21۔ رنج و اندوہ کے موقع کی دعا
(۲۱) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
اِذَا حَزَنَهٗ اَمْرٌ وَّ اَهَمَّتْهُ الْخَطَایَا:
جب کسی بات سے غمگین یا گناہوں کہ وجہ سے پریشان ہوتے تو یہ دُعا پڑھتے:
اَللّٰهُمَّ یَا كَافِیَ الْفَرْدِ الضَّعِیْفِ، وَ وَاقِیَ الْاَمْرِ الْمَخُوْفِ، اَفْرَدَتْنِی الْخَطَایَا فَلَا صَاحِبَ مَعِیْ، وَ ضَعُفْتُ عَنْ غَضَبِكَ فَلَا مُؤَیِّدَ لِیْ، وَ اَشْرَفْتُ عَلٰى خَوْفِ لِقَآئِكَ، فَلَا مُسَكِّنَ لِرَوْعَتِیْ .
اے اللہ! اے یکہ و تنہا اور کمزور و ناتواں کی(مہموں میں) کفایت کرنے والے اور خطرناک مرحلوں سے بچا لے جانے والے! گناہوں نے مجھے بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے، اب کوئی ساتھی نہیں ہے، اور تیرے غضب کے برداشت کرنے سے عاجز ہوں، اب کوئی سہارا دینے والا نہیں ہے، تیری طرف بازگشت کا خطرہ درپیش ہے۔
وَ مَنْ یُّؤْمِنُنِیْ مِنْكَ وَ اَنْتَ اَخَفْتَنِیْ، وَ مَنْ یُسَاعِدُنِیْ وَ اَنْتَ اَفْرَدْتَّنِیْ، وَمَنْ یُّقَوِّیْنِیْ وَاَنْتَ اَضْعَفْتَنِیْ، لَا یُجِیْرُ یَاۤ اِلٰهِیْۤ اِلَّا رَبٌّ عَلٰى مَرْبُوْبٍ، وَ لَا یُؤْمِنُ اِلَّا غَالِبٌ عَلٰى مَغْلُوْبٍ، وَ لَا یُعِیْنُ اِلَّا طَالِبٌ عَلٰى مَطْلُوْبٍ، وَ بِیَدِكَ یَاۤ اِلٰهِیْ جَمِیْعُ ذٰلِكَ السَّبَبِ، وَ اِلَیْكَ الْمَفَرُّ وَ الْمَهْرَبُ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اَجِرْ هَرَبِیْ، وَ اَنْجِحْ مَطْلَبِیْ.
اب اس دہشت سے کوئی تسکین دینے والا نہیں ہے، اور جبکہ تو نے مجھے خوف زدہ کیا ہے تو کون ہے جو مجھے تجھ سے مطمئن کرے، اور جبکہ تو نے مجھے تنہا چھوڑ دیا ہے تو کون ہے جو میری دستگیری کرے اور جبکہ تو نے مجھے ناتواں کر دیا ہے تو کون ہے جو مجھے قوت دے؟ اے میرے معبود! پروردہ کو کوئی پناہ نہیں دے سکتا سوائے اس کے پروردگار کے، اور شکست خوردہ کو کوئی امان نہیں دے سکتا سوائے اس پر غلبہ پانے والے کے، اور طلب کردہ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا سوائے اس کے طالب کے، یہ تمام وسائل اے میرے معبود تیرے ہی ہاتھ میں ہیں اور تیری ہی طرف راہ فرار و گریز ہے، لہٰذا تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور میرے گریز کو اپنے دامن میں پناہ دے، اور میری حاجت برلا۔
اَللّٰهُمَّ اِنَّكَ اِنْ صَرَفْتَ عَنِّیْ وَجْهَكَ الْكَرِیْمَ، اَوْ مَنَعْتَنِیْ فَضْلَكَ الْجَسِیْمَ، اَوْ حَظَرْتَ عَلَیَّ رِزْقَكَ، اَوْ قَطَعْتَ عَنِّیْ سَبَبَكَ، لَمْ اَجِدِ السَّبِیْلَ اِلٰى شَیْءٍ مِّنْ اَمَلِیْ غَیْرَكَ، وَ لَمْ اَقْدِرْ عَلٰى مَا عِنْدَكَ بِمَعُوْنَةِ سِوَاكَ، فَاِنِّیْ عَبْدُكَ وَ فِیْ قَبْضَتِكَ، نَاصِیَتِیْ بِیَدِكَ، لَاۤ اَمْرَ لِیْ مَعَ اَمْرِكَ، مَاضٍ فِیَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِیَّ قَضَآئُكَ، وَ لَا قُوَّةَ لِیْ عَلَى الْخُرُوْجِ مِنْ سُلْطَانِكَ، وَ لَاۤ اَسْتَطِیْعُ مُجَاوَزَةَ قُدْرَتِكَ، وَ لَاۤ اَسْتَمِیْلُ هَوَاكَ، وَ لَاۤ اَبْلُغُ رِضَاكَ، وَ لَاۤ اَنَالُ مَا عِنْدَكَ اِلَّا بِطَاعَتِكَ وَ بِفَضْلِ رَحْمَتِكَ.
اے اللہ! اگر تو نے اپنا پاکیزہ رُخ مجھ سے موڑ لیا اور اپنے احسان عظیم سے دریغ کیا، یا اپنے رزق کو بند کر دیا، یا اپنے رشتۂ رحمت کو مجھ سے قطع کر لیا تو میں اپنی آرزوؤں تک پہنچنے کا وسیلہ تیرے سوا کوئی پا نہیں سکتا، اور تیرے ہاں کی چیزوں پر تیری مدد کے سوا دسترس حاصل نہیں کر سکتا، کیونکہ میں تیرا بندہ اور تیرے قبضۂ قدرت میں ہوں، اور تیرے ہی ہاتھ میں میری باگ ڈور ہے، تیرے حکم کے آگے میرا حکم نہیں چل سکتا، میرے بارے میں تیرا فرمان جاری اور میرے حق میں تیرا فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہے، تیرے قلمر وِ سلطنت سے نکل جانے کا مجھے یارا نہیں، اور تیرے احاطۂ قدرت سے قدم باہر رکھنے کی طاقت نہیں، اور نہ تیری محبت کو حاصل کر سکتا ہوں، نہ تیری رضا مندی تک پہنچ سکتا ہوں، اور نہ تیرے ہاں کی نعمتیں پا سکتا ہوں، مگر تیری اطاعت اور تیری رحمت فراواں کے وسیلہ سے۔
اِلٰهِیْ! اَصْبَحْتُ وَ اَمْسَیْتُ عَبْدًا دَاخِرًا لَّكَ، لَاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَ لَا ضَرًّا اِلَّا بِكَ، اَشْهَدُ بِذٰلِكَ عَلٰى نَفْسِیْ، وَ اَعْتَرِفُ بِضَعْفِ قُوَّتِیْ وَ قِلَّةِ حِیْلَتِیْ، فَاَنْجِزْ لِیْ مَا وَعَدْتَّنِیْ، وَ تَمِّمْ لِیْ مَاۤ اٰتَیْتَنِیْ، فَاِنِّیْ عَبْدُكَ الْمِسْكِیْنُ الْمُسْتَكِیْنُ، الضَّعِیْفُ الضَّرِیْرُ، الْحَقِیْرُ الْمَهِیْنُ، الْفَقِیْرُ الْخَآئِفُ الْمُسْتَجِیْرُ.
اے اللہ! میں ہر حال میں تیرا ذلیل بندہ ہوں، تیری مدد کے بغیر میں اپنے سود و زیاں کا مالک نہیں، میں اس عجز و بے بضاعتی کی اپنے بارے میں گواہی دیتا ہوں اور اپنی کمزوری و بے چارگی کا اعتراف کرتا ہوں، لہٰذا جو وعدہ تو نے مجھ سے کیا ہے اسے پورا کر اور جو دیا ہے اسے تکمیل تک پہنچا دے، اس لئے کہ میں تیرا وہ بندہ ہوں جو بے نوا، عاجز، کمزور، بے سروسامان، حقیر، ذلیل، نادار، خوفزدہ اور پناہ کا خواستگار ہے۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ لَا تَجْعَلْنِیْ نَاسِیًا لِّذِكْرِكَ فِیْمَاۤ اَوْلَیْتَنِیْ، وَ لَا غَافِلًا لِّاِحْسَانِكَ فِیْمَاۤ اَبْلَیْتَنِیْ، وَ لَا اٰیِسًا مِّنْ اِجَابَتِكَ لِیْ وَ اِنْ اَبْطَاَتْ عَنِّیْ، فِیْ سَرَّآءَ كُنْتُ اَوْ ضَرَّآءَ، اَوْ شِدَّةٍ اَوْ رَخَآءٍ، اَوْ عَافِیَةٍ اَوْ بَلَآءٍ، اَوْ بُؤْسٍ اَوْ نَعْمَآءَ، اَوْ جِدَةٍ اَوْ لَاْوَآءَ، اَوْ فَقْرٍ اَوْ غِنًى.
اے اللہ! رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور مجھے ان عطیوں میں جو تو نے بخشے ہیں فراموش کار اور ان نعمتوں میں جو تو نے عطا کی ہیں احسان ناشناس نہ بنا دے، اور مجھے دُعا کی قبولیت سے ناامید نہ کر اگرچہ اس میں تاخیر ہو جائے، آسائش میں ہوں یا تکلیف میں، تنگی میں ہوں یا فارغ البالی میں، تندرستی کی حالت میں ہوں یا بیماری کی، بدحالی میں ہوں یا خوشحالی میں، تونگری میں ہوں یا عسرت میں، فقر میں ہوں یا دولتمندی میں۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اجْعَلْ ثَنَآئِیْ عَلَیْكَ، وَ مَدْحِیْۤ اِیَّاكَ، وَ حَمْدِیْ لَكَ فِیْ كُلِّ حَالَاتِیْ، حَتّٰى لَاۤ اَفْرَحَ بِمَا اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الدُّنْیَا، وَ لَاۤ اَحْزَنَ عَلٰى مَا مَنَعْتَنِیْ فِیْهَا، وَ اَشْعِرْ قَلْبِیْ تَقْوَاكَ، وَ اسْتَعْمِلْ بَدَنِیْ فِیْمَا تَقْبَلُهٗ مِنِّیْ، وَ اشْغَلْ بِطَاعَتِكَ نَفْسِیْ عَنْ كُلِّ مَا یَرِدُ عَلَیَّ، حَتّٰى لَاۤ اُحِبَّ شَیْئًا مِّنْ سُخْطِكَ، وَ لَاۤ اَسْخَطَ شَیْئًا مِّنْ رِضَاكَ.
اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے ہر حالت میں مدح و ستائش و سپاس میں مصروف رکھ، یہاں تک کہ دنیا میں سے جو کچھ تو دے اس پر خوش نہ ہونے لگوں اور جو روک لے اس پر رنجیدہ نہ ہوں، اور پرہیزگاری کو میرے دل کا شعار بنا، اور میرے جسم سے وہی کام لے جسے تو قبول فرمائے، اور اپنی اطاعت میں انہماک کے ذریعہ تمام دنیوی علائق سے فارغ کر دے، تاکہ اس چیز کو جو تیری ناراضی کا سبب ہے، دوست نہ رکھوں اور جو چیز تیری خوشنودی کا باعث ہے اسے ناپسند نہ کروں۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ فَرِّغْ قَلْبِیْ لِمَحَبَّتِكَ، وَ اشْغَلْهُ بِذِكْرِكَ، وَ انْعَشْهُ بِخَوْفِكَ وَ بِالْوَجَلِ مِنْكَ، وَ قَوِّهٖ بِالرَّغْبَةِ اِلَیْكَ، وَ اَمِلْهُ اِلٰى طَاعَتِكَ، وَ اَجْرِ بِهٖ فِیْ اَحَبِّ السُّبُلِ اِلَیْكَ، وَ ذَلِّلْهُ بِالرَّغْبَةِ فِیْمَا عِنْدَكَ اَیَّامَ حَیَاتِیْ كُلِّهَا، وَ اجْعَلْ تَقْوَاكَ مِنَ الدُّنْیَا زَادِیْ، وَ اِلٰى رَحْمَتِكَ رِحْلَتِیْ، وَ فِیْ مَرْضَاتِكَ مَدْخَلِیْ، وَ اجْعَلْ فِیْ جَنَّتِكَ مَثْوَایَ.
اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور زندگی بھر میرے دل کو اپنی محبت کیلئے فارغ کر دے،اپنی یاد میں اسے مشغول رکھ، اپنے خوف و ہراس کے ذریعہ (گناہوں کی) تلافی کا موقع دے، اپنی طرف رجوع ہونے سے اس کو قوت و توانائی بخش، اپنی اطاعت کی طرف اسے مائل کر اور اپنے پسندیدہ ترین راستہ پر چلا اور اپنی نعمتوں کی طلب پر اسے تیار کر اور پرہیزگاری کو میرا توشہ،اپنی رحمت کی جانب میرا سفر، اپنی خوشنودی میں میرا گزر اور اپنی جنت میں میری منزل قرار دے۔
وَ هَبْ لِیْ قُوَّةً اَحْتَمِلُ بِهَا جَمِیْعَ مَرْضَاتِكَ، وَ اجْعَلْ فِرَارِیْۤ اِلَیْكَ، وَ رَغْبَتِیْ فِیْمَا عِنْدَكَ، وَ اَلْبِسْ قَلْبِیَ الْوَحْشَةَ مِنْ شِرَارِ خَلْقِكَ، وَ هَبْ لِیَ الْاُنْسَ بِكَ وَ بِاَوْلِیَآئِكَ وَ اَهْلِ طَاعَتِكَ.
اور مجھے ایسی قوت عطا فرما جس سے تیری رضامندیوں کا بوجھ اٹھالوں، اور میرے گریز کو اپنی جانب اور میری خواہش کو اپنے ہاں کی نعمتوں کی طرف قرار دے، اور برے لوگوں سے میرے دل کو متوحش اور اپنے اور اپنے دوستوں اور فرمانبرداروں سے مانوس کر دے۔
وَ لَا تَجْعَلْ لِفَاجِرٍ وَّ لَا كَافِرٍ عَلَیَّ مِنَّةً، وَ لَا لَهٗ عِنْدِیْ یَدًا، وَ لَا بِیْۤ اِلَیْهِمْ حَاجَةً، بَلِ اجْعَلْ سُكُوْنَ قَلْبِیْ وَ اُنْسَ نَفْسِیْ وَ اسْتِغْنَآئِیْ وَكِفَایَتِیْ بِكَ وَ بِخِیَارِ خَلْقِكَ.
اور کسی بدکار اور کافر کا مجھ پر احسان نہ ہو، نہ اس کی نگاہِ کرم مجھ پر ہو اور نہ اس کی مجھے کوئی احتیاج ہو، بلکہ میرے دلی سکون، قلبی لگاؤ اور میری بے نیازی و کارگزاری کو اپنے اور اپنے برگزیدہ بندوں سے وابستہ کر۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اجْعَلْنِیْ لَهُمْ قَرِیْنًا، وَ اجْعَلْنِیْ لَهُمْ نَصِیْرًا، وَ امْنُنْ عَلَیَّ بِشَوْقٍ اِلَیْكَ، وَ بِالْعَمَلِ لَكَ بِمَا تُحِبُّ وَ تَرْضٰى، اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ، وَ ذٰلِكَ عَلَیْكَ یَسِیْرٌ.
اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے ان کا ہم نشین و مددگار قرار دے، اور اپنے شوق و وارفتگی اور ان اعمال کے ذریعے جنہیں تو پسند کرتا اور جن سے خوش ہوتا ہے، مجھ پر احسان فرما، اس لئے کہ تو ہر چیز پر قادر ہے، اور یہ کام تیرے لئے آسان ہے۔
–٭٭–
جب انسان کو گناہوں کا احساس ہوتا ہے تو وہ اپنے کو یکہ و تنہا محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اس کا بوجھ بٹانے والا اور ان گناہوں کا بار ہلکا کرنے والا کوئی نہیں ہے اس لئے اپنے گرد و پیش دوستوں کے اجتماع کے باوجود وہ اپنے کو تنہا سمجھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اور جب گناہ کے نتیجہ میں غضب و انتقام الٰہی کا تصور کرتا ہے تو اس کے مقابلہ میں اپنی قوت و طاقت کو عاجز و کمزور پاتا ہے۔ اور جب حشر و نشر، حساب و کتاب اور برزخ و قبر کی سختیوں کا تصور کرتا ہے تو اس پر خوف و ہراس طاری ہو جاتا ہے۔ یہ خوف و پراگندگی کے تمام حالات گناہ، غضب الٰہی اور حشر و نشر کے تصور سے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لئے امام علیہ السلام نے ان چیزوں کی نسبت انہی اسباب کی طرف دی ہے۔ پھر اسباب و وسائط سے قطع نظر کرتے ہوئے اللہ سبحانہ کی طرف نسبت دیتے ہیں۔ کیونکہ حقیقۃً وہی عجز و تنہائی و خوف کے اسباب پیدا کرنے والا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
﴿ذٰلِكَ يُخَوِّفُ اللہُ بِہٖ عِبَادَہٗ يٰعِبَادِ فَاتَّقُوْنِ۱۶﴾
یہ وہ عذاب ہے جس خدا نے اپنے بندوں کو ڈرایا ہے۔ اے میرے بندو! مجھ سے ڈرتے رہو۔[۱]
ایسی صورت میں خوف و ہراس سے تسلی حاصل کرنے کا جب کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوتا اور اسی سے خوف و پریشانی، تنہائی و بے کسی اور اپنی عاجزی و بے بسی کا مداوا چاہتا ہے۔ کیونکہ اس کے علاوہ کوئی پناہ دینے والا، اور خوف و اضطراب کو دور کرنے والا نہیں ہے۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے:
وَ فِرُّوْۤا اِلَى اللهِ مِنَ اللهِ.
اللہ تعالیٰ کے عذاب سے اللہ تعالیٰ ہی کے دامن میں پناہ مانگو۔[۲]
اور حضرتؑ نے اس دُعا میں صرف اسی کو پناہ دہندہ قرار دینے پر اس طرح استدلال فرمایا ہے کہ: وہ ’’رب‘‘ ہے جس کے معنی مالک کےہیں اور اس کے علاوہ ہر فرد مملوک اور اس کے دائرہ ربوبیت کے اندر ہے۔ تو مملوک کا مالک کے مقابلہ میں کیا بس چل سکتا ہے کہ وہ اس کے غضب و انتقام سے سپر بن سکے ۔ اور وہ ’’غالب‘‘ ہے اور اس کے علاوہ سب شکست خوردہ و مغلوب ہیں۔لہٰذا جو خود مغلوب ہو وہ غالب کے مقابلے میں کیا پناہ دے سکتا ہے، جبکہ اسے غلبہ و تسلط حاصل ہی نہیں ہے۔ اور وہ ’’طالب‘‘ ہے، بایں معنی کہ وہ سب کو اپنی بارگاہ میں طلب کرنے والا اور ان کے اعمال کا جائزہ لینے والا ہے۔ اور اس کے علاوہ سب کے سب وہاں حساب و کتاب کیلئے مطلوب ہیں ۔ اور ایک فرد کیلئے بھی جائے گریز نہیں ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
﴿وَّاللہُ مِنْ وَّرَاىِٕہِمْ مُّحِيْطٌ۲۰ۚ﴾
اللہ ان کا آگے سے اور پیچھے سے احاطہ کئے ہوئے ہے۔[۳]
لہٰذا جو خود مطلوب و ماخوذ ہو وہ طالب کے مقابلہ میں کیا مدد کر سکتا ہے۔ اب اگر کہیں پناہ طلب کی جا سکتی ہے تو اسی کے سایۂ رحمت میں اور خوف و ہراس کے اندھیرے چھٹ سکتے ہیں تو اسی کے فضل و کرم کی روشنی سے۔ اور انسان اس کے سامنے عاجز و درماندہ اور بے بس و لاچار ہے۔ کیونکہ ہر چیز میں اسی کا امر نافذ اور اسی کا حکم کار فرما ہے اور اسی کے ہاتھ میں تمام اسباب و وسائل ہیں۔
اس کے یہ معنی نہ سمجھے جائیں کہ انسان اپنے افعال پر اختیار ہی نہیں رکھتا اور اس سلسلہ میں بے بس و مجبور ہے ۔کیونکہ قدرت کی طرف سے صرف اسباب اور وسائل مہیا ہوتے ہیں جس کے بعد وہ اچھے اور برے کاموں کو باختیار خود انجام دیتا ہے۔ چنانچہ جہاں تک ان افعال کیلئے قوتیں درکار تھیں وہ قدرت کا عطیہ ہیں جنہیں اچھے اور برے دونوں قسم کے کاموں میں صرف کیا جا سکتا ہے۔ اور جب توفیق الٰہی سے انہیں اچھے کاموں میں صرف کرتا ہے تو یہ اس کا اختیاری فعل ہوتا ہے جس پر وہ جزا و ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اور قدرت کی طرف سے اسباب و قویٰ کا مہیا ہونا ان افعال کے وقوع کی علت نہیں ہے کہ اسے اپنے کاموں میں مجبور سمجھ لیا جائے۔ البتہ توفیق الٰہی کا شامل حال ہونا ایک انعام خداوندی ہے جو ہر اس شخص کی دست گیری کیلئے آمادہ ہے جو فکر و عمل سے اس کیلئے راستہ ہموار کر دیتا ہے۔ اور یہ اس کی توفیق ہی کا کرشمہ ہے کہ انسان خواہشات و جذبات کو دبا کر اپنے اعضا کو اس کی عبادت میں، اپنے دل کو اس کی یاد میں اور اپنی زبان کو اس کے ذکر میں مصروف رکھتا ہے اور خواہش پرستی کے مقابلہ میں اس کی خوشنودی و رضا مندی کو ترجیح دیتا ہے۔ یہاں تک کہ کسی سے محبت ہے تو اس لئے کہ وہ اللہ کا فرمانبردار اور اس کا دوست ہے اور کسی سے بغض ہے تو اس لئے کہ وہ عاصی و نافرمان اور اس کا دشمن ہے۔ غرض اس کا جینا،مرنا، اٹھنا، بیٹھنا، میل ملت رکھنا سب اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اس کی خوشنودی کیلئے ہوتا ہے اور اس کے مقابلہ میں نہ کسی مصیبت کو مصیبت اور نہ کسی نقصان کو نقصان تصور کرتا ہے۔
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ سورۂ زمر، آیت ۱۶
[۲]۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۲۴
[۳]۔ سورۂ بروج، آیت ۲۰