَخْرِ.

بارِالٰہا! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما، اور مجھے ان مصروفیتوں سے جو عبادت میں مانع ہیں بے نیاز کر دے، اور انہی چیزوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے جن کے بارے میں مجھ سے کل کے دن سوال کرے گا، اور میرے ایام زندگی کو غرض خلقت کی انجام دہی کیلئے مخصوص کر دے اور مجھے (دوسروں سے) بے نیاز کر دے، اور میرے رزق میں کشائش و وسعت عطا فرما، احتیاج و دست نگری میں مبتلا نہ کر، عزت و توقیر دے، کبر و غرور سے دو چار نہ ہونے دے، میرے نفس کو بندگی و عبادت کیلئے رام کر، اور خود پسندی سے میری عبادت کو فاسد نہ ہونے دے، اور میرے ہاتھوں سے لوگوں کو فیض پہنچا، اور اسے احسان جتانے سے رائیگاں نہ ہونے دے، مجھے بلند پایہ اخلاق مرحمت فرما اور غرور اور تفاخر سے محفوظ رکھ۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ لَا تَرْفَعْنِیْ فِی النَّاسِ دَرَجَةً اِلَّا حَطَطْتَّنِیْ عِنْدَ نَفْسِیْ مِثْلَهَا، وَ لَا تُحْدِثْ لِیْ عِزًّا ظَاهِرًاۤ اِلَّاۤ اَحْدَثْتَ لِیْ ذِلَّةً بَاطِنَةً عِنْدَ نَفْسِیْ بِقَدَرِهَا.

بارِالٰہا! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور لوگوں میں میرا درجہ جتنا بلند کرے اتنا ہی مجھے خود اپنی نظروں میں پست کر دے، اور جتنی ظاہری عزت مجھے دے اتنا ہی میرے نفس میں باطنی بے وقعتی کا احساس پیدا کر دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ مَتِّعْنِیْ بِهُدًى صَالِحٍ لَاۤ اَسْتَبْدِلُ بِهٖ، وَ طَرِیْقَةِ حَقٍّ لَّاۤ اَزِیْغُ عَنْهَا، وَ نِیَّةِ رُشْدٍ لَاۤ اَشُكُّ فِیْهَا، وَ عَمِّرْنِیْ مَا كَانَ عُمُرِیْ بِذْلَةً فِیْ طَاعَتِكَ، فَاِذَا كَانَ عُمُرِیْ مَرْتَعًا لِّلشَّیْطٰنِ فَاقْبِضْنِیْۤ اِلَیْكَ قَبْلَ اَنْ یَّسْبِقَ مَقْتُكَ اِلَیَّ، اَوْ یَسْتَحْكِمَ غَضَبُكَ عَلَیَّ.

بارِالٰہا! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے ایسی نیک ہدایت سے بہرہ مند فرما کہ جسے دوسری چیز سے تبدیل نہ کروں، اور ایسے صحیح راستہ پر لگا جس سے کبھی منہ نہ موڑوں، اور ایسی پختہ نیّت دے جس میں ذرا شبہ نہ کروں، اور جب تک میری زندگی تیری اطاعت و فرمانبرداری کے کام آئے مجھے زندہ رکھ، اور جب وہ شیطان کی چراگاہ بن جائے تو اس سے پہلے کہ تیری ناراضگی سے سابقہ پڑے یا تیرا غضب مجھ پر یقینی ہو جائے مجھے اپنی طرف اٹھا لے۔

اَللّٰهُمَّ لَا تَدَعْ خَصْلَةً تُعَابُ مِنِّیْ اِلَّاۤ اَصْلَحْتَهَا، وَ لَا عَآئِبَةً اُؤَنَّبُ بِهَاۤ اِلَّا حَسَّنْتَهَا، وَ لَاۤ اُكْرُوْمَةً فِیَّ نَاقِصَةً اِلَّاۤ اَتْمَمْتَهَا.

اے معبود! کوئی ایسی خصلت جو میرے لئے معیوب سمجھی جاتی ہو اس کی اصلاح کئے بغیر نہ چھوڑ، اور کوئی ایسی بری عادت جس پر میری سرزنش کی جا سکے اسے درست کئے بغیر نہ رہنے دے، اور جو پاکیزہ خصلت ابھی مجھ میں ناتمام ہو، اسے تکمیل تک پہنچا دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ اَبْدِلْنِیْ مِن بِغْضَةِ اَهْلِ الشَّنَاٰنِ الْمَحَبَّةَ، وَ مِنْ حَسَدِ اَهْلِ الْبَغْیِ الْمَوَدَّةَ، وَ مِنْ ظِنَّةِ اَهْلِ الصَّلَاحِ الثِّقَةَ، وَ مِنْ عَدَاوَةِ الْاَدْنَیْنَ الْوَلَایَةَ، وَ مِنْ عُقُوْقِ ذَوِی الْاَرْحَامِ الْمَبَرَّةَ، وَ مِنْ خِذْلَانِ الْاَقْرَبِیْنَ النُّصْرَةَ، وَ مِنْ حُبِّ الْمُدَارِیْنَ تَصْحِیْحَ الْمِقَةِ، وَ مِنْ رَدِّ الْمُلَابِسِیْنَ كَرَمَ الْعِشْرَةِ، وَ مِنْ مَرَارَةِ خَوْفِ الظّٰلِمِیْنَ حَلَاوَةَ الْاَمَنَةِ.

اے اللہ! رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور میری نسبت کینہ توز دشمنوں کی دشمنی کو الفت سے، سرکشوں کے حسد کو محبت سے، نیکوں سے بے اعتمادی کو اعتماد سے، قریبیوں کی عداوت کو دوستی سے، عزیزوں کی قطع تعلقی کو صلہ رحمی سے، قرابتداروں کی بے اعتنائی کو نصرت و تعاون سے، خوشامدیوں کی ظاہری محبت کو سچی محبت سے، اور ساتھیوں کے اہانت آمیز برتاؤ کو حسن معاشرت سے، اور ظالموں کے خوف کی تلخی کو امن کی شیرینی سے بدل دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اجْعَلْ لِّیْ یَدًا عَلٰى مَنْ ظَلَمَنِیْ، وَ لِسَانًا عَلٰى مَنْ خَاصَمَنِیْ، وَ ظَفَرًا بِمَنْ عَانَدَنِیْ، وَ هَبْ لِیْ مَكْرًا عَلٰى مَنْ كَایَدَنِیْ، وَ قُدْرَةً عَلٰى مَنِ اضْطَهَدَنِی، وَ تَكْذِیْبًا لِّمَنْ قَصَبَنِیْ، وَ سَلَامَةً مِّمَّنْ تَوَعَّدَنِی، وَ وَفِّقْنِیْ لِطَاعَةِ مَنْ سَدَّدَنِی، وَ مُتَابَعَةِ مَنْ اَرْشَدَنِیْ.

خداوندا! رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور جو مجھ پر ظلم کرے اس پر مجھے غلبہ دے، جو مجھ سے جھگڑا کرے اس کے مقابلہ میں زبان (حجت شکن) دے، جو مجھ سے دشمنی کرے اس پر مجھے فتح و کامرانی بخش، جو مجھ سے مکر کرے اس کے مکر کا توڑ عطا کر، جو مجھے دبائے اس پر قابو دے، جو میری بدگوئی کرے اسے جھٹلانے کی طاقت دے، اور جو ڈرائے دھمکائے اس سے مجھے محفوظ رکھ، جو میری اصلاح کرے اس کی اطاعت اور جو راہِ راست دکھائے اس کی پیروی کی توفیق عطا فرما۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ سَدِّدْنِیْ لِاَنْ اُعَارِضَ مَنْ غَشَّنِیْ بِالنُّصْحِ، وَ اَجْزِیَ مَنْ هَجَرَنِی بِالْبِرِّ، وَ اُثِیْبَ مَنْ حَرَمَنِی بِالْبَذْلِ، وَ اُكَافِیَ مَنْ قَطَعَنِیْ بِالصِّلَةِ، وَ اُخَالِفَ مَنِ اغْتَابَنِیْ اِلٰى حُسْنِ الذِّكْرِ، وَ اَنْ اَشْكُرَ الْحَسَنَةَ، وَ اُغْضِیَ عَنِ السَّیِّئَةِ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے اس امر کی توفیق دے کہ جو مجھ سے غش و فریب کرے میں اس کی خیر خواہی کروں، جو مجھے چھوڑ دے اس سے حسن سلوک سے پیش آؤں، جو مجھے محروم کرے اسے عطا و بخشش کے ساتھ عوض دوں، اور جو قطع رحمی کرے اسے صلہ رحمی کے ساتھ بدلہ دوں، اور جو پس پشت میری برائی کرے میں اس کے بر خلاف اس کا ذکرِ خیر کروں اور حسن سلوک پر شکریہ بجا لاؤں اور بدی سے چشم پوشی کروں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ حَلِّنِیْ بِحِلْیَةِ الصّٰلِحِیْنَ، وَ اَلْبِسْنِیْ زِیْنَةَ الْمُتَّقِیْنَ، فِیْ بَسْطِ الْعَدْلِ، وَ كَظْمِ الغَیْظِ، وَ اِطْفَآءِ النَّآئِرَةِ، وَ ضَمِّ اَهْلِ الْفُرْقَةِ، وَ اِصْلَاحِ ذَاتِ الْبَیْنِ، وَ اِفْشَآءِ الْعَارِفَةِ، وَ سَتْرِ الْعَآئِبَةِ، وَ لِیْنِ الْعَرِیْكَةِ، وَ خَفْضِ الْجَنَاحِ، وَ حُسْنِ السِّیْرَةِ، وَ سُكُوْنِ الرِّیْحِ، وَ طِیْبِ الْمُخَالَقَةِ، وَ السَّبْقِ اِلَى الْفَضِیْلَةِ، وَ اِیْثَارِ التَّفَضُّلِ، وَ تَرْكِ التَّعْیِیْرِ، وَ الْاِفْضَالِ عَلٰى غَیْرِ الْمُسْتَحِقِّ، وَ الْقَوْلِ بِالْحَقِّ وَ اِنْ عَزَّ، وَ اسْتِقْلَالِ الْخَیْرِ وَ اِنْ كَثُرَ مِنْ قَوْلِیْ وَ فِعْلِیْ، وَ اسْتِكْثَارِ الشَّرِّ وَ اِنْ قَلَّ مِنْ قَوْلِیْ وَ فِعْلِیْ، وَ اَكْمِلْ ذٰلِكَ لِیْ بِدَوَامِ الطَّاعَةِ، وَ لُزُوْمِ الْجَمَاعَةِ، وَ رَفْضِ اَهْلِ الْبِدَعِ، وَ مُسْتَعْمِلِ الرَّاْیِ الْمُخْتَرَعِ.

بارِالٰہا! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور عدل کے نشر، غصّہ کے ضبط، اور فتنہ کے فروکرنے، متفرق و پراگندہ لوگوں کو ملانے، آپس میں صلح صفائی کرانے، نیکی کے ظاہر کرنے، عیب پر پردہ ڈالنے، نرم خوئی و فروتنی اور حسن سیرت کے اختیار کرنے، رکھ رکھاؤ رکھنے، حسن اخلاق سے پیش آنے، فضیلت کی طرف پیش قدمی کرنے، تفضّل و احسان کو ترجیح دینے، خوردہ گیری سے کنارا کرنے اور غیر مستحق کے ساتھ حسن سلوک کے ترک کرنے اور حق بات کے کہنے میں اگرچہ وہ گراں گزرے، اور اپنی گفتار و کردار کی بھلائی کو کم سمجھنے میں اگرچہ وہ زیادہ ہو، اور اپنے قول و عمل کی برائی کو زیادہ سمجھنے میں اگرچہ وہ کم ہو، مجھے نیکوکاروں کے زیور اور پرہیزگاروں کی سج دھج سے آراستہ کر، اور ان تمام چیزوں کو دائمی اطاعت اور جماعت سے وابستگی، اور اہل بدعت اور ایجاد کردہ رایوں پر عمل کرنے والوں سے علیحدگی کے ذریعہ پایۂ تکمیل تک پہنچا دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اجْعَلْ اَوْسَعَ رِزْقِكَ عَلَیَّ اِذَا كَبِرْتُ، وَ اَقْوٰى قُوَّتِكَ فِیَّ اِذَا نَصِبْتُ، وَ لَا تَبْتَلِیَنِّیْ بِالْكَسَلِ عَنْ عِبَادَتِكَ، وَ لَا الْعَمٰى عَنْ سَبِیْلِكَ، وَ لَا بِالتَّعَرُّضِ لِخِلَافِ مَحَبَّتِكَ، وَ لَا مُجَامَعَةِ مَنْ تَفَرَّقَ عَنْكَ، وَ لَا مُفَارَقَةِ مَنِ اجْتَمَعَ اِلَیْكَ.

بارِالٰہا! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور جب میں بوڑھا ہو جاؤں تو اپنی وسیع روزی میرے لئے قرار دے، اور جب عاجز و درماندہ ہو جاؤں تو اپنی قوی طاقت سے مجھے سہارا دے، اور مجھے اس بات میں مبتلا نہ کر کہ تیری عبادت میں سستی و کوتاہی کروں، تیری راہ کی تشخیص میں بھٹک جاؤں، تیری محبت کے تقاضوں کی خلاف ورزی کروں، اور جو تجھ سے متفرق و پراگندہ ہوں ان سے میل جول رکھوں، اور جو تیری جانب بڑھنے والے ہیں ان سے علیحدہ رہوں۔

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِیْۤ اَصُوْلُ بِكَ عِنْدَ الضَّرُوْرَةِ، وَ اَسْئَلُكَ عِنْدَ الْحَاجَةِ، وَ اَتَضَرَّعُ اِلَیْكَ عِنْدَ الْمَسْكَنَةِ، وَ لَا تَفْتِنِّیْ بِالِاسْتِعَانَةِ بِغَیْرِكَ اِذَا اضْطُرِرْتُ، وَ لَا بِالْخُضُوْعِ لِسُؤَالِ غَیْرِكَ اِذَا افْتَقَرْتُ، وَ لَا بِالتَّضَرُّعِ اِلٰى مَنْ دُوْنَكَ اِذَا رَهِبْتُ، فَاَسْتَحِقَّ بِذٰلِكَ خِذْلَانَكَ وَ مَنْعَكَ وَ اِعْرَاضَكَ، یَاۤ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ.

خداوندا! مجھے ایسا قرار دے کہ ضرورت کے وقت تیرے ذریعہ حملہ کروں، حاجت کے وقت تجھ سے سوال کروں، اور فقر و احتیاج کے موقع پر تیرے سامنے گڑگڑاؤں، اور اس طرح مجھے نہ آزمانا کہ اضطرار میں تیرے غیر سے مدد مانگوں، اور فقر و ناداری کے وقت تیرے غیر کے آگے عاجزانہ درخواست کروں، اور خوف کے موقع پر تیرے سوا کسی دوسرے کے سامنے گِڑگڑاؤں کہ تیری طرف سے محرومی، ناکامی اور بے اعتنائی کا مستحق قرار پاؤں، اے تمام رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ فِیْ رُوْعِیْ، مِنَ التَّمَنِّیْ وَ التَّظَنِّیْ وَ الْحَسَدِ، ذِكْرًا لِّعَظَمَتِكَ، وَ تَفَكُّرًا فِیْ قُدْرَتِكَ، وَ تَدْبِیْرًا عَلٰى عَدُوِّكَ، وَ مَاۤ اَجْرٰى عَلٰى لِسَانِیْ مِنْ لَّفْظَةِ فُحْشٍ اَوْ هُجْرٍ ،اَوْ شَتْمِ عِرْضٍ، اَوْ شَهَادَةِ بَاطِلٍّ اَوِ اغْتِیَابِ مُؤْمِنٍ غَآئِبٍ، اَوْ سَبِّ حَاضِرٍ، وَ مَاۤ اَشْبَهَ ذٰلِكَ نُطْقًا بِالْحَمْدِ لَكَ، وَ اِغْرَاقًا فِی الثَّنَآءِ عَلَیْكَ، وَ ذَهَابًا فِیْ تَمْجِیْدِكَ، وَ شُكْرًا لِّنِعْمَتِكَ، وَ اعْتِرَافًا بِاِحْسَانِكَ، وَ اِحْصَآءً لِّمِنَنِكَ.

خدایا! جو حرص، بدگمانی اور حسد کے جذبات شیطان میرے دل میں پیدا کرے انہیں اپنی عظمت کی یاد، اپنی قدرت میں تفکر اور دشمن کے مقابلہ میں تدبیر و چارہ سازی کے تصورات سے بدل دے، اور فحش کلامی، یا بےہودہ گوئی، یا دُشنام طرازی، یا جھوٹی گواہی، یا غائب مومن کی غیبت، یا موجود سے بد زبانی، اور اس قبیل کی جو باتیں میری زبان پر لانا چاہے، انہیں اپنی حمد سرائی، مدح میں کوشش و انہماک، تمجید و بزرگی کے بیان، شکر نعمت و اعتراف احسان اور اپنی نعمتوں کے شمار سے تبدیل کر دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ لَاۤ اُظْلَمَنَّ وَ اَنْتَ مُطِیْقٌ لِّلدَّفْعِ عَنِّیْ، وَ لَاۤ اَظْلِمَنَّ وَ اَنْتَ الْقَادِرُ عَلٰى الْقَبْضِ مِنِّیْ، وَ لَاۤ اَضِلَّنَّ وَ قَدْ اَمْكَنَتْكَ هِدَایَتِیْ، وَ لَاۤ اَفْتَقِرَنَّ وَ مِنْ عِنْدِكَ وُسْعِیْ، وَ لَاۤ اَطْغَیَنَّ وَ مِنْ عِنْدِكَ وُجْدِیْ.

اے اللہ ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھ پر ظلم نہ ہونے پائے جبکہ تو اس کے دفع کرنے پر قادر ہے، اور کسی پر ظلم نہ کروں جبکہ تو مجھے ظلم سے روک دینے کی طاقت رکھتا ہے، اور گمراہ نہ ہو جاؤں جبکہ میری راہنمائی تیرے لئے آسان ہے، اور محتاج نہ ہوں جبکہ میری فارغ البالی تیری طرف سے ہے، اور سرکش نہ ہو جاؤں جبکہ میری خوشحالی تیری جانب سے ہے۔

اَللّٰهُمَّ اِلٰى مَغْفِرَتِكَ وَفَدْتُّ، وَ اِلٰى عَفْوِكَ قَصَدْتُّ، وَ اِلٰى تَجَاوُزِكَ اشْتَقْتُ، وَ بِفَضْلِكَ وَثِقْتُ، وَ لَیْسَ عِنْدِیْ مَا یُوْجِبُ لِیْ مَغْفِرَتَكَ، وَ لَا فِیْ عَمَلِیْ مَاۤ اَسْتَحِقُّ بِهٖ عَفْوَكَ، وَ مَا لِیْ بَعْدَ اَنْ حَكَمْتُ عَلٰى نَفْسِیْۤ اِلَّا فَضْلُكَ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ تَفَضَّلْ عَلَیَّ.

بارِالٰہا! میں تیری مغفرت کی جانب آیا ہوں، اور تیری معافی کا طلبگار اور تیری بخشش کا مشتاق ہوں، میں صرف تیرے فضل پر بھروسا رکھتا ہوں، اور میرے پاس کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو میرے لئے مغفرت کا باعث بن سکے، اور نہ میرے عمل میں کچھ ہے کہ تیرے عفو کا سزاوار قرار پاؤں، اور اب اس کے بعد کہ میں خود ہی اپنے خلاف فیصلہ کر چکا ہوں تیرے فضل کے سوا میرا سرمایۂ امید کیا ہو سکتا ہے؟ لہٰذا محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل کر اور مجھ پر تفضّل فرما۔

اَللّٰهُمَّ وَ اَنْطِقْنِیْ بِالْهُدٰى، وَ اَلْهِمْنِی التَّقْوٰى، وَ وَفِّقْنِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَزْكٰى، وَ اسْتَعْمِلْنِیْ بِمَا هُوَ اَرْضٰى.

خدایا! مجھے ہدایت کے ساتھ گویا کر، میرے دل میں تقویٰ و پرہیزگاری کا القاء فرما، پاکیزہ عمل کی توفیق دے، پسندیدہ کام میں مشغول رکھ۔

اَللّٰهُمَّ اسْلُكْ بِیَ الطَّرِیْقَةَ الْمُثْلٰى، وَ اجْعَلْنِیْ عَلٰى مِلَّتِكَ اَمُوْتُ وَ اَحْیَا.

خدایا! مجھے بہترین راستہ پر چلا اور ایسا کر کہ تیرے دین و آئین پر مروں اور اسی پر زندہ رہوں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ مَتِّعْنِیْ بِالِاقْتِصَادِ، وَ اجْعَلْنِیْ مِنْ اَهْلِ السَّدَادِ، وَ مِنْ اَدِلَّةِ الرَّشَادِ، وَ مِنْ صَالِحِ الْعِبَادِ، وَ ارْزُقْنِیْ فَوْزَ الْمَعَادِ، وَ سلَامَةَ الْمِرْصَادِ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے (گفتار و کردار میں) میانہ روی سے بہرہ مند فرما، اور درست کاروں اور ہدایت کے رہنماؤں اور نیک بندوں میں سے قرار دے، اور آخرت کی کامیابی اور جہنم سے سلامتی عطا کر۔

اَللّٰهُمَّ خُذْ لِنَفْسِكَ مِنْ نَفْسِیْ مَا یُخَلِّصُهَا، وَ اَبْقِ لِنَفْسِیْ مِنْ نَّفْسِیْ مَا یُصْلِحُهَا، فَاِنَّ نَفْسِیْ هَالِكَةٌ اَوْ تَعْصِمَهَا.

خدایا! میرے نفس کا ایک حصہ اپنی (ابتلاء و آزمائش کیلئے) مخصوص کر دے تاکہ اسے (عذاب سے ) رہائی دلا سکے، اور ایک حصہ کہ جس سے اس کی (دنیوی) اصلاح و درستی وابستہ ہے، میرے لئے رہنے دے، کیونکہ میرا نفس تو ہلاک ہونے والا ہے مگر یہ کہ تو اسے بچا لے جائے۔

اَللّٰهُمَّ اَنْتَ عُدَّتِیْۤ اِنْ حَزِنْتُ، وَ اَنْتَ مُنْتَجَعِیْۤ اِنْ حُرِمْتُ، وَ بِكَ اسْتِغَاثَتِیْۤ اِنْ كَرِثْتُ، وَ عِنْدَكَ مِمَّا فَاتَ خَلَفٌ، وَ لِمَا فَسَدَ صَلَاحٌ، وَ فِیْمَاۤ اَنْكَرْتَ تَغْیِیْرٌ، فَامْنُنْ عَلَیَّ قَبْلَ الْبَلَآءِ بِالْعَافِیَةِ، وَ قَبْلَ الْطَّلَبِ بِالْجِدَةِ، وَ قَبْلَ الضَّلَالِ بِالرَّشَادِ، وَ اكْفِنِیْ مَئُوْنَةَ مَعَرَّةِ الْعِبَادِ، وَ هَبْ لِیْۤ اَمْنَ یَوْمِ الْمَعَادِ، وَ امْنَحْنِیْ حُسْنَ الْاِرْشَادِ.

اے اللہ! اگر میں غمگین ہوں تو میرا ساز و سامان (تسکین) تو ہے، اور اگر (ہر جگہ سے) محروم رہوں تو میری امید گاہ تو ہے، اور اگر مجھ پر غموں کا ہجوم ہو تو تجھ ہی سے داد فریاد ہے، جو چیز جا چکی اس کا عوض اور جو شے تباہ ہو گئی اس کی درستی اور جسے تو ناپسند کرے اس کی تبدیلی تیرے ہاتھ میں ہے، لہٰذا بلا کے نازل ہونے سے پہلے عافیت، مانگنے سے پہلے خوشحالی اور گمراہی سے پہلے ہدایت سے مجھ پر احسان فرما، اور لوگوں کی سخت و درشت باتوں کے رنج سے محفوظ رکھ، اور قیامت کے دن امن و اطمینان عطا فرما، اور حسن ہدایت و ارشاد کی توفیق مرحمت فرما۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ ادْرَاْ عَنِّیْ بِلُطْفِكَ، وَ اغْذُنِیْ بِنِعْمَتِكَ، وَ اَصْلِحْنِیْ بِكَرَمِكَ، وَ دَاوِنِیْ بِصُنْعِكَ، وَ اَظِلَّنِیْ فِیْ ذَرَاكَ، وَ جَلِّلْنِیْ رِضَاكَ، وَ وَفِّقْنِیْ اِذَا اشْتَكَلَتْ عَلَیَّ الْاُمُوْرُ لِاَهْدَاهَا، وَ اِذَا تَشَابَهَتِ الْاَعْمَالُ لِاَزْكَاهَا، وَ اِذَا تَنَاقَضَتِ الْمِلَلُ لِاَرْضَاهَا.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور اپنے لطف سے (برائیوں کو) مجھ سے دور کر دے، اور اپنی نعمت سے میری پرورش اور اپنے کرم سے میری اصلاح فرما اور اپنے فضل و احسان سے (جسمانی و نفسانی امراض سے) میرا مداوا کر، مجھے اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور اپنی رضامندی میں ڈھانپ لے، اور جب امور مشتبہ ہو جائیں تو جو اُن میں زیادہ قرین صواب ہو، اور جب اعمال میں اشتباہ واقع ہو جائے تو جو اُن میں پاکیزہ تر ہو، اور جب مذاہب میں اختلاف پڑ جائے تو جو اُن میں پسندیدہ تر ہو، اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرما۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ تَوِّجْنِیْ بِالْكِفَایَةِ، وَ سُمْنِیْ حُسْنَ الْوِلَایَةِ، وَ هَبْ لِیْ صِدْقَ الْهِدَایَةِ، وَ لَا تَفْتِنِّیْ بِالسَّعَةِ، وَ امْنَحْنِیْ حُسْنَ الدَّعَةِ، وَ لَا تَجْعَلْ عَیْشِیْ كَدًّا كَدًّا، وَ لَا تَرُدَّ دُعَآئِیْ عَلَیَّ رَدًّا، فَاِنِّیْ لَاۤ اَجْعَلُ لَكَ ضِدًّا، وَ لَاۤ اَدْعُوْ مَعَكَ نِدًّا.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے بے نیازی کا تاج پہنا، اور متعلقہ کاموں کو احسن طریق سے انجام دینے پر مامور فرما، اور ایسی ہدایت سے سرفراز فرما جو دوام و ثبات لئے ہوئے ہو، اور غنا و خوشحالی سے مجھے بے راہ نہ ہونے دے، اور آسودگی و آسائش عطا فرما، اور زندگی کو سخت دشوار نہ بنا دے، میری دُعا کو ردنہ کر، کیونکہ میں کسی کو تیرا مدّ مقابل نہیں قرار دیتا، اور نہ تیرے ساتھ کسی کو تیرا ہمسر سمجھتے ہوئے پکارتا ہوں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ امْنَعْنِیْ مِنَ السَّرَفِ، وَ حَصِّنْ رِّزْقِیْ مِنَ التَّلَفِ، وَ وَفِّرْ مَلَكَتِیْ بِالْبَرَكَةِ فِیْهِ،وَ اَصِبْ بِیْ سَبِیْلَ الْهِدَایَةِ لِلْبِرِّ فِیْمَاۤ اُنْفِقُ مِنْهُ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے فضول خرچی سے باز رکھ، اور میری روزی کو تباہ ہونے سے بچا، اور میرے مال میں برکت دے کر اس میں اضافہ کر، اور مجھے اس میں سے امور خیر میں خرچ کرنے کی وجہ سے راہ حق و صواب تک پہنچا۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اكْفِنِیْ مَئُوْنَةَ الْاِكْتِسَابِ، وَ ارْزُقْنِیْ مِنْ غَیْرِ احْتِسَابٍ، فَلَاۤ اَشْتَغِلَ عَنْ عِبَادَتِكَ بِالطَّلَبِ، وَ لَاۤ اَحْتَمِلَ اِصْرَ تَبِعَاتِ الْمَكْسَبِ.

بارالٰہا! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے کسب معیشت کے رنج و غم سے بے نیاز کر دے، اور بے حساب روزی عطا فرما، تاکہ تلاشِ معاش میں الجھ کر تیری عبادت سے روگرداں نہ ہو جاؤں اور (غلط و نامشروع) کا رو کسب کا خمیازہ نہ بھگتوں۔

اَللّٰهُمَّ فَاَطْلِبْنِیْ بِقُدْرَتِكَ مَاۤ اَطْلُبُ، وَ اَجِرْنِیْ بِعِزَّتِكَ مِمَّاۤ اَرْهَبُ.

اے اللہ! میں جو کچھ طلب کرتا ہوں اسے اپنی قدرت سے مہیا کر دے، اور جس چیز سے خائف ہوں اس سے اپنی عزت و جلال کے ذریعہ پناہ دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ صُنْ وَّجْهِیْ بِالْیَسَارِ، وَ لَا تَبْتَذِلْ جَاهِیْ بِالْاِقْتَارِ فَاَسْتَرْزِقَ اَهْلَ رِزْقِكَ، وَ اَسْتَعْطِیَ شِرَارَ خَلْقِكَ، فَاَفْتَتِنَ بِحَمْدِ مَنْ اَعْطَانِیْ، وَ اُبْتَلٰى بِذَمِّ مَنْ مَّنَعَنِیْ، وَ اَنْتَ مِنْ دُوْنِهِمْ وَلِیُّ الْاِعْطَآءِ وَ الْمَنْعِ.

خدایا! میری آبرو کو غنا و تو نگری کے ساتھ محفوظ رکھ، اور فقر و تنگ دستی سے میری منزلت کو نظروں سے نہ گرا کہ تجھ سے رزق پانے والوں سے رزق مانگنے لگوں، اور تیرے پست بندوں کی نگاہِ لطف و کرم کو اپنی طرف موڑنے کی تمنّا کروں، اور جو مجھے دے اس کی مدح و ثنا اور جو نہ دے اس کی برائی کرنے میں مبتلا ہو جاؤں اور تو ہی عطا کر نے اور روک لینے کا اختیار رکھتا ہے نہ کہ وہ۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ ارْزُقْنِیْ صِحَّةً فِیْ عِبَادَةٍ، وَ فَرَاغًا فِیْ زَهَادَةٍ، وَ عِلْمًا فِی اسْتِعْمَالٍ، وَ وَرَعًا فِیْۤ اِجْمَالٍ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے ایسی صحت دے جو عبادت میں کام آئے، اور ایسی فرصت جو دنیا سے بے تعلقی میں صرف ہو، اور ایسا علم جو عمل کیساتھ ہو، اور ایسی پرہیزگاری جو حد اعتدال میں ہو (کہ وسواس میں مبتلا نہ ہو جاؤں)۔

اَللّٰهُمَّ اخْتِمْ بِعَفْوِكَ اَجَلِیْ، وَ حَقِّقْ فِیْ رَجَآءِ رَحْمَتِكَ اَمَلِیْ، وَ سَهِّلْ اِلٰى بُلُوْغِ رِضَاكَ سُبُلِیْ، وَ حَسِّنْ فِیْ جَمِیْعِ اَحْوَالِیْ عَمَلِیْ.

اے اللہ! میری مدت حیات کو اپنے عفو و درگزر کے ساتھ ختم کر، اور میری آرزو کو رحمت کی امید میں کامیاب فرما، اور اپنی خوشنودی تک پہنچنے کیلئے راہ آسان کر، اور ہر حالت میں میرے عمل کو بہتر قرار دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ نَبِّهْنِیْ لِذِكْرِكَ فِیْۤ اَوْقَاتِ الْغَفْلَةِ، وَ اسْتَعْمِلْنِیْ بِطَاعَتِكَ فِیْۤ اَیَّامِ الْمُهْلَةِ، وَ انْهَجْ لِیْۤ اِلٰى مَحَبَّتِكَ سَبِیْلًا سَهْلَةً، اَكْمِلْ لِّیْ بِهَا خَیْرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے غفلت کے لمحات میں اپنے ذکر کیلئے ہوشیار کر، اور مہلت کے دنوں میں اپنی اطاعت میں مصروف رکھ، اور اپنی محبت کی سہل و آسان راہ میرے لئے کھول دے، اور اس کے ذریعہ میرے لئے دنیا و آخرت کی بھلائی کو کامل کر دے۔

اَللّٰهُمَّ وَ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، كَاَفْضَلِ مَا صَلَّیْتَ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْ خَلْقِكَ قَبْلَهٗ، وَ اَنْتَ مُصَلٍّ عَلٰۤى اَحَدٍ بَعْدَهٗ، وَ اٰتِنَا فِی الدُّنْیا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً، وَ قِنِیْ بِرَحْمَتِكَ عَذابَ النَّارِ.

اے اللہ!محمدؐ اور ان کی اولادؑ پر بہترین رحمت نازل فرما، ایسی رحمت جو اس سے پہلے تو نے مخلوقات میں سے کسی ایک پر نازل کی ہو، اور اس کے بعد کسی پر نازل کرنے والا ہو، اور ہمیں دنیا میں بھی نیکی عطا کر اور آخرت میں بھی، اور اپنی رحمت سے ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔

–٭٭–

بادی النظر میں نیکی و بدی میں امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ نیک و بد اعمال ظاہری صورت کے لحاظ سے یکساں ہوتے ہیں اور ان میں کوئی امتیازی فرق نظر نہیں آتا۔ چنانچہ زن و مرد کے تعلقات وہ جائز ذریعہ سے ہوں یا ناجائز طریقہ سے دونوں ایک سے ہیں۔ اسی طرح دروغِ مصلحت آمیز و دروغِ بے مصلحت، اَکل حلال اور اَکل حرام، قتل بے گناہ اور قتل خطا کار، ان میں بظاہر کوئی فرق نہیں ہے۔ وہاں بھی ایک خلافِ واقع چیز کا بیان کرنا ہے اور یہاں بھی، وہاں بھی پیٹ بھرنا ہے اور یہاں بھی، وہاں بھی انسانی جان سے کھیلنا ہے اور یہاں بھی۔ یونہی متکبّر کے مقابلہ میں تکبر کرنے اور عام طور سے اترانے اور ماہِ رمضان میں دن کے وقت کھانے پینے اور دوسرے دنوں میں کھانے پینے میں فعل کی نوعیت یکساں ہے۔ تو اس یکسانیت کے باوجود ایک کو اچھائی اور ایک کو برائی، اور ایک کو کارِ ثواب اور دوسرے کو گناہ سے تعبیر کرنے کی کیا وجہ اور دونوں میں تفریق کرنے کی کیا ضرورت؟۔

اگرچہ حدود و قیود سے آزاد نگاہیں ان میں تفرقہ نہیں کر سکتیں، مگر جو لوگ کسی آئین و شریعت اور ضابطۂ اخلاق کے پابند ہوتے ہیں وہ ان کی ظاہری ہیئت و صورت اور یکسانیت و یک رنگی پر نظر نہیں کرتے۔ بلکہ ان دونوں کے درمیان جو حدّ فاصل حائل ہے اس پر نظر کرتے ہوئے دونوں کو بالکل جُدا جُدا تصور کرتے ہیں اور اسی حدّ فاصل سے خیر و شر کی حدیں قائم ہوتیں اور عیوب و محاسن کے پیمانے مقرر ہوتے ہیں اور یہ حدّ فاصل اُسی وقت نظر آتی ہے جب ایمان کے ساتھ تقویٰ اپنا نورانی پر تو ڈالتا ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللہَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا﴾

اے ایماندارو! اگر تم تقویٰ و پرہیزگاری اختیاری کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے (نیک و بد میں) ایک حد فاصل قرار دے گا۔{انفال: ۲۹}

اگر اس حدّ فاصل کو نظرانداز کر کے اخلاقِ فاضلہ اور اوصافِ رذیلہ کا معیار عوامی عقل کو قرار دے لیا جائے تو اگرچہ وہ ایک حد تک اخلاقی اصولوں کی طرف راہنمائی کرتی ہے، مگر اخلاق کا عملی لائحہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ چنانچہ جنہوں نے عقل پر اخلاق کی بنیاد رکھی، وہ یہ نہیں کہتے کہ راست گفتاری و عدل گستری معیوب اور سخاوت و شجاعت بری چیز ہے اور اس کے مقابلہ میں کذب و ظلم اور بخل و بزدلی اچھی صفتیں ہیں، مگر ان کے حدود اور مواقع استعمال کیا ہیں تو اس میں ان کی رائیں مختلف نظر آتی ہیں اور ایک، ایک راہ پر چلتا ہے تو دوسرا اس سے بالکل الگ راستہ اختیار کرتا ہے۔ کیونکہ مختلف عقول و افہام کے قائم کر دہ نظریات کسی ایک مرکزی نقطہ پر مجتمع نہیں ہو سکتے۔

ایسی صورت میں ان کی پیروی کرنے میں قدم قدم پر رکاوٹیں پیدا ہوں گی اور مختلف نظریات میں سے صحیح نظریہ کا انتخاب مشکل ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ عقل کا دائرہ عمل محدود ہے اور وہ دنیائے محسوسات سے الگ ہو کر کسی قسم کا کوئی قطعی فیصلہ نہیں کر سکتی اور قدم قدم پر حواس کا سہارا ڈھونڈنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور اس کے مقابلہ میں خواہشات و جذبات بھی پراجمائے ہوئے ہیں جو اسے سپر انداختہ ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔چناچہ جب انسان میں خواہشات و جذبات اُبھرتے ہیں تو وہ عقل کے مقابلہ میں اُن سے جلد مغلوب ہو جاتا ہے اور عقل کے صریحی احکام کو ٹھکرا کر ہوائے نفسانی کے پیچھے ہو لیتا ہے۔ لہٰذا تنہا عقل نہ کسی صورت میں کافی ہو سکتی ہے اور نہ ہر جگہ اسے معیار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اور اس کی روشنی میں اجتماعی زندگی کا نصب العین تو درکنار انفرادی زندگی کا بھی کوئی یقینی، صحیح اور ناقابلِ ترمیم آئین اخلاق ترتیب نہیں دیا جا سکتا۔

ان حالات میں ایک ایسے معیار کی ضرورت سے انکار نہیں ہو سکتا جو عقل کی درماندگیوں میں رہنمائی کر سکے اور ایک ایسا ناقابلِ تغییر آئین پیش کرے جو حیاتِ انسانی کے ہر دور میں قابلِ عمل ہو۔ اور وہ معیار وحی و تنزیل ہے جس کی روشنی میں ترتیب دیا ہوا آئین وہ ہے جس کے اصول منضبط اور ضوابط ناقابلِ ترمیم ہیں اور جسے حاملانِ نبوت و رسالت ہر دور میں پیش کرتے رہے اور اس کے ذریعہ تہذیبِ نفس و تزکیۂ اخلاق کا درس دیتے رہے ہیں۔

ان معلّمین اخلاق میں سب سے بلند مرتبت حضرت ختمی مرتبت ﷺ ہیں جنہوں نے زیورِ اخلاق سے آراستہ کرنے اور انسانیت کی زلفِ پریشان کو سنوارنے کیلئے وہ تعلیمات دئیے جو محاسن اخلاق کا سرچشمہ ہیں۔ یہ تعلیمات صرف قول تک محدود نہ تھے بلکہ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ پاکیزگی سیرت کا ایک ضابطہ اور حسن اخلاق کا ایک زندہ قانون تھا۔ اور آنحضرت ﷺ کی بعثت کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ علماً و عملاً اخلاقِ حسنہ کی تکمیل فرمائیں۔ چنانچہ ارشادِ نبویؐ ہے کہ:

بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ.

میں اس لئے مبعوث ہوا ہوں تا کہ مکارم الاخلاق کو پایۂ تکمیل تک پہنچاؤں۔{مجموعہ ورام، ج ۱، ص ۸۹}

اور ان اخلاقی تعلیمات کو زندہ رکھنے کیلئے ان کے اوصیاء و نائبین جو سیرت و کردار اور اخلاق و اطوار میں ان کے ورثہ دار اور علم و عمل میں اُن کے آئینہ دار تھے ان تعلیمات کو نشر کرتے اور اپنے قول و عمل سے ان کا احیاء کرتے رہے۔ چنانچہ ان کے چوتھے وصی و جانشین حضرت زین العابدین علیہ السلام نے اس دُعائے مکارم الاخلاق میں اخلاقیات کے وہ درس دئیے ہیں جو اخلاقِ نبویؐ کے آئینہ دار اور الہامی تعلیمات کے حامل ہیں اور ان تمام جواہر پاروں کو سمیٹ لیا ہے جو تحلّی بالفضائل (علمی و عملی اوصاف سے آراستگی) اور تخلی عن الرذائل (قبیح و پست عادات سے علیحدگی) پر مشتمل ہیں۔ ان دونوں جنبوں میں سے اگر ایک جنبہ کمزور ہے تو اس سے دوسرے جنبہ کا متاثر ہونا بھی ضروری ہے۔ اس لئے اخلاقی تکمیل کیلئے ان ایجابی و سلبی دونوں پہلوؤں کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔

وہ ایجابی صفات جو اس دُعا میں بیان ہوئے ہیں یہ ہیں:

ایمان:

یہ تمام محاسن اخلاق کا سرچشمہ ہے، اس لئے اسے سرفہرست جگہ دی ہے۔ ’’ایمان‘‘ کے معنی تصدیق کے ہیں اور کبھی تصدیق و عمل دونوں کے مجموعہ پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کے متعدد درجات ہیں اور اہل ایمان کے مراتب و درجات میں جو تفاوت ہوتا ہے وہ ایمان ہی کے درجات کے بلند و پست ہونے کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ زبیری کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفرصادق علیہ السلام کے سامنے کہا کہ: اِنَّ لِلْاِيْمَانِ دَرَجَاتٍ وَّ مَنَازِلَ يَتَفَاضَلُ الْمُؤْمِنُوْنَ فِيْهَا عِنْدَ اللّٰهِ؟ : ایمان کے مختلف درجے اور مرتبے ہیں جن کے اعتبار سے ایمان لانے والے اللہ کے نزدیک ایک دوسرے سے فضیلت لے جاتے ہیں؟ قَالَ نَعَمْ: حضرتؑ نے فرمایا کہ: ’’ہاں ایسا ہی ہے‘‘۔{الکافی، ج ۲، ص ۴۰}

چنانچہ پہلا درجہ یہ ہے کہ صرف زبان سے اللہ کی اُلوہیت اور کی رسالت کا اقرار کیا جائے اور بس۔ یہ ایمان اسلام کا مرادف ہے۔ جب انسان یہ پیغمبر ﷺ اقرار کر لیتا ہے تو وہ ’’مسلم‘‘ کہلانے لگتا ہے اور اس کا ذبیحہ حلال اور جان و مال محفوظ ہو جاتا ہے۔

دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ زبان سے اقرار کیا جائے اور دل سے اعتقاد بھی رکھا جائے، مگر اسلام کے تعلیمات اور اس کے اوامر و نواہی پر عمل نہ کیا جائے۔

تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ اس اقرار و اعتقاد کے ساتھ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے اور ان فرائض کو پورا کیا جائے جنہیں ترک کرنا کبائر میں داخل ہے۔ جیسے نماز، زکوٰۃ، حج وغیرہ۔ یہ واضح رہے کہ احادیث میں جو نماز و حج وزکوٰۃ کے تارک کو کافر کہا گیا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اس مرتبۂ ایمان سے خارج ہو گیا ہے، یہ مقصد نہیں ہے کہ وہ تمام مراتبِ ایمان سے خارج ہو گیا ہے کہ اب اُس پر کفر کے احکام عائد ہونے لگیں۔

چوتھا مرتبہ یہ ہے کہ اقرار و اعتقاد کے ساتھ تمام واجبات بھی بجا لائے جائیں اور تمام محرمات سے اجتناب بھی کیا جائے۔

پانچواں مرتبہ یہ ہے کہ واجبات کے ساتھ مستحبات بھی ادا کئے جائیں اور محرمات کے ساتھ مکروہات سے بھی پرہیز کیا جائے۔

چھٹا مرتبہ یہ ہے کہ بعض مباحات کو بھی اس خیال سے چھوڑ دیا جائے کہ مبادا یہ کسی بُرائی کا پیش خیمہ بن جائیں اور کوئی غلط قدم اٹھ جائے۔ جیسے زیادہ باتیں کرنے سے اس لئے اجتناب کیا جائے کہ زبان سے کوئی ناشائستہ کلمہ یا جھوٹی بات نہ نکل جائے، یا کسی کی غیبت و بدگوئی نہ ہو جائے۔ یہ انبیاء و اوصیاء علیہم السلام کے ایمان کا درجہ ہے اور اسی درجہ کو امام علیہ السلام نے ’’اکمل الایمان‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔

’’ایمان‘‘ صرف عقبیٰ ہی کا سرمایہ نہیں ہے، بلکہ دنیا میں بھی انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کی فلاح و بہبود اس سے وابستہ ہے۔ چنانچہ جب انسان کے دل و دماغ میں ایک بالادست ہستی کا تصور پیدا ہوتا اور خُدا پرستی کا جذبہ اُبھرتا ہے تو اُسے کچھ ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے جس کے پیش نظر وہ چوری، رشوت، خیانت، ظلم اور اس قسم کے دوسرے اخلاقی عیوب سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور خودغرضی و مفاد پرستی کی سطح سے بلند ہو کر سیرت و کردار کے وہ اعلیٰ نمونے پیش کرتا ہے جس سے اجتماعی زندگی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی اور بڑی حد تک معاشرے کی بے اعتدالیاں کم ہو جاتی ہیں۔ اگرچہ حکومت کا قانون اور اس کا احتساب ایک حد تک ان مفاسد کی روک تھام کرتا ہے، مگر قانون کا خوف انسان کے باطن میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتا۔ اور اقتدار اُسی حد تک حفاظت کر سکتا ہے جہاں تک اس کا دسترس ہے۔ وہ بازاروں، کوچوں، عام گزرگاہوں اور مفاسد کے مرکزوں سے برائیوں کو دُور کر سکتا ہے، مگر گھر کے گوشوں اور رات کے اندھیروں میں اُس کا بس نہیں چلتا اور برائی کا چلن بدستور باقی رہتا ہے۔ اس موقع پر خدا کا خوف ہی قلب و روح کو متاثر کر سکتا اور برائیوں سے مانع ہو سکتا ہے۔ حکومت کے کارندے کبھی نظروں سے اوجھل بھی ہو جاتے ہیں اور کبھی ان کی بے راہ روی کی وجہ سے خود اُن پر نگران چھوڑنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ مگر اخلاقی وجدان جو ایمان کی بدولت طاقتور ہوتا ہے ہردم نگرانی و حفاظت کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ خواہ دن کا اُجالا ہو یا رات کا اندھیرا، خلوت ہو یا جلوت، آبادی ہو یا ویرانہ۔

یقین:

کسی چیز کا علم اس طرح ہو جائے کہ اس کے خلاف کوئی احتمال نہ رہے ’’یقین‘‘ کہلاتا ہے۔ اس لحاظ سے یقین دو علموں کا مجموعہ ہو گا: ایک معلوم کا علم اور دوسرے اس کے خلاف کے محال ہونے کا علم۔ اور یہ ایمان ہی کا دوسرا نام ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

اَلْيَقِيْنُ الْاِيْمَانُ كُلُّهٗ.‏

یقین ہی ایمانِ کامل ہے۔{ مجموعہ ورام، ج ۱، ص ۴۰ }

اس یقین کے تین درجے ہیں:

پہلا درجہ یہ ہے کہ دھوئیں کو دیکھ کر آگ کی موجودگی کا علم حاصل ہو۔ یہ اہل نظر و استدلال کا یقین ہے۔جو انہیں ترتیب مقدمات سے حاصل ہوتا ہے، یہ ’’علم الیقین‘‘ کہلاتا ہے۔

دوسرا درجہ یہ ہے کہ اُس آگ کو آنکھ سے دیکھ لیا جائے۔ یہ خواص کو چشم بصیرت و دیدۂ باطن کے مشاہدہ سے حاصل ہوتا ہے۔ چنانچہ ذعلب یمانی نے امیر المومنین علیہ السلام سے دریافت کیا کہ: ’’هَلْ رَاَيْتَ رَبَّكَ؟ ‘‘ : کیا آپؑ نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے؟ فرمایا: "لَمْ اَعْبُدْ رَبًّا لَّمْ اَرَهُ” {تفسیر الصافی، ج ۲، ص ۲۳۶}: ’’میں اُس ربّ کی پرستش نہیں کرتا جس کی جلوہ طرازی میری آنکھوں کے سامنے نہ ہو‘‘۔ یہ ’’عین الیقین‘‘ کہلاتا ہے۔

تیسرا درجہ یہ ہے کہ آگ کے شعلوں میں کود کر آگ کا علم حاصل ہو، یہ اہل شہود کا یقین ہے جو انہیں مبدأ فیض سے اتصال معنوی کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ یہ ’’حق الیقین‘‘ کہلاتا ہے۔ امامؑ نے اسی یقین کو ’’افضل الیقین‘‘ فرمایا ہے اور اسی مرتبۂ عالیہ پر فائز ہونے کی اللہ تعالیٰ سے التجا کی ہے۔

نیت:

کسی عمل کی انجام دہی کے قصد و ارادہ کا نام ’’نیّت‘‘ ہے۔ اور یہ علم و عمل کے درمیان ایک واسطہ ہے جو ایک طرف علم سے وابستہ ہے اور دوسری طرف عمل سے۔ کیونکہ علم نہ ہو تو قصد نہیں ہو سکتا اور قصد نہ ہو تو عمل واقع نہیں ہو سکتا۔ اور قوائے عمل کے استعمال کے موقع پر یہ ایک ناگزیر اور طبعی چیز ہے۔ چنانچہ شارع کی طرف سے اگر بغیر نیّت کے اعمال و عبادات کے بجا لانے کا حکم ہوتا تو اس سے کوئی بھی عہدہ بر آ نہ ہو سکتا۔ اس سے یہ امر بھی واضح ہو گیا کہ نیّت ان الفاظ کا نام نہیں ہے جو کسی عمل کے بجا لانے کے وقت زبان سے کہے جاتے ہیں۔ کیونکہ نیّت کا تعلق دل سے ہوتا ہے اور الفاظ کا تعلق زبان سے۔ اس لئے زبان کے الفاظ کے بجائے دل کے قصد و ارادہ کو نیّت تصور کرنا چاہیے۔

اس نیّت کے مختلف درجات ہیں جن کے لحاظ سے اعمال میں رفعت یا پستی پیدا ہوتی ہے۔ اگر نیّت میں صدق و خلوص ہے تو عمل بلند اور اگر ریاء و نمود ہے تو عمل فاسد۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: "اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ” : ’’نیت پر عمل کا انحصار ہے‘‘۔{انحصار الشریعہ، ص ۵۳}

ان درجات میں سے:

٭ پہلا درجہ یہ ہے کہ اس میں ریا و نمود کارفرما ہو۔ اس نیّت کے ماتحت جو عمل واقع ہو گا اس پر ثواب کا مرتب ہونا تو درکنار گناہ عائد ہو گا۔ عبادات میں جو ریا کارفرما ہوتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں: پہلی قسم یہ ہے کہ نفس عبادت میں تو ریا نہ ہو لیکن اس کے دوسرے اوصاف میں نمائش مقصود ہو۔ اس طرح کہ گھر پر نماز پڑھی جائے تو مختصر اور گھر سے باہر دوسروں کے سامنے پڑھی جائے تو طویل۔ دوسری قسم یہ ہے کہ مستحب عبادتوں میں ریا کرے اس طرح کہ گھر میں یا تنہائی میں تو نوافل بجا نہ لائے مگر کہیں دوسری جگہ ہو تو نوافل بھی پڑھے اور نمازِ شب بھی بجا لائے۔ اور تیسری قسم یہ ہے کہ واجب عبادتوں میں ریا کرے۔ اس طرح کہ گھر میں تو نہ نماز پڑھے اور نہ روزہ رکھے اور جب دکھلاوے کا موقع ہو تو نماز بھی پڑھے اور روزہ بھی رکھے۔ ریا کی یہ صورت سب سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہے۔

٭ نیّت کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ جنّت کی خواہش اور عذاب سے بچاؤ کیلئے عمل کرے۔ یہ نیّت اخلاص کے منافی نہیں ہے، کیونکہ شارع نے خود ترغیب و ترہیب سے کام لیا ہے۔

٭ تیسرا درجہ یہ ہے کہ شکر و سپاس کو ملحوظ رکھتے ہوئے عمل کرے تا کہ اس شکر کے نتیجہ میں اس کی نعمتوں میں اضافہ ہو۔ یہ عمل بھی خلوص کا حامل ہو گا۔ اسی طرح اُن عبادات میں جو دنیوی اغراض سے وابستہ ہوتی ہیں ان میں رزق، اولاد وغیرہ کا قصد کرنا صحت و اخلاص کے منافی نہ ہو گا۔

٭ چوتھا درجہ یہ ہے کہ حیا کے احساس سے متاثر ہو کر عبادت کرے۔

٭ پانچواں درجہ یہ ہے کہ خدا کے جلال و جبروت کے اثر سے متاثر ہو کر اعمال بجا لائے۔

٭ چھٹا درجہ یہ ہے کہ تعمیل حکم کے لحاظ سے عبادت کرے۔

٭ ساتواں درجہ یہ ہے کہ اُسے عبادت کا اہل و سزاوار سمجھتے ہوئے اس کے آگے سر نیاز خم کرے۔ یہ نیّت ان بندوں سے مخصوص ہے جو تقرب کے مدارجِ عالیہ پر فائز ہوتے ہیں اور اسی کو حضرتؑ نے ’’احسن النّیات‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ کیونکہ اس کے اندر حسن و خوبی اور اظہارِ عبودیت کے علاوہ اور کوئی جذبہ نہیں ہوتا۔ اسی کا ذکر امیرالمومنین علیہ السلام کے اس ارشاد میں ہے:

مَا عَبَدْتُّكَ خَوْفًا مِّنْ نَّارِكَ وَ لَا طَمَعًا فِیْ جَنَّتِكَ، وَ لٰكِنْ وَّجَدْتُّكَ اَهْلًا لِّلْعِبَادَةِ فَعَبَدْتُّكَ‏.

میں نے تیری پرستش جہنّم کے ڈر سے اور جنّت کی طمع سے نہیں کی، بلکہ تجھے عبادت کا سزاوار پایا ہے اس لئے تیری پرستش کی ہے۔{عوالی اللئالی، ج ۱، ص ۴۰۴}

سایه طوبیٰ و دلجویی حور و لب حوض

به هوای سر کوی تو برفت از یادم

عمل:

اسلام نے اگرچہ’’ علم‘‘ کو بڑی اہمیت دی ہے، مگر ’’عمل‘‘ کی اہمیت بھی ناقابل انکار ہے، بلکہ علم کی اہمیت بھی اسی صورت میں ہے جب اس کے مقتضیات پر عمل کیا جائے اور اگر اس کے تقاضوں کو ٹھکرا دیا جائے تو وہ علم جہل، بلکہ جہل سے بھی بدتر ہے۔ کیونکہ جہالت کبھی معذوری کا سبب قرار پا جاتی ہے مگر علم کے بعد تو کوئی عذر مسموع نہیں ہوتا۔ لہٰذا علم اسی صورت میں سُود مند سمجھا جا سکتا ہے جب اس کے ساتھ عمل بھی ہو۔ اور عمل چونکہ نیّت سے وابستہ ہے اس لئے جس مرتبہ پر نیّت ہو گی اسی مرتبہ پر عمل ہو گا۔اگر اس میں نمود و ریا ہو تو وہ عمل وبالِ جان ہے۔ اور اگر صدق و خلوص کا حامل ہو تو وہ اُخروی فوز و کامرانی کا پروانہ ہے۔ خداوند عالم عمل کی ظاہری شکل و صورت اور اس کی کمیت و مقدار کو نہیں دیکھتا، بلکہ اس جذبۂ اخلاص کو دیکھتا ہے جس کے ماتحت وہ عمل بجا لایا گیا ہو۔ اگر خلوص کے ساتھ کم عبادت ہو تو وہ اس طویل ذکر و ریاضت سے بہتر ہے جس میں خلوص کارفرما نہ ہو۔ ایسے اعمال ہی کو امام علیہ السلام نے ’’احسن الاعمال‘‘ سے یاد کیا ہے اور قدرت نے انہیں اعمالِ صالحہ سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاءَ رَبِّہٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا﴾

جو شخص لقائے پروردگار کی آرزو رکھتا ہے اسے عمل صالح بجا لانا چاہیے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنا چاہیے۔{کہف: ۱۱۰}

عدل:

افراط و تفریط کی دو مختلف سمتوں کے درمیان حدّ وسط کا نام ’’عدل‘‘ ہے۔ اس حدّ وسط کے التزام سے ’’فضائل‘‘ اور اس سے انحراف کے نتیجہ میں ’’رذائل‘‘ وجود میں آتے ہیں۔ چنانچہ اخلاق کے بنیادی عناصر چار ہیں: حکمت، عفّت، شجاعت اور عدالت۔

اور ان میں سے ہر عنصر وسط اور نقطۂ اعتدال پر واقع ہے اور اگر مرکزِ اعتدال سے اُسے ہٹا دیا جائے تو ایک دوسری ہی نوعیت کی چیز پیدا ہو جائے گی۔

’’حکمت‘‘ میں اگر افراط کی صورت ہو تو وہ خباثت اور چالاکی بن جاتی ہے اور تفریط کی صورت ہو تو وہ نافہمی و کند ذہنی ہو جاتی ہے۔

’’عفّت‘‘ میں اگر افراط ہو تو وہ خمود و بے حسّی ہے اور تفریط ہو تو ہوس رانی و شہوت پرستی کہلاتی ہے۔

’’شجاعت‘‘ میں اگر افراط ہو تو وہ قہر و تہور ہے اور تفریط ہو تو بزدلی و کم ہمتی کے نام سے پکاری جاتی ہے۔

اور عدالت حدّ وسط سے انحراف کی صورت میں ظلم یا ذلّت و خواری کی شکل اختیار کرے گی۔ اسی طرح دوسرے اخلاقِ فاضلہ میں عدل و توازن ہی باعثِ حُسنِ خوبی ہے۔ چنانچہ ’’اقتصاد و میانہ روی‘‘ میں خوبی اسی لئے ہے کہ وہ بخل اور اسراف کے وسط میں ہے۔ اور’’ تواضع‘‘ میں حُسن اسی لئے ہے کہ وہ نہ غرور کی حد تک پہنچتی ہے اور نہ ذلّتِ نفس کی سطح پر اُتر آتی ہے۔ غرض ہر فضیلت وہ قول سے متعلّق ہو یا عمل سے یا اعتقاد سے، عدل ہی اس کا اصل جوہر ہے۔ اور چونکہ ہر چیز میں حدّ وسط سے انحراف کی صورت میں متفرّق راہیں پیدا ہو جاتی ہیں اس لئے ضلالت کے راستے متعدد اور ہدایت کا راستہ ایک ہو گا۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِہٖ﴾

یہ میرا سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرو۔ اور دوسرے متعدد راستوں کی پیروی نہ کرو، ورنہ وہ تمہیں حق کی راہ سے منتشر کر دیں گے۔{انعام: ۱۵۳}

ذکر و فکر:

’’ذکر‘‘ یہ ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ رہے اور ’’فکر‘‘ یہ ہے کہ انسان خلقتِ کائنات و مظاہر فطرت پر نظرِ غائر ڈال کر صانع کے حُسنِ صنعت کا کرشمہ دیکھے۔ ’’ذکر‘‘ سے تزکیۂ نفس ہوتا ہے اور غفلت کے پردے چاک ہو جاتے ہیں اور ’’فکر‘‘ سے علم و یقین کی روشنی بڑھتی ہے۔ چنانچہ جب وہ تعقّل و تفکّر سے کام لیتا ہے اور اپنے اندر اور باہر کی کائنات میں غور و فکر کرتا ہے تو اُسے ہر چیز کی تَہ میں ایک حکیمانہ تدبر و فہم کارفرما نظر آتا ہے۔ خود اپنی ذات پر نظر کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ نطفہ کے ایک حقیر قطرہ سے اس کے وجود کی بنیاد رکھی گئی اور ایک معینہ مدت تک شکمِ مادرمیں اس کے نشو و نما کے سامان ہوتے رہے اور دُنیائے ہست و بود میں قدم رکھتے ہی سانس لینے کیلئے ہوا، تشنگی بجھانے کیلئے پانی اور گرسنگی دُور کرنے کیلئے ہر طرف رزق کے انبار فراوانی سے موجود۔ اور جسمانی ساخت کا ایسا مستحکم نظام جس میں ذرّہ بھر نقص نہیں۔ اس طرح کہ ہڈیوں کے سہارے پر جسم کو کھڑا کیا گیا، اس میں رگوں کا جال اس طرح پھیلایا گیا کہ از سر تا پا خون کی گردش ہوتی رہے اور ہر عضو کو اس کی ضرورت کے مطابق غذا ملتی رہے۔ اور ہڈیوں کے جوڑ بند اس طرح ملائے کہ اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے میں ذرا رکاوٹ نہ ہو اور تمام وظائف خوش اسلوبی سے انجام پاتے رہیں۔ اس منظّم کارخانہ اور اس کے نظم و نسق کو دیکھنے کے بعد وہ یہ تسلیم کرنے کیلئے کبھی آمادہ نہ ہو گا کہ یہ بے شعور مادہ کی کارفرمائی اور بعض عناصر کے اتفاقی تصادم کا نتیجہ ہے۔ اس لئے کہ اگر ایسا ہوتا تو کائنات میں یکسانیت اور نظمِ خلقت میں وحدت نظر نہ آتی، جبکہ یہ مسلّم ہے کہ اتفاق نہ حدود کا پابند ہوتا ہے نہ قیود کا۔ لہٰذا یہ نظم و انضباطِ عالم اس کی قوی دلیل ہے کہ دیکھ بھال کرنے والی کوئی مدبر ہستی موجود ہے اور جوں جوں غور و فکر میں ترقی ہو گی، اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یقین دل کے ہر رگ و ریشہ میں سرایت کرتا جائے گا اور اس کے رُخِ مستور سے شک و ابہام کا پردہ اٹھ جائے گا۔

چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

وَ الْعَجَبُ مِنْ مَّخْلُوْقٍ يَّزْعُمُ اَنَّ اللّٰهَ يَخْفٰى عَلٰى عِبَادِهٖ وَ هُوَ يَرٰۤى اَثَرَ الصُّنْعِ فِیْ نَفْسِهٖ بِتَرْكِيْبٍ يَّبْهَرُ عَقْلَهٗ وَ تَاْلِيْفٍ يُّبْطِلُ حُجَّتَهٗ‏.

تعجب ہے اس پر جو یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ حالانکہ وہ اپنے اندر اس کی صنعت کے ایسے آثار دیکھتا ہے جن کی ترکیب و ترتیب اس کی عقل کو حیران اور اس کے خلاف اس کی ہر دلیل کو توڑ دیتی ہے۔{بحار الانوار، ج ۳، ص ۱۵۲}

یونہی کائناتِ عالم کی طرف نگاہ دوڑاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ کس حکمتِ کاملہ سے سورج، چاند اور ان گنت ستارے ضیا پاشی کا سامان کر رہے ہیں، اور فضا میں ہر طرف ہوائیں پھیلی ہوئی ہیں۔ تا کہ زمین کے ہر حصّہ پر سانس لی جا سکے اور اس کی متموج لہروں کے ذریعہ شرق و غربِ عالم کی آوازوں کو سمیٹا جائے اور اس فرشِ زمین کو کس طرح انسانی بُود و ماند کے قابل بنایا گیا ہے کہ نہ اتنا سخت کہ چلنے پھرنے میں تکلیف ہو اور نہ اتنا نرم کہ پیر اندر دھنسنے لگیں۔ اور اجزائے ارضی میں قوت نامیہ ودیعت کر کے اُس کی عریانی کو سبزے سے ڈھانپا اور اس کی گود کو پھلوں اور خوش رنگ پھولوں سے بھَرا گیا ہے۔ اور اس کی سیرابی کیلئے بادلوں سے مینہ برسائے گئے اور پہاڑوں سے آبِ شیریں کے چَشمے جاری کئے گئے۔ اور اس کی تہہ میں قیمتی دھاتوں کے خزانے بھر دئیے گئے۔ کیا یہ سب کچھ خود بخود ہو گیا ہے یا کسی صانع کی اعجاز نمائی ہے۔ جب وہ اپنے اندر اور عالم میں بکھری ہوئی نشانیوں کو دیکھتا تو اس میں شک و تذبذب کا شائبہ بھی باقی نہیں رہتا اور اس کی ہستی کا یقین دل میں راسخ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿وَفِي الْاَرْضِ اٰيٰتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ﴾

یقین رکھنے والوں کیلئے زمین میں بے شمار نشانیاں ہیں اور خود تمہارے اندر بھی تو کیا تم اتنا بھی نہیں دیکھتے۔{الذاریات: ۲۰- ۲۱}

پھر دنیا کے تغیرات و انقلابات کو دیکھتا ہے کہ جو بنتا ہے وہ بگڑتا ہے، جو کھِلتا ہے وہ مرجھاتا ہے اور جو پیدا ہوتا ہے وہ مرتا ہے۔ تو کیا یہ تمام کارخانہ شکست و ریخت بغیر کسی مقصد کے ہے؟ غور و فکر اسے اس نتیجہ تک پہنچائے گا کہ جب ہر چیز کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے تو اس دنیا کی عظیم زندگانی کا بھی کوئی مقصد ہونا چاہیے۔ اور جب کہ ہر بگاڑ کے پیچھے بناؤ اور سلجھاؤ ہے تو اس فانی زندگی کے پیچھے بھی کوئی باقی و جاوداں زندگی ہونا چاہیے جسے دنیوی زندگی کا مقصد قرار دیا جا سکے۔ اور جب ان دونوں زندگیوں میں موازنہ کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ایک کا نتیجہ فنا اور ایک کا انجام بقا ہے تو وہ آخرت کی دائمی راحت کو دنیا کی چند روزہ زندگی پر ترجیح دے گا۔ جب غور و فکر سے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے تو عمل کی تحریک اور آخرت کے سر و سامان کی فکر دامن گیر ہوتی ہے اور اس طرح وہ ذخیرۂ آخرت فراہم کرنے اور عملِ صالح بجا لانے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اَلتَّفَكُّرُ يَدْعُوْ اِلَى الْبِرِّ وَ الْعَمَلِ بِهٖ.

تفکر، نیکی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتا ہے۔{الکافی، ج ۲، ص ۵۵}

تقویٰ:

’’تقویٰ‘‘ نام ہے اس تاثر کا جو عظمت و اقتدارِ الٰہی کے تصور سے انسان کے دل و دماغ پر طاری ہوتا ہے، جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور ادائے فرض پر آمادہ ہوتا ہے، تا کہ عقبیٰ کی باز پرس اور جہنّم کے عذاب سے اپنا تحفظ کر سکے۔ خداوند عالم نے بہت سے محامد و اوصاف کو تقویٰ سے وابستہ کیا ہے، جن میں چند یہ ہیں جو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں:

۱۔ ’’تقویٰ‘‘ ایک ممدوح صفت ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ﴾

اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو بے شک یہ بڑے حوصلہ کے کام ہیں۔{آل عمران: ۱۸۶}

۲۔ یہ کید و مکر سے حفظ و نگہداشت کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

﴿وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَيْئاً﴾

اور اگر تم صبر اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہیں ان کا مکر ذرا نقصان نہ پہنچا سکے گا۔{آل عمران: ۱۲۰}

۳۔ یہ تائید و نصرتِ الٰہی کا وسیلہ ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

﴿اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا﴾

اللہ تعالیٰ تو بس ان لوگوں کے ساتھ ہے جو اس سے ڈرتے ہیں۔{نحل: ۱۲۸}

۴۔یہ سختیوں سے رہائی اور رزق کی فراوانی کا باعث ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

﴿وَمَنْ يَّتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّ يَرْزُقْہُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ﴾

جو خدا سے ڈرے گا تو خدا اس کیلئے رہائی کی صورت پیدا کر دے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے سان گمان بھی نہ ہو۔{طلاق: ۲- ۳}

۵۔ یہ اصلاحِ عمل کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

﴿يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًايُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ﴾

(اے ایمان والو!) خدا سے ڈرتے رہو اور جب کہو تو درست بات کہو تو خدا تمہارے اعمال درست کر دے گا۔{احزاب: ۷۰- ۷۱}

۶۔ یہ محبت الٰہی کا پیش خیمہ ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:

﴿اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ﴾

بیشک اللہ پر ہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔{توبہ: ۴}

۷۔ اس پر قبولیتِ اعمال کا انحصار ہے۔ چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:

﴿اِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِيْنَ﴾

اللہ تعالیٰ صرف پرہیزگاروں کے اعمال قبول کرتا ہے۔{مائدہ: ۲۷}

۸۔یہ دشواریوں کے حل کرنے کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿وَمَنْ يَّتَّقِ اللہَ يَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ يُسْرًا﴾

جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اس کے کام میں سہولت و آسانی پیدا کر دیتا ہے۔{طلاق: ۴}

۹۔ یہ عفوِ گناہ اور اجرِ عظیم کا باعث ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

﴿وَمَنْ يَّتَّقِ اللہَ يُكَفِّرْ عَنْہُ سَيِّاٰتِہٖ وَيُعْظِمْ لَہٗٓ اَجْرًا﴾

جو خدا سے ڈرتا رہے گا تو وہ اس کے گناہ دُور کر دے گا اور اُسے بڑا اجر دے گا۔{طلاق: ۵}

۱۰۔ یہ فلاح و کامرانی کا باعث ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

﴿وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾

خدا سے ڈرو تا کہ تم فلاح و کامرانی حاصل کرو۔{آل عمران: ۲۰۰}

۱۱۔ یہ عزت و سرفرازی کا سبب ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

﴿اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ﴾

بے شک خدا کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہی ہے جو بڑا پرہیزگار ہو۔{حجرات: ۱۳}

۱۲۔ یہ موت کے وقت نوید و بشارت کا سبب ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ لَھُمُ الْبُشْرٰي فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ﴾

وہ لوگ جو ایمان لائے اور خوف کھاتے رہے، انہیں دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی۔{یونس: ۶۳- ۶۴}

۱۳۔ یہ نجات کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

﴿ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا﴾

پھر انہی کو نجات دیں گے جو ڈرتے رہے ہیں۔{مریم: ۷۲}

۱۴۔ یہ فوزِ اُخروی کا ضامن ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿ وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰى﴾

پرہیزگاری ہی کا تو انجام بخیر ہے۔{طٰہ: ۱۳۲}

محبت و مودّت:

دنیا میں زندگی بسر کرنے کیلئے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان میں سب سے زیادہ ضروری چیز تعلقات کی خوشگواری اور باہمی تعاون و سازگاری ہے۔ کیونکہ انسان اپنے ضروریات میں ایک دوسرے کا محتاج ہے اور دوسروں سے بے نیاز رہ کر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اور محبت و باہمی وابستگی کی صورت میں بآسانی ان ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے اور محبت کے ہوتے ہوئے کسی کو کسی سے شکایت کا موقع نہ ملے گا۔ کیونکہ محبت ایثار کی مقتضی ہوتی ہے اور روابط محبت کی استواری کے بعد اگر کوئی نقصان ہوتا بھی ہو تو اُسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ اسی لئے شارع اسلام نے نماز پنجگانہ، جمعہ کے اجتماع، مصافحہ اور میل ملاقات کو خاص اہمیت دی ہے، تا کہ لوگوں میں اُلفت و یگانگت کے رابطے بڑھیں اور ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہوں، دوسروں کی ضرورتوں کو پورا کریں اور اپنے بنی نوع کے کام آئیں۔

صلۂ رحمی:

’’صلہ رحمی‘‘ یہ ہے کہ اپنے عزیزوں اور قریبیوں سے قطع تعلق نہ کرے، نہ انہیں کسی قسم کا گزند پہنچائے اور نہ اُن کے متعلق کوئی ایسی بات کہے جو رنجش و دل شکستگی کا باعث ہو، بلکہ ہر طرح سے اُن کی دلجوئی و ہمدردی کرے، احتیاج و ضرورت کے موقع پر اگر استطاعت رکھتا ہو تو اُن کی مدد کرے، کسی مصیبت میں مبتلا ہوں تو ان کی رہائی کیلئے تگ و دو کرے، بیمار ہوں تو عیادت کیلئے جائے، غمی خوشی میں شرکت کرے۔ اس صلۂ رحمی کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے محبت و موانست کے جذبات قوی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے وابستہ کر دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ وقت پر کام آتے ہیں، دُکھ درد میں شریک ہوتے ہیں اور اس اجتماع و اتحاد سے قوت و پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ اور احادیث میں وارد ہوا ہے کہ اس سے عمر میں اضافہ اور فقر و پریشانی کا ازالہ ہوتا ہے۔

احسان:

کسی کے ساتھ نیکی کرنا ’’احسان‘‘ کہلاتا ہے۔ احسان کا پھل دنیا میں ملتا ہے اور آخرت میں بھی۔ چنانچہ انسان جب دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے تو "اَلْاِنْسَانُ عَبِيْدُ الْاِحْسَانِ”: ’’انسان بندۂ احسان ہے‘‘ کی بنا پر دوسرا اس حسن سلوک و ہمدردی سے متاثر ہو گا اور اس کے دل میں محبت و خیرسگالی کے جذبات پیدا ہوں گے اور وہ اس احسان کے بدلہ میں اپنی تمام ہمدردیوں کو اس کیلئے وقف کر دے گا۔ اور وہ خود بھی جب نام و نمود اور ذاتی اغراض کے جذبات سے الگ ہو کر کسی کے ساتھ نیکی کرتا ہے مثلاً کسی بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے یا کسی نادار کی مدد کرتا ہے تو ایک ایسی ملکوتی مسرت محسوس کرتا ہے جو مادی لذائذ سے کہیں زیادہ کیف افزا ہوتی ہے۔ اور اگر اس کے احسان کو ناقدری و ناشکری کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے تو اسے اس پر کبیدہ خاطر نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس کا احسان رائیگاں نہیں گیا۔ اس لئے کہ اُس نے روحانی مسرت کے ساتھ محبت الٰہی کی دولت حاصل کر لی ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿وَاللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ﴾

اللہ تعالیٰ کی محبت ان کیلئے ہے جو احسان کرنے والے ہیں۔{آل عمران: ۱۴۸}

چشم :

اگر انسان دوسروں کے عیوب ہی پر نظر رکھے اور کسی موقع پر ’’چشم ‘‘ سے کام نہ لے تو وہ کبھی اپنی زندگی کو خوشگوار نہیں بنا سکتا۔ کیونکہ انسانوں میں عیب تو ہوتے ہی ہیں۔ اگر اُن کی ہر ہر غلطی پر نظر رکھی جائے اور ہر بات سے اثر لیا جائے تو وہ ان کی نظروں میں کھٹکھنے لگے گا اور تعلقات کی خوشگواری ختم ہو جائے گی اور اس طرح وہ اپنے ہاتھ سے اپنے دوستوں کو کھو دے گا اور وقت پر اُسے کوئی معاون و مددگار نہ مل سکے گا۔

خوش خلقی:

یہ وہ جوہر ہے جو اپنی تابانیوں سے چاروں طرف مسرت پھیلاتا اور دل و دماغ کو غم و غصّہ کے مضر جذبات سے بچا کر ایک کیف افزا ماحول میں پہنچا دیتا ہے۔ چنانچہ جو خوش خوئی و نرم روی کے صفات رکھتا ہے وہ نہ تنہا اپنی ذہنی فضا کو پُر مسرت بناتا ہے بلکہ دوسروں کیلئے بھی بساطِ مسرت چن دیتا ہے اور اس طرح وہ بڑی آسانی سے دوسروں کا تعاون حاصل کرتا اور اپنے بگڑے کاموں کو بنا لیتا ہے۔

اصلاحِ ذات البین:

باہم غلط فہمیوں کو دُور کرکے دو شخصوں کو آپس میں ملا دینا ’’اصلاح ذات البین‘‘ کہلاتا ہے۔ اس سلسلہ میں اگر کوئی بات خلافِ واقع کہنی پڑے، اس طرح کہ ایک کو دوسرے کی طرف سے یہ کہے کہ وہ تمہارے متعلق بڑے اچھے خیال کا اظہار کرتا تھا اور دوسرے سے یہ کہے کہ وہ تمہارے فلاں کام کی بڑی تعریف کرتا تھا تو یہ باتیں اگرچہ خلافِ واقع ہیں لیکن مقصد کی اہمیّت کے پیشِ نظر اس دروغ مصلحت آمیز کی شرعاً اجازت ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ دونوں طرف سے دل صاف ہو جائیں گے اور کدورتیں ختم ہو جائیں گی۔ اسی اہمیت کے پیشِ نظر قدرت کا ارشاد ہے:

﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ﴾

مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں لہٰذا اپنے دو بھائیوں میں(اگر رنجش ہو تو) میل کرا دیا کرو۔{حجرات: ۱۰}

راست گوئی:

علم و یقین کے مطابق کسی بات کے کہنے کا نام سچ اور خلاف واقعہ اظہار کا نام جھوٹ ہے۔ خواہ یہ خلافِ واقعہ اظہار زبان سے ہو یا سَر کی حرکت سے یا ہاتھ کے اشارہ سے۔ سچ اخلاقی تعمیر کی بنیاد اور خود اعتمادی و ذہنی سکون کا سر چشمہ ہے اور جھوٹ سے اطمینان و ذہنی اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ سچ فطری اور جھوٹ فطرت سے بغاوت ہے۔ چنانچہ ایک بچے سے جو ابھی غلط ماحول سے متاثر نہ ہوا ہو، کوئی بات دریافت کی جائے تو بے ساختہ اس کی زبان پر سچی بات آئے گی اور جب پہلے پہل کسی سے کوئی خلافِ واقعہ بات سنتا ہے تو اسے ایک طرح سے حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیا؟ اور اس کی صاف و سادہ طبیعت پر یہ چیز گراں گزرتی ہے۔ سچا انسان بغیر کسی ہتھیار کے اپنے اندر اتنی قوت رکھتا ہے کہ اس کا مقابلہ مشکل ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف جھوٹا آدمی جھوٹ کے ظاہر ہو جانے کے اندیشہ سے غیر مطمئن اور ذہنی الجھاؤ میں مبتلا اور متذبذب و متزلزل رہتا ہے۔ اور چونکہ لوگ اس کی بات پر اعتماد نہیں کرتے اس لئے وہ ان کی نگاہوں میں بھی ذلیل اور خود اپنی نظروں میں بھی حقیر ہو جاتا ہے۔اسلام اصلاحِ معاشرہ اور باہمی تعاون و اعتماد کا داعی ہے اور یہ دونوں چیزیں سچائی سے وابستہ ہیں۔ اس لئے وہ ایک مسلمان کو زندگی کے ہر شعبہ میں سچائی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتا ہے۔ خواہ سچائی بہت سے منافع سے محرومی اور جھوٹ بہت سے فوائد کا باعث کیوں نہ ہو۔ چنانچہ امیرالمومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے:

عَلَامَةُ الْاِیْمَانِ اَنْ تُؤْثِرَ الصِّدْقَ حَیْثُ یَضُرُّكَ عَلَى الْكَذِبِ حَیْثُ یَنْفَعُكَ.

ایمان کی علامت یہ ہے کہ جہاں سچائی سے نقصان اور جھوٹ سے کچھ فائدہ بھی حاصل ہو رہا ہو، سچائی ہی کو اختیار کرے۔{نہج البلاغہ: حکمت نمبر ۴۵۸}

وہ اوصاف جن سے انسان کو خالی ہونا چاہیے تا کہ اخلاق کی تربیت بہ احسن طریق ہو سکے، یہ ہیں:

بدعت:

’’بدعت‘‘ کے لغوی معنی نئی چیز کے ہیں اور اصطلاحاً اس چیز کو کہتے ہیں جو قرآن و سنّت کے خلاف ہونے کے باوجود دین میں داخل کر لی گئی ہو۔ یہ حرام اور سراسر ضلالت و گمراہی ہے۔ جیسے نوافل میں جماعت، جمعہ کے دن اذان میں اضافہ، قبل از وقت افطار، اعضائےمسح کو مسح کے بجائے دھونا، امامِ حق کے خلاف بغاوت وغیرہ۔ اور ہر نئی چیز پر بدعت کا اطلاق صحیح نہیں ہے، چنانچہ شہیدؒ نے قواعد میں تحریر کیا ہے کہ صرف انہی چیزوں کو بدعت سے تعبیر کیا جائے گا جو ادلہ تحریم کے تحت میں آتی ہوں اور جو اس کے تحت میں نہ آتی ہوں انہیں حرام نہیں کہا جائے گا، بلکہ اُن میں سے بعض واجب ہیں، جیسے کتاب و سنّت کی تدوین جبکہ ان کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو،اور بعض مستحب ہیں جیسے دینی مدارس کی تاسیس، اور بعض مکروہ ہیں جیسے تزئین مساجد، اور بعض مباح ہیں جیسے آرام و رفاہیت کی زندگی بسر کرنا۔

قیاس:

دین میں قیاس کے معنیٰ یہ ہیں کہ کسی امر مشترک کی وجہ سے ایک چیز کا حکم دوسری چیز پر جاری کرنا، کیونکہ وہ امرِ مشترک ہی اس حکم کی علّت ہے اور علّت کا اتحاد حکم کے اتحاد کا مقتضی ہوتا ہے۔ اس قیاس کی تین قسمیں ہیں:

پہلی قسم قیاس منصوص العلۃ ہے۔ جیسے ارشادِ نبویﷺ: حُرِمَتِ الْخَمْرُ لِاِسْکَارِهَا{بیان المختصر شرح مختصر ابن الحاجب، ج ۲، ص ۱۹۴}: ’’شراب نشہ آور ہونے کے سبب سے حرام ہے‘‘ سے ہر نشہ آور چیز کو حرام قرار دینا۔ یہ قیاس صحیح ہے، کیونکہ شارع نے خود علّت کو بیان کر دیا ہے۔

دوسری قسم قیاس بطریق اولیٰ ہے۔ جیسے ارشادِ الہٰی: ﴿فَلَا تَـقُلْ لَّہُمَا اُفٍّ﴾ {بنی اسرائیل: ۲۴}: ’’ماں باپ کو اُفّ تک نہ کہو‘‘ سے گزند و اذیت کا حرام قرار دینا۔ یہ قیاس بھی اپنی اولویت کی بنا پر درست ہے۔

تیسری قسم قیاس مستنبط العلۃ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی رائے سے علت کا استنباط کر لیا جائے اور اسے مناطِ حکم قرار دے لیا جائے۔

یہ قیاس شیعی نقطۂ نظر سے صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ قیاس و رائے کی تجویز کی ہوئی علّت کا علّت ہونا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ چور کا ہاتھ اگر ایک چوتھائی دینار کی وجہ سے کاٹا جاتا ہے تو از روئے قیاس غاصب کا ہاتھ بھی اس مقدار پر قطع ہونا چاہیے، حالانکہ وہ ہزار دینار بھی غصب کر لے جب بھی اس کے ہاتھ قطع نہیں ہوں گے۔اس لئے آئمہ معصومین علیہ السلام نے اس قسم کے قیاس سے منع کیا ہے تا کہ انسانی رایوں سے شریعت کے خدوخال مسخ نہ ہونے پائیں۔ چنانچہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اِنَّ السُّنَّةَ اِذَا قِيْسَتْ مُحِقَ الدِّيْنُ.

سنت میں اگر قیاس کیا جائے تو دین ہی ختم ہو جائے گا۔{الکافی، ج ۱، ص ۳۱۱}

البتہ ایک گروہ اس قسم کے قیاس کو صحیح سمجھتا اور اسے شرعی ماخذ قرار دیتا ہے۔ ابن قتیبہ نے المعارف میں اس گروہ کے نمایاں افراد کے نام گنوائے ہیں جو یہ ہیں: ابن ابی لیلیٰ، ابو حنیفہ، ربیعہ ابن ابی عبد الرحمٰن، زفر ابن ہذیل، عبدالرحمٰن ابن عمرو اوزاعی، سفیان ثوری، مالک ابن انس، قاضی ابو یوسف اور محمد ابن الحسن الفقیہ۔ ان سب میں حضرت ابوحنیفہ کو ایک خاص شہرت و امتیاز حاصل ہے۔ چنانچہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں اور دمیری نے حیٰوۃ الحیوان میں انہیں اہل قیاس و رائے کا امام تحریر کیا ہے اور زمخشری نے ربیع الابرار میں یوسف ابن اسباط کا یہ قول نقل کیا ہے:

رَدَّ اَبُوْ حَنِيْفَةَ عَلٰى رَسُوْلِ اللهِﷺ اَرْبَعَمِائَةِ حَدِيْثٍ اَوْ اَكْثَرَ.

امام ابوحنیفہ نے چار سو یا اس سے زیادہ حدیثوں کو قیاس کے مقابلے میں ناقابلِ عمل قرار دیا۔{ربیع الابرار، ج ۱، ص۳۱۱}

عُجب و کبر:

’’عُجب‘‘ (خود بینی) یہ ہے کہ انسان اپنی کسی خوبی پر ناز کرتے ہوئے دوسروں سے اپنے کو بلند و برتر تصور کرے، اعم اس سے کہ (خواہ) وہ خوبی اس میں پائی جاتی ہو یا نہ پائی جاتی ہو، یا جسے وہ خوبی سمجھ رہا ہے وہ واقع میں خوبی ہو یا صرف اسے خوبی تصور کر لیا ہو۔ اور ’’کبر‘‘ (غرور) یہ ہے کہ دوسروں کے مقابلہ میں ایسے افعال و حرکات کا مظاہرہ کرے جن میں اپنی بلندی اور دوسروں کی تحقیر کا پہلو نکلتا ہو۔ مثلاً کسی کے ساتھ کھانے پینے میں ناک بھوں چڑھائے، غریب کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور تعلقات پیدا کرنا پسند نہ کرے، راستہ چلنے میں ساتھ والوں سے آگے رہنے کی کوشش کرے، دوسروں سے سلام کا منتظر رہے اور بات چیت میں بے رُخی و بے التفاتی کا رویہ اختیار کرے۔ یہ تمام چیزیں تکبّر کی علامات ہیں۔ ایسا شخص فیضانِ رحمت سے ہمیشہ محروم رہتا ہے۔ چنانچہ جب مینہ برستا ہے تو سربلند چوٹیوں پر سے پانی گزر جاتا ہے اور جہاں نشیب ہوتا ہے وہاں جمع ہو جاتا ہے اور اس کے رگ و ریشہ کو سیراب کر دیتا ہے۔

اس غرور و خود پسندی کا علاج یہ ہے کہ انسان اپنے آغاز و انجام کو دیکھے کہ "اَوَّلُهٗ نُطْفَةٌ وَّ اٰخِرُهْ جِيْفَةٌ” {نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۴۵۴}: ’’اس کی ابتدا نطفہ اور انتہا مردار ہے‘‘، اور اپنی شکستگی و درماندگی پر نظر کرے کہ وہ زندگی کے ہر گوشہ میں سراپا احتیاج ہے، اور ہر مرحلہ پر دوسروں کے سہارے کا منتظر، جب پیدا ہوا اس وقت دوسروں کی تربیت و نگرانی کا دست نگر، جب مرے گا اس وقت دوستوں کے قبر تک پہنچانے کا محتاج، اور جب تک زندہ رہا لباس، رہائش، غذا، دوا، غرض زندگی کے تمام ضروریات میں دوسروں کا سہارا ڈھونڈتا رہا۔ اس کے مقابلہ میں حیوان کا دائرہ احتیاج کہیں محدود ہے۔ وہ اپنی جائے رہائش، خوراک خود مہیّا کر لیتا ہے، لباس کی اسے احتیاج نہیں، مرض کا حملہ اس پر بہت کم ہوتا ہے اور جب ہوتا ہے تو اپنی دوا خود تلاش کر لیتا ہے۔

اگر انسان کو اپنے حسب ونسب پر غرور ہو تو اسے غور کرنا چاہیے کہ اس میں اس کی کارکردگی کا کیا دخل ہے کہ بلند نسبی اس کیلئے سرمایۂ افتخار بن سکے۔ اُسے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنے آباء کے کمالات کا ورثہ دار ہے، یا ننگِ اسلاف۔ اگر ورثہ دار ہے تو یہی ذاتی جوہر کیا کم ہے کہ وہ قصر عز و افتخار کی تعمیر کیلئے بوسیدہ ہڈیوں کا سہارا ڈھونڈے۔ اور اگر باعثِ ننگ ہے تو ان پر افتخار موجبِ عار ہے۔

اور اگر مال و دولت کی وجہ سے غرور ہو تو یہ دیکھے کہ یہ تو مبروص اور کوڑھی لوگوں کے پاس بھی فراوانی کے ساتھ ہو سکتی ہے اور کافر و بے دین بھی اس میں سے زیادہ حصہ سمیٹ سکتا ہے۔ تو اس پر فخر ہی کیا جس میں ایک کافر بھی بڑھ جائے۔ اور قوت و طاقت پر ناز ہو تو ایک چیونٹی کو دیکھے کہ وہ دن بھر چلتی پھرتی اور اپنے سے چارسو گنا بوجھ اٹھا لیتی ہے، مگر تھکتی نہیں، اور شہد کی مکھی ایک قطرہ شہد تیار کرنے کیلئے تین سو پھولوں کا رَس چوستی ہے مگر تھکن محسوس نہیں کرتی، اور مچّھر انتہائی قلیل غذا کے باوجود دن بھر پرواز کر سکتا ہے اور اسے چند گھنٹے بھی پیدل چلنا پڑے تو ہلکان ہو جائے۔

حسد:

یہ ایک شدید قسم کا نفسانی مرض ہے جو حاسد کو گھن کی طرح اندر ہی اندر چاٹ لیتا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ حسد سے نہ محسود کا کچھ بگڑ سکتا ہے، نہ اس کی نعمتیں اور آسائشیں سلب ہو سکتی ہیں۔ پھر جَلنا اور کڑھنا تقاضائے ہوشمندی کے سراسر خلاف ہے۔ بلکہ دوسرے کو نقصان پہنچنے کے بجائے خود اس کیلئے تلخیوں کے ایسے اسباب فراہم ہو جاتے ہیں جو اسے ہمیشہ قرار و سکون سے محروم اور ذہنی الجھنوں میں مبتلا رکھتے ہیں۔

چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

اَقَلُّ النَّاسِ لَذَّةً الْحَسُوْدُ.

حاسد سب سے بڑھ کر تلخ کام ہوتا ہے۔{من لا یحضرہ الفقیہ، ج۴، ص۱۹۵}

اگر اسے یہ یقین ہو کہ خداوند عالم جو کچھ کرتا ہے اس میں خیر و مصلحت ہی کارفرما ہوتی ہے۔ اگر کسی کو عزت و اقبال اور جاہ و ثروت سے وافر حصہ دیتا ہے تو اس میں بھی اس کی حکمت و مصلحت ہوتی ہے۔ لہٰذا حسد کرنا حکمت و مصلحت الٰہی کے خلاف چاہنا ہے اور یہ ایک طرح سے سرکشی و الحاد ہے جو خیر و سعادت سے محرومی کا باعث ہوتا ہے۔

غیظ و غضب:

یہ بھی ایک نفسانی مرض ہے جس کے نتیجہ میں انسان بے قابو ہو جاتا ہے اور زبان سے ایسے نازیبا کلمات نکل جاتے ہیں، یا ہاتھ سے ایسی حرکت سرزد ہو جاتی ہے جس کے نتائج عموماً ناخوشگوار ہوتے ہیں۔ اگر اس ہیجانی کیفیت پر صبر و ضبط کے ذریعہ غلبہ پا لیا جائے تو بہت سے مفاسد کا سدباب ہو جاتا ہے اور دوسرے رفیق پر یہ اثر پڑتا ہے کہ وہ اس زیادتی پر جو غصہ دلانے کا باعث ہوئی ہے خود نادم و شرمسار ہوتا ہے اور اپنی خطا کا اعتراف کرتے ہوئے معذرت پر آمادہ ہو جاتا ہے جس سے تلخی پھر خوشگواری سے بدل جاتی ہے۔

غیبت:

کسی مومن کی پس پشت برائی کرنا ’’غیبت‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ ایک ایسی ناشائستہ خصلت ہے کہ انسان دوسروں کے عیوب کی ٹوہ میں لگا رہتا ہے تا کہ اپنی عادت کو پورا کرنے کیلئے اُسے مواد حاصل ہوتا رہے۔ قدرت نے اس خصلت کو مُردار خواری سے تعبیر کیا ہے، تا کہ انسان کی فطری کراہت کو اُبھار کر اُسے نفرت دلائے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا﴾

تم آپس میں ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو، کیا تم میں سے کوئی یہ گوارا کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے۔{حجرات: ۱۲}

غیبت سے منع کرنے اور اس سے نفرت دلانے کیلئے اس سے بہتر کیا تعبیر ہو گی کہ یہ غیبت کرنا ایسا ہی ہے جیسے مُردہ بھائی کا گوشت کھانا۔ یہ قید اس لئے ہے کہ مُردہ نہ زبان سے کچھ کہہ سکتا ہے اور نہ ہاتھ سے روک سکتا ہے جس طرح چاہو اسے چیر و پھاڑو اور اس کی بوٹیاں نوچو۔ یہی حالت اس شخص کی ہوتی ہے جس کی غیبت کی جاتی ہے کہ وہ نہ غیبت کرنے والے کی زبان روک سکتا ہے اور نہ اُسے منع کر سکتا ہے۔ کیونکہ یہ سب بُرائی اس کے پسِ پشت ہوتی ہے۔ اس غیبت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے آپس میں نفرت بڑھتی ہے، پھر رفتہ رفتہ اس نفرت کا دائرہ اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ خاندانوں اور قوموں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ جس سے ایسے مفاسد جنم لیتے ہیں جو تباہی و بربادی کی تکمیل کر دیتے ہیں۔

تعییر:

کسی شخص کو اس کے عیب یا گناہ کی بنا پر مطعون قرار دینا ’’تعییر‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ بھی بعض لوگوں کا دلچسپ مشغلہ ہے کہ وہ جس میں کوئی بری بات دیکھتے ہیں اس کی تنقیص شروع کر دیتے ہیں اور بعض تو اپنی تقشف پسندی و تنگ مزاجی کی وجہ سے اُسے نہی عن المنکر کے قبیل سے تصور کرتے ہوئے موقع و بے موقع زبانِ طعن کھول دیتے ہیں، حالانکہ اگر وہ خود اپنا جائزہ لیں تو اس جیسے کتنے ہی عیوب ان کے اندر موجود ہوں گے۔ درحقیقت یہ عیب بینی و نکتہ چینی اپنی ہی خامی ہوتی ہے جو دوسروں کے اندر نظر آتی ہے:

ای بسا ظلمی که بینی در کسان

خوی تو باشد دریشان ای فلان

اگر یہ گناہ سے نفرت دلانے اور نصیحت و خیر خواہی کے عنوان سے ہو تو یہ نہی عن المنکر کے قبیل سے سمجھی جائے گی جو اپنے محل و مورد سے وابستہ ہے، مگر یہ نکتہ چینی تو علاج کے بجائے دوسرے کی تحقیر و تذلیل کیلئے ہوتی ہے جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ وہ خود اس عیب سے بری ہیں۔ لیکن بری ہوں بھی تو اس کا ذمہ تو نہیں لے سکتے کہ ان کا دامن کبھی داغدار نہ ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ جو آج دوسروں میں کیڑے ڈال رہے ہیں کل ان میں بھی پڑ جائیں۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

مَنْ عَيَّرَ مُؤْمِنًا ً بِذَنْبٍ لَّمْ يَمُتْ حَتّٰى يَرْكَبَهٗ.

جو کسی مومن پر اس کے کسی گناہ کی وجہ سے عیب لگاتا ہے وہ ویسے ہی گناہ کا مرتکب ہو کر مرتا ہے۔{الکافی، ج۲، ص۳۵۶}

سوءظن:

کسی مسلم و مومن کے متعلق خود ساختہ قرائن کی بنا پر خیال فاسد قائم کرنا سوء ظن کہلاتا ہے۔ یہ چیز خبث فطرت و سُوء باطن کی دلیل ہے جس کے نتیجہ میں باہمی تعاون و اعتماد کا ماحول ختم ہو جاتا ہے۔ اس لئے قدرت نے بدگمانی کو گناہ سے تعبیر کرتے ہوئے اس سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ﴾

اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچے رہا کرو کیونکہ بعض گمانِ بد گناہ ہوتے ہیں۔{حجرات: ۱۲}

اور پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ مِنَ الْمُسْلِمِ دَمَهٗ وَ عِرْضَهٗ وَ اَنْ يُّظَنَّ بِهٖ ظَنُّ السُّوْٓءِ.

خداوند عالم نے مُسلم کا خون بہانے، اس کی عزّت پر حملہ آور ہونے اور اس کے متعلق سوء ظن رکھنے کو حرام قرار دیا ہے۔{ریاض السالکین، ج۳، ص۳۲۰}

بدگمانی کو وہی شخص اپنے دل میں جگہ دے گا جس کا دل خود صاف نہ ہو گا۔ اس لئے کہ انسان ہر آئینہ میں اپنی ہی صورت دیکھتا ہے اور جیسا وہ خود ہوتا ہے ویسا ہی دوسروں کے متعلق تصور قائم کرنے لگتا ہے۔ اور جس کا دل پاک و صاف ہو گا وہ بدگمانی کو اپنے دل میں نہ آنے دے گا اور نہ زبان سے کوئی ایسی بات کہے گا جس سے بدگمانی کا اظہار ہوتا ہو۔ اس قسم کی بدگمانی صرف اغوائے شیطانی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ کیونکہ اندرونی کیفیت و باطنی حالت پر خداوند علیم و خبیر کے علاوہ کوئی دوسرا آگاہ نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی دوسرے کے اندر جھانک کر نیت کی اچھائی یا بُرائی کو دیکھ سکتا اور دل کا حال جان سکتا ہے۔ لہٰذا کسی کے متعلق بے جانے، بے دیکھے ایک خیال قائم کر لینا صرف اس وجہ سے ہو سکتا ہے کہ شیطان نے اس کی قوت واہمہ میں نیکی کا تصور قائم کرنے کے بجائے بُرا تصور قائم کر دیا ہے اور جو تصور شیطانی وسوسہ کا نتیجہ ہو اس پر اثرات مرتب کرنا غلط ہو گا۔ اس طرح کہ کسی کو خیرات کرتے دیکھیں تو یہ خیال قائم کر لیں کہ یہ نام و نمود کیلئے ایسا کر رہا ہے، یا کوئی اور عملِ خیر کر رہا ہو تو اُسے اُس کی ذاتی غرض پر محمول کیا جائے۔ ہمیں ظاہر کو دیکھتے ہوئے حُسنِ ظن ہی سے کام لینا چاہیے۔ رہا نیّت کا سوال تو اس کا محاسبہ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ جب حسن ظن ہی پر بنیاد ہے تو پھر جو ہو اس پر اعتماد کر لینا چاہیے۔ جسے چاہیں گھر میں چھوڑ جائیں جسے چاہیں اپنا مال سپرد کر دیں۔ اور جو شخص کوئی دعویٰ کرے اُسے بغیر دلیل و سند کے تسلیم کر لیں تو یہ حزم و احتیاط اور تقاضائے عقل کے خلاف ہو گا۔ ایسے موارد پر حسن ظن کو بنیاد نہیں قرار دیا جا سکتا اور نہ ہر ایک پر پرکھے بغیر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے:

وَ الطُّمَاْنِیْنَةُ اِلٰى كُلِّ اَحَدٍ قَبْلَ الْاِخْتِبَارِ عَجْزٌ.

پرکھے بغیر ہر ایک پر بھروسا کر لینا عجز و کمزوری کی دلیل ہے۔{نہج البلاغہ، حکمت نمبر۳۸۴}

فحش کلامی:

یہ بازاری لوگوں کا وطیرہ ہے کہ وہ اپنے جیسے لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے اول فول بکنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ مگر ایک شریف و معیاری انسان کبھی یہ گوارا نہیں کرتا کہ وہ اپنی زبان پر کوئی فحش کلمہ آنے دے۔ اور اگر کسی موقعہ پر ایسی ضرورت پڑ جائے کہ کوئی فحش کلمہ کہنا پڑے تو وہ اسے اشارے کنائے سے ادا کرے گا اور کُھل کر کہنے سے ہچکچائے گا۔

دشنام طرازی:

یہ عادت نفس کی خباثت و دنایت کی علامت ہے۔ اس سے مقصد دوسروں کو گزند پہنچانا ہوتا ہے اور کبھی بُرے لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے اس کی عادت پڑ جاتی ہے۔ بہرحال یہ کسی کو گزند پہنچانے کیلئے ہو یا بر بنائے عادت، انتہائی اشتعال انگیزی کا باعث ہوتی ہے جس سے جھگڑے، فساد اور خون خرابے تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور کبھی قتل ایسے سنگین جرم کا بھی ارتکاب ہو جاتا ہے۔ لہٰذا کوئی گالی دے تو گالی کا جواب گالی سے دینے کے بجائے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے اور گالی گلوچ سے اپنی زبان کو بچائے رکھنا چاہیے تا کہ یہ سلسلہ آگے نہ بڑھے۔

اسراف:

جہاں جتنا صرف کرنا چاہیے اس سے زیادہ مقدار میں صرف کرنا ’’اسراف‘‘ کہلاتا ہے۔ اور بعض اسے دریا دلی سمجھتے ہوئے جہاں ایک صرف کرنا چاہیے وہاں دس صرف کرتے ہیں اور دعوتوں اور نمائشی کاموں میں دل کے حوصلے نکالتے ہیں۔ اور جہاں کسی غریب و نادار کی اعانت اور کسی بیوہ و یتیم کی مدد کا سوال آتا ہے تو مالی کمزوری و کساد بازاری کا رونا لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسی دریا دلی نام ونمود کی ہوس کا نتیجہ ہوتی ہے اور یہی اسراف ہے۔ یہ اسراف اگر کھانے پینے کے سلسلہ میں ہو تو اس کے نتیجہ میں طرح طرح کے امراض سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور دوسرے اُمور میں ہو تو اس کا نتیجہ تباہی و بدحالی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ ایسی مثالوں کی کمی نہیں کہ کسی منچلی طبیعت والے نے کسی تقریب میں نام و نمود کی خاطر یا رسم و رواج کو نباہنے کیلئے زمین یا مکان کو رہن رکھا اور ایک آدھ دن خوب چہل پہل اور تزک و احتشام دکھانے میں گزارا اور ہوا یہ کہ جو رہا سہا پاس تھا وہ ختم ہوا۔ سود در سود کی بدولت مکان نیلام ہوا۔ اب نہ کوئی ٹھکانہ رہا اور نہ سر چھپانے کی کوئی جگہ۔ انسان راحت و آسائش کی زندگی اسی صورت میں گزار سکتا ہے جب وہ اعتدال و میانہ روی سے کام لے۔ ورنہ اسراف کے نتیجہ میں اقتصادی الجھن اور تنگ دستی و پریشانی سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔

تبذیر:

جہاں صرف نہ کرنا چاہیے وہاں صرف کرنا ’’تبذیر‘‘ کہلاتا ہے۔ اس بے محل جود و سخا کے مظاہرہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے شخص کے گرد خوشامدیوں اور بازاری قسم کے لوگوں کا ایک حلقہ پیدا ہو جاتا ہے جو اس کی بے جا تعریف و خوشامد کر کے اُسے خود پسند بنا دیتے ہیں اور وہ انہیں اپنا خیرخواہ دوست سمجھ کر دیتا دلاتا رہتا ہے اور غریب و نادار اور مستحق و فقیر اُس کے ہاں سے محروم رہتے ہیں۔ یہ بے محل داد و دہش بدبختی کی علامت اور اُخروی سعادت سے محرومی کا باعث ہوتی ہے۔ چنانچہ امام جعفرصادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اِذَاۤ اَرَدْتَّ اَنْ تَعْلَمَ أَ شَقِیٌّ الرَّجُلُ اَمْ سَعِيْدٌ، فَانْظُرْ سَيْبَهٗ وَ مَعْرُوْفَهٗ اِلٰى‏ مَنْ يَّصْنَعُهٗ، فَاِنْ كَانَ يَصْنَعُهٗ اِلٰى‏ مَنْ هُوَ اَهْلُهٗ، فَاعْلَمْ اَنَّهٗ اِلٰى‏ خَيْرٍ، وَ اِنْ كَانَ يَصْنَعُهٗ اِلٰى‏ غَيْرِ اَهْلِهٖ، فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَيْسَ لَهٗ عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ.

جب تم یہ جاننا چاہو کہ فلاں شخص بدبخت ہے یا نیک، تو اس کی داد و دہش کو دیکھو کہ وہ کن سے حُسنِ سلوک کرتا ہے۔ اگر وہ اہل و مستحق افراد کو دیتا ہے تو وہ بھلائی کی راہ پر گامزن ہے اور اگر نااہل سے سلوک کرتا ہے تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کیلئے کوئی بھلائی نہیں ہے۔{الکافی، ج۴، ص۳۰}

سوال:

دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا اپنی عزت سے ہاتھ اٹھانا ہے۔ اس لئے کوئی باعزت انسان انتہائی تنگی و عسرت کے باوجود سوال کرنا گوارا نہیں کر سکتا۔ یہ دنیا میں بھی رُوسیاہی کا سبب ہے اور آخرت میں بھی۔ اس سے جواب دہی ہو گی۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اِيَّاكُمْ وَ سُؤَالَ النَّاسِ، فَاِنَّهٗ ذُلٌّ فِی الدُّنْيَا وَ فَقْرٌ تُعَجِّلُوْنَهٗ وَ حِسَابٌ طَوِيْلٌ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ.

لوگوں سے سوال کرنے اور مانگنے سے بچے رہو، کیونکہ یہ دنیا میں ذلّت و فقر کا باعث ہے اور آخرت میں حساب کتاب دینا ہو گا۔{الکافی، ج۴، ص۲۰}

سوال کی عادت عموماً فقر و ناداری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جس سے انسان عزتِ نفس کھو بیٹھتا ہے۔ اسی چیز کے پیشِ نظر صلحاء و ابرار احتیاج و تنگ دستی سے پناہ مانگتے رہے ہیں کہ مبادا یہ تنگ دستی سوال پر مجبور کر دے اور اخلاق کی پاکیزگی ختم ہو جائے۔ مال و دولت سے بھی اگر اس کا مصرف صحیح ہو تو اخلاق کی نگہداشت کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:

نِعْمَ الْعَوْنُ عَلٰى‏ تَقْوَى اللّٰهِ الْغِنٰى‏.

وسعتِ مالی، تقویٰ الٰہی میں معین و معاون ہوتی ہے۔{ الکافی، ج۵، ص ۷۱}

اسی مال و دولت کی وجہ سے انسان مالی عبادات کو سرانجام دیتا ہے اور حج، خمس، زکوٰۃ، کفّارہ، صلہ رحم و صدقات سب اسی سے وابستہ ہیں۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ سورۂ انفال، آیت ۲۹

[۲]۔ مجموعہ ورام، ج۱، ص ۸۹

[۳]۔ الکافی، ج۲، ص ۴۰

[۴]۔ مجموعہ ورام، ج۲، ص ۲۳۶

[۵]۔ تفسیر الصافی، ج ۲، ص ۲۳۶

[۶]۔ مصباح الشریعہ، ص ۵۳

[۷]۔ عوالی اللئالی، ج ۱، ص ۴۰۴

[۸]۔ سورۂ کہف، آیت ۱۱۰

[۹]۔ سورۂ انعام، آیت ۱۵۳

[۱۰]۔ بحارالانوار، ج ۲، ص ۵۵

[۱۱]۔ سورۂ ذارایات، آیت ۲۰-۲۱

[۱۲]۔ الکافی، ج ۲، ص ۵۵

[۱۳]۔ سورۂ آل عمران، آیت ۱۸۶

[۱۴]۔ سورۂ آل عمران، آیت ۱۲۰

[۱۵]۔ سورۂ نحل، آیت ۱۲۸

[۱۶]۔ سورۂ طلاق، آیت ۲-۳

[۱۷]۔ سورۂ احزاب، آیت ۷۰-۷۱

[۱۸]۔ سورۂ توبہ، آیت ۴

[۱۹]۔ سورۂ مائدہ، ایت ۲۷

[۲۰]۔ سورۂ طلاق، آیت ۴

[۲۱]۔ سورۂ طلاق، آیت ۵

[۲۲]۔ سورۂ آل عمران، آیت ۲۲

[۲۳]۔ سورۂ حجرات، آیت ۱۳

[۲۴]۔ سورۂ یونس، آیت ۶۳-۶۴

[۲۵]۔ سورۂ مریم، آیت ۷۲

[۲۶]۔ سورۃ طٰہٰ، آیت ۱۳۲

[۲۷]۔ ۲۳ سورۃ آل عمران، آیت ۱۴۸

[۲۸]۔ سورۂ الحجرات، آیت ۱۰

[۲۹]۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۴۵۷

[۳۰]۔ بیان المختصر شرح مختصر ابن الحاجب، ج ۲، ص ۱۹۴

[۳۱]۔ سورۂ بنی اسرائیل، آیت ۲۴

[۳۲]۔ الکافی، ج ۱، ص ۵۷

[۳۳]۔ ربیع الابرار، ج ۱، ص ۳۱۱

[۳۴]۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۴۵۴

[۳۵]۔ من لا یحضرہ الفقیہ، ج ۴، ص ۱۹۵

[۳۶]۔ سورۂ حجرات، آیت ۱۲

[۳۷]۔ الکافی، ج ۲، ص ۳۵۶

[۳۸]۔ سورۂ حجرات، آیت ۱۲

[۳۹]۔ ریاض السالکین، ج ۳ ص ۳۲۰

[۴۰]۔ نہج البلاغہ، حکمت نمبر ۳۸۴

[۴۱]۔ الکافی، ج ۴، ص ۳۰

[۴۲]۔ الکافی، ج۴، ص ۲۰

[۴۳]۔ الکافی، ج ۵، ص،۷۱

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button