22۔ شدت و سختی کے وقت کی دعا
(۲۲) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
عِنْدَ الشِّدَّةِ وَ الْجَهْدِ وَ تَعَسُّرِ الْاُمُوْرِ
شدائد و مشکلات کے موقع پر یہ دُعا پڑھتے:
اَللّٰهُمَّ اِنَّكَ كَلَّفْتَنِیْ مِنْ نَّفْسِیْ مَاۤ اَنْتَ اَمْلَكُ بِهٖ مِنِّیْ، وَ قُدْرَتُكَ عَلَیْهِ وَ عَلَیَّ اَغْلَبُ مِنْ قُدْرَتِیْ، فَاَعْطِنِیْ مِنْ نَّفْسِیْ مَا یُرْضِیْكَ عَنِّیْ، وَ خُذْ لِنَفْسِكَ رِضَاهَا مِنْ نَّفْسِیْ فِیْ عَافِیَةٍ.
اے میرے معبود! تو نے(اصلاح و تہذیب نفس کے بارے میں) جو تکلیف مجھ پر عائد کی ہے اس پر تو مجھ سے زیادہ قدرت رکھتا ہے، اور تیری قوت و توانائی اس امر پر اور خود مجھ پر میری قوت و طاقت سے فزوں تر ہے، لہٰذا مجھے ان اعمال کی توفیق دے جو تیری خوشنودی کا باعث ہوں، اور صحت و سلامتی کی حالت میں اپنی رضامندی کے تقاضے مجھ سے پورے کر لے۔
اَللّٰهُمَّ لَا طَاقَةَ لِیْ بِالْجَهْدِ، وَ لَا صَبْرَ لِیْ عَلَى الْبَلَآءِ، وَ لَا قُوَّةَ لِیْ عَلَى الْفَقْرِ، فَلَا تَحْظُرْ عَلَیَّ رِزْقِیْ، وَ لَا تَكِلْنِیْۤ اِلٰى خَلْقِكَ، بَلْ تَفَرَّدْ بِحَاجَتِیْ، وَ تَوَلَّ كِفَایَتِیْ، وَ انْظُرْ اِلَیَّ وَ انْظُرْ لِیْ فِیْ جَمِیْعِ اُمُوْرِیْ، فَاِنَّكَ اِنْ وَّكَلْتَنِیْۤ اِلٰى نَفْسِیْ عَجَزْتُ عَنْهَا وَ لَمْ اُقِمْ مَا فِیْهِ مَصْلَحَتُهَا، وَ اِنْ وَكَلْتَنِیْۤ اِلٰى خَلْقِكَ تَجَهَّمُوْنِیْ، وَ اِنْ اَلْجَاْتَنِیْۤ اِلٰى قَرَابَتِیْ حَرَمُوْنِیْ، وَ اِنْ اَعْطَوْاۤ اَعْطَوْا قَلِیْلًا نَكِدًا، وَ مَنُّوْا عَلَیَّ طَوِیْلًا، وَ ذَمُّوْا كَثِیْرًا، فَبِفَضْلِكَ اللّٰهُمَّ فَاَغْنِنِیْ، وَ بِعَظَمَتِكَ فَانْعَشْنِیْ، وَ بِسَعَتِكَ فَابْسُطْ یَدِیْ، وَ بِمَا عِنْدَكَ فَاكْفِنِیْ.
بارِالہا !مجھ میں مشقت کے مقابلہ میں ہمت، مصیبت کے مقابلہ میں صبر اور فقر و احتیاج کے مقابلہ میں قوت نہیں ہے، لہٰذا میری روزی کو روک نہ لے، اور مجھے اپنی مخلوق کے حوالے نہ کر، بلکہ بلا واسطہ میری حاجت برلا، اور خود ہی میرا کارساز بن، اور مجھ پر نظر شفقت فرما، اور تمام کاموں کے سلسلہ میں مجھ پر نظر کرم رکھ، اس لئے کہ اگر تو نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا تو میں اپنے امور کی انجام دہی سے عاجز رہوں گا، اور جن کاموں میں میری بہبودی ہے انہیں انجام نہ دے سکوں گا، اور اگر تو نے مجھے لوگوں کے حوالے کر دیا تو وہ تیوریوں پر بل ڈال کر مجھے دیکھیں گے، اور اگر عزیزوں کی طرف ڈھکیل دیا تو وہ مجھے ناامید رکھیں گے، اور اگر کچھ دیں گے تو قلیل و ناخوشگوار اور اس کے مقابلہ میں احسان زیادہ رکھیں گے اور برائی بھی حد سے بڑھ کر کریں گے، لہٰذا اے میرے معبود! تو اپنے فضل و کرم کے ذریعہ مجھے بے نیاز کر، اور اپنی بزرگی و عظمت کے وسیلہ سے میری احتیاج کو برطرف فرما، اور اپنی تونگری و وسعت سے میرا ہاتھ کشادہ کر دے، اور اپنے ہاں کی نعمتوں کے ذریعہ مجھے (دوسروں سے) بے نیاز بنا دے۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ خَلِّصْنِیْ مِنَ الْحَسَدِ، وَ احْصُرْنِیْ عَنِ الذُّنُوْبِ، وَ وَرِّعْنِیْ عَنِ الْمَحَارِمِ، وَ لَا تُجَرِّئْنِیْ عَلَى الْمَعَاصِیْ، وَ اجْعَلْ هَوَایَ عِنْدَكَ، وَ رِضَایَ فِیْمَا یَرِدُ عَلَیَّ مِنْكَ، وَ بَارِكْ لِیْ فِیْمَا رَزَقْتَنِیْ وَ فِیْمَا خَوَّلْتَنِیْ، وَ فِیْمَاۤ اَنْعَمْتَ بِهٖ عَلَیَّ، وَ اجْعَلْنِیْ فِیْ كُلِّ حَالَاتِیْ مَحْفُوْظًا مَّكْلُوْٓءًا، مَّسْتُوْرًا مَّمْنُوْعًا مُّعَاذًا مُّجَارًا.
اے اللہ! رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور مجھے حسد سے نجات دے، اور گناہوں کے ارتکاب سے روک دے، اور حرام کاموں سے بچنے کی توفیق دے، اور گناہوں پر جرأت پیدا نہ ہونے دے، اور میری خواہش و رغبت اپنے سے وابستہ رکھ، اور میری رضامندی انہی چیزوں میں قرار دے جو تیری طرف سے مجھ پر وارد ہوں، اور رزق و بخشش و انعام میں میرے لئے افزائش فرما، اور مجھے ہر حال میں اپنے حفظ و نگہداشت، حجاب و نگرانی اور پناہ و امان میں رکھ۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اقْضِ عَنِّیْ كُلَّ مَاۤ اَلْزَمْتَنِیْهِ، وَ فَرَضْتَهٗ عَلَیَّ لَكَ فِیْ وَجْهٍ مِّنْ وُجُوْهِ طَاعَتِكَ، اَوْ لِخَلْقٍ مِّنْ خَلْقِكَ وَ اِنْ ضَعُفَ عَنْ ذٰلِكَ بَدَنِیْ، وَ وَهَنَتْ عَنْهُ قُوَّتِیْ، وَ لَمْ تَنَلْهُ مَقْدُرَتِیْ، وَ لَمْ یَسَعْهُ مَالِیْ وَ لَا ذَاتُ یَدِیْ، ذَكَرْتُهٗ اَوْ نَسِیْتُهٗ، هُوَ یَا رَبِّ مِمَّا قَدْ اَحْصَیْتَهٗ عَلَیَّ وَ اَغْفَلْتُهٗ اَنَا مِنْ نَّفْسِیْ، فَاَدِّهٖ عَنِّیْ مِنْ جَزِیْلِ عَطِیَّتِكَ وَ كَثِیْرِ مَا عِنْدَكَ، فَاِنَّكَ وَاسِعٌ كَرِیْمٌ، حَتّٰى لَا یَبْقٰى عَلَیَّ شَیْءٌ مِّنْهُ تُرِیْدُ اَنْ تُقَاصَّنِیْ بِهٖ مِنْ حَسَنَاتِی، اَوْ تُضَاعِفَ بِهٖ مِنْ سَیِّئَاتِیْ یَوْمَ اَلْقَاكَ یَا رَبِّ.
اے اللہ! رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور مجھے ہر قسم کی اطاعت کے بجا لانے کی توفیق عطا فرما جو تو نے اپنے لئے یا مخلوقات میں سے کسی کیلئے مجھ پر لازم و واجب کی ہو، اگرچہ اسے انجام دینے کی سکت میرے جسم میں نہ ہو، اور میری قوت اس کے مقابلہ میں کمزور ثابت ہو، اور میری مقدرت سے باہر ہو، اور میرا مال و اثاثہ اس کی گنجائش نہ رکھتا ہو، وہ مجھے یاد ہو یا بھول گیا ہوں، وہ تو اے میرے پروردگار! ان چیزوں میں سے ہے جنہیں تو نے میرے ذمہ شمار کیا ہے اور میں اپنی سہل انگاری کی وجہ سے اسے بجا نہ لایا، لہٰذا اپنی وسیع بخشش اور کثیر رحمت کے پیش نظر اس (کمی) کو پورا کر دے، اس لئے کہ تو تونگر و کریم ہے، تاکہ اے میرے پروردگار! جس دن میں تیری ملاقات کروں اس میں سے کوئی ایسی بات میرے ذمہ باقی نہ رہے کہ تو اس کے مقابلہ میں یہ چاہے کہ میری نیکیوں میں کمی یا میری بدیوں میں اضافہ کر دے۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ ارْزُقْنِی الرَّغْبَةَ فِی الْعَمَلِ لَكَ لِاٰخِرَتِیْ، حَتّٰۤى اَعْرِفَ صِدْقَ ذٰلِكَ مِنْ قَلْبِیْ، وَ حَتّٰى یَكُوْنَ الْغَالِبُ عَلَیَّ الزُّهْدَ فِیْ دُنْیَایَ، وَ حَتّٰۤى اَعْمَلَ الْحَسَنَاتِ شَوْقًا، وَ اٰمَنَ مِنَ السَّیِّئَاتِ فَرَقًا وَّ خَوْفًا، وَ هَبْ لِیْ نُوْرًا اَمْشِیْ بِهٖ فِی النَّاسِ، وَ اَهْتَدِیْ بِهٖ فِی الظُّلُمَاتِ، وَ اَسْتَضِیْٓءُ بِهٖ مِنَ الشَّكِّ وَ الشُّبُهَاتِ.
اے اللہ! رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور آخرت کے پیش نظر صرف اپنے لئے عمل کی رغبت عطا کر یہاں تک کہ میں اپنے دل میں اس کی صحت کا احساس کر لوں، اور دنیا میں زہد و بے رغبتی کا جذبہ مجھ پر غالب آجائے اور نیک کام شوق سے کروں اور خوف و ہراس کی وجہ سے برے کاموں سے محفوظ رہوں، اور مجھے ایسا نور (علم و دانش) عطا کر جس کے پرتو میں لوگوں کے درمیان(بے کھٹکے) چلوں پھروں اور اس کے ذریعہ تاریکیوں میں ہدایت پاؤں اور شکوک و شبہات کے دھندلکوں میں روشنی حاصل کروں۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ ارْزُقْنِیْ خَوْفَ غَمِّ الْوَعِیْدِ، وَ شَوْقَ ثَوَابِ الْمَوْعُوْدِ حَتّٰۤى اَجِدَ لَذَّةَ مَاۤ اَدْعُوْكَ لَهٗ، وَ كَاْبَةَ مَاۤ اَسْتَجِیْرُ بِكَ مِنْهُ.
اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور اندوہِ عذاب کا خوف اور ثواب آخرت کا شوق میرے اندر پیدا کر دے، تاکہ جس چیز کا تجھ سے طالب ہوں اس کی لذت اور جس سے پناہ مانگتا ہوں اس کی تلخی محسوس کر سکوں۔
اَللّٰهُمَّ قَدْ تَعْلَمُ مَا یُصْلِحُنِیْ مِنْ اَمْرِ دُنْیَایَ وَ اٰخِرَتِیْ، فَكُن بِحَوَآئِجِیْ حَفِیًّا.
بار الٰہا! جن چیزوں سے میرے دینی اور دنیوی امور کی بہبودی وابستہ ہے تو انہیں خوب جانتا ہے، لہٰذا میری حاجتوں کی طرف خاص توجہ فرما۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ ارْزُقْنِی الْحَقَّ عِنْدَ تَقْصِیْرِیْ فِی الشُّكْرِ لَكَ بِمَاۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ فِی الْیُسْرِ وَ الْعُسْرِ، وَ الصِّحَّةِ وَ السَّقَمِ، حَتّٰۤى اَتَعَرَّفَ مِنْ نَّفْسِیْ رَوْحَ الرِّضَا وَ طُمَاْنِیْنَةَ النَّفْسِ مِنِّیْ، بِمَا یَجِبُ لَكَ فِیْمَا یَحْدُثُ فِیْ حَالِ الْخَوْفِ وَ الْاَمْنِ، وَ الرِّضَا وَ السُّخْطِ، وَ الضَّرِّ وَ النَّفْعِ.
اے اللہ! رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور خوشحالی و تنگدستی اور صحت و بیماری میں جو نعمتیں تو نے بخشی ہیں ان پر ادائے شکر میں کوتاہی کے وقت مجھے اعتراف حق کی توفیق عطا کر، تاکہ میں خوف و امن، رضا و غضب اور نفع و نقصان کے موقع پر تیرے حقوق و وظائف کے انجام دینے میں مسرت قلبی و اطمینانِ نفس محسوس کروں۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ ارْزُقْنِیْ سَلَامَةَ الصَّدْرِ مِنَ الْحَسَدِ حَتّٰى لَاۤ اَحْسُدَ اَحَدًا مِّنْ خَلْقِكَ عَلٰى شَیْءٍ مِّنْ فَضْلِكَ، وَ حَتَّى لَاۤ اَرٰى نِعْمَةً مِّنْ نِّعَمِكَ عَلٰۤى اَحَدٍ مِّنْ خَلْقِكَ فِیْ دِیْنٍ اَوْ دُنْیَا، اَوْ عَافِیَةٍ اَوْ تَقْوٰى، اَوْ سَعَةٍ اَوْ رَخَآءٍ، اِلَّا رَجَوْتُ لِنَفْسِیْۤ اَفْضَلَ ذٰلِكَ بِكَ وَ مِنْكَ، وَحْدَكَ لَا شَرِیْكَ لَكَ.
اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور میرے سینہ کو حسد سے پاک کر دے تاکہ میں مخلوقات میں سے کسی ایک پر اس چیز کی وجہ سے جو تو نے اسے اپنے فضل و کرم سے عطا کی ہے حسد نہ کروں، یہاں تک کہ میں تیری نعمتوں میں سے کوئی نعمت، وہ دین سے متعلق ہو یا دنیا سے، عافیت سے متعلق ہو یا تقویٰ سے، وسعت رزق سے متعلق ہو یا آسائش سے، مخلوقات میں سے کسی ایک کے پاس نہ دیکھوں مگر یہ کہ تیرے وسیلہ سے، اور تجھ سے اے خدائے یگانہ و لا شریک اس سے بہتر کی اپنے لئے آرزو کروں۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ ارْزُقْنِی التَّحَفُّظَ مِنَ الْخَطَایَا، وَ الِاحْتِرَاسَ مِنَ الزَّلَلِ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ فِیْ حَالِ الرِّضَا وَ الْغَضَبِ، حَتّٰۤى اَكُوْنَ بِمَا یَرِدُ عَلَیَّ مِنْهُمَا بِمَنْزِلَةٍ سَوَآءٍ، عَامِلًا بِطَاعَتِكَ، مُؤْثِرًا لِّرِضَاكَ عَلٰى مَا سِوَاهُمَا فِی الْاَوْلِیَآءِ وَ الْاَعْدَآءِ، حَتّٰى یَاْمَنَ عَدُوِّیْ مِنْ ظُلْمِیْ وَ جَوْرِیْ، وَ یَیْاَسَ وَلِیِّیْ مِنْ مَّیْلِیْ وَ انْحِطَاطِ هَوَایَ، وَ اجْعَلْنِیْ مِمَّنْ یَّدْعُوْكَ مُخْلِصًا فِی الرَّخَآءِ، دُعَآءَ الْمُخْلِصِیْنَ الْمُضْطَرِّیْنَ لَكَ فِی الدُّعَآءِ، اِنَّكَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.
اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور دنیا و آخرت کے امور میں خواہ خوشنودی کی حالت ہو یا غضب کی، مجھے خطاؤں سے تحفظ اور لغزشوں سے اجتناب کی توفیق عطا فرما، یہاں تک کہ غضب و رضا کی جو حالت پیش آئے میری حالت یکساں رہے اور تیری اطاعت پر عمل پیرا رہوں، اور دوست و دشمن کے بارے میں تیری رضا اور اطاعت کو دوسری چیزوں پر مقدم کروں، یہاں تک کہ دشمن کو میرے ظلم و جور کا کوئی اندیشہ نہ رہے، اور میرے دوست کو بھی جنبہ داری اور دوستی کی رو میں بہ جانے سے مایوسی ہو جائے، اور مجھے ان لوگوں میں قرار دے جو راحت و آسائش کے زمانہ میں پورے اخلاص کے ساتھ ان مخلصین کی طرح دُعا مانگتے ہیں جو اضطرار و بیچارگی کے عالم میں دست بہ دُعا رہتے ہیں، بے شک تو قابل ستائش اور بزرگ و برتر ہے۔
–٭٭–
دنیا کی مصیبت و ابتلا اور زمانے کی شدت و سختی سے کم و بیش ہر شخص کو دو چار ہونا پڑتا ہے۔ ایسے وقت میں ضابط سے ضابط انسان بھی بے صبری کا مظاہرہ کر بیٹھتا ہے اور مصیبتوں سے گھبرا کر کبھی مقدر کا گلہ کرتا ہے، کبھی فلک کج رفتار کا، کبھی زمانہ کا شکوہ کرتا ہے اور کبھی اہل زمانہ کا۔اور بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو زمانہ کی اونچ نیچ میں اپنی سطح کو ہموار رکھ سکیں اور یہ طبیعت بشری کا خاصہ ہے کہ وہ مصیبت سے متاثر ہو۔ اور مصیبت کو مصیبت نہ سمجھنا تو فطرت کے خلاف ہے، لیکن اس تاثر پر صبر و ضبط سے قابو پا لینا مصیبت کے احساس کو کم کر دیتا ہے اور بے صبری سے اس کی تلخی بڑھ جاتی ہے۔ اس لئے رنج و اندوہ کے موقع پر صبرو ضبط سے کام لے اور دوسرے مصیبت زدہ لوگوں کو دیکھ کر اپنے لئے تسلی کا سامان مہیا کرے۔
یہ مصائب وآلام جہاں تلخ کامی کا باعث ہوتے ہیں وہاں ایسے تعلیمی اسباق بھی ان سے حاصل ہوتے ہیں جو زندگی کی پر پیچ راہوں میں سعادت و کامرانی کی راہ دکھاتے ہیں۔ چنانچہ ان مصیبت ہی کے لمحوں سے آرام و راحت کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔کیونکہ جب تک دریا کی طغیانیوں اور سمندر کی طوفانی موجوں سے واسطہ نہ پڑے، ساحل کی پرسکون و بے خطر فضا کی قدر نہیں ہوتی۔ اور انہی مصائب و شدائد کے جھیل لے جانے سے صبر و استقامت کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے جو آیندہ کٹھن موقعوں پر کام آتی اور اضطراب و پریشانی سے بچا لے جاتی ہے اور مصیبت ہی کے موقع پر دوستوں، عزیزوں کی آزمائش ہوتی ہے جو انسان کو محتاط بنا دیتی ہے۔
اور ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے نخوت و رعونت کے جذبات کو ٹھیس لگتی ہے اور عجز و بے بسی کا احساس شکستگی و انکسار کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ اگر زندگی کے لمحات سکون و اطمینان ہی کا گہوارہ بنے رہیں اور راحت و آسائش کے تمام سامان مہیا اور تمنائیں اور آرزوئیں کامیابی سے ہمکنار رہیں تو لازما دنیا سے وابستگی کا جذبہ زیادہ ہو گا اور اس سے رخ موڑنا انتہائی رنج و الم اور حسرت و اندوہ کا باعث ہو گا۔ اس کے بر عکس اگر زندگی مصائب و آلام کی گود میں کروٹیں لے تو دنیا سے دلچسپی و وابستگی کا احساس کم ہو گا اور جوں جوں مصیبتیں بڑھیں گی دل زیادہ اُچاٹ ہو گا اور دنیا ایک قید خانہ معلوم دے گی اور دنیا کو چھوڑنے اور اس تنگنائے دہر سے نکلنے کا صدمہ چندان محسوس نہ ہو گا۔ جب ان مصائب کے نتیجہ میں دنیا سے رغبت کم ہو گی تو آخرت سے وابستگی لازماً بڑھے گی اور وہ دنیا کے آرام و سکون کو عارضی اور اس کے عیش کو ڈھلتی چھائوں سمجھ کر ابدی سکون کیلئے اللہ تعالیٰ سے اپنا رشتہ جوڑے گا۔
چنانچہ یہ دُعا شدت و سختی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی قوت و قدرت کی طرف متوجہ کر کے اس سے وابستگی کا درس دیتی ہے کہ انسان اپنی کارگزاری پر غرہ نہ کرے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و بالادستی کو نظر میں رکھے کہ وہ نفوس انسانی پر اتنا اختیار اور اقتدار رکھتا ہے کہ وہ خود اتنا اختیار نہیں رکھتے اور جتنا وہ ان کی درستی و اصلاح پر قادر ہے وہ خود اتنے قادر نہیں ہیں۔ کیونکہ ہر قوت و طاقت کا وہی سرچشمہ ہے اور کوئی قوت اس سے بالاتر متصور نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ انسان فاعل مختار ہے مگر جب تک قدرت کی طرف سے اسباب و ذرائع مہیا نہ ہوں وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ یہ ہاتھ پاؤں میں سکت، آنکھوں میں بینائی، کانوں میں شنوائی اسی کی بخشی ہوئی ہے اور اسی نے حواس کے چراغ روشن کئے اور عقل و شعور کی قوتیں دی ہیں۔ لہٰذا جو قدم اٹھے گا اسی کی دی ہوئی قوت سے اور جو کام سرانجام پائے گا اسی کی دی ہوئی صحت اور توانائی سے۔ خود انسان نہ اپنے مصالح کو سمجھ سکتا ہے نہ اپنے سود و زیاں پر اختیار رکھتا ہے۔ نہ ابتلا و مصیبت کے دھارے کو موڑ سکتا ہے نہ فقر و احتیاج کو دور کر سکتا ہے۔
اسی لئے حضرتؑ شدت و مصیبت اور فقر و بیچارگی کے مقابلہ میں اپنے عجز کا اظہار کرتے ہوئے اسی سے اپنے حوائج و مقاصد وابستہ کرتے ہیں۔ اس طرح کہ نہ کوئی واسطہ گوارا کیا ہے اور نہ کوئی سہارا ڈھونڈا ہے۔ اس لئے کہ جو حاجتیں دوسروں کے ذریعے پوری ہوتی ہیں ان میں احسان کی آمیزش ہوتی ہے اور جو بے منتِ خلق ملتا ہے وہ ہر کدورت سے پاک ہوتا ہے۔ اور فرائض و واجبات کی ادائیگی میں بھی اسی سے توفیق طلب کرتے ہیں۔ کیونکہ جب تک اس کی توفیق شامل حال نہ ہو ایک شمہ بھی اس کے حقوق کا ادا نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالی کے حقوق کے پہلو بہ پہلو حقوق الناس کا بھی ذکر کیا ہے۔ کیونکہ وہ حقوق اللہ سے اہمیت میں کم نہیں ہیں۔ بلکہ خداوند عالم اپنے حقوق کو تو معاف کر سکتا ہے مگر حقوق الناس کو نظر انداز نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص کسی کی برائی کرتا ہے تو اس وقت تک معاف نہیں کرتا جب تک صاحب حق خود معاف نہ کر دے۔ اور اگر معاف نہ کرے تو یہ گناہ اس سے برطرف نہیں ہو سکتا اور اس کی نیکیوں کو کم کر کے جس کی غیبت کی ہے اس کے نامہ اعمال میں درج کر دے گا۔
حضرتؑ نے اللہ تعالیٰ کے حقوق کو صرف دو لفظوں میں بیان کر دیا ہے: ایک ’’اطاعت‘‘ اور دوسرے ’’رضا‘‘۔ ’’اطاعت‘‘ یہ ہے کہ اس کے احکام کی پابندی کرے اور ’’رضا‘‘ یہ ہے کہ ہر خوشگوار و نا گوار کو حکمت و مصلحت الٰہی کے زیر اثر سمجھے اور اس پر خوش و خوشنود رہے، جس کے بعد نہ کسی چوکھٹ پر سر نیاز خم کرے گا نہ دنیا کی تلخیوں سے متاثر ہو گا اور اس طرح اپنی عبودیت کو کمال کی منزل تک پہنچا دے گا۔
اور آخر میں انسان کو غفلت سے ہوشیار رہنے کی تعلیم دی ہے کہ وہ عیش و تنعم کی راحتوں میں کھو کر مصیبت کی گھڑیوں کو فراموش نہ کرے، بلکہ راحت و آسائش کے دنوں میں بھی فقر و احتیاج اور مصیبت و ابتلا سے پناہ مانگتا رہے۔ کیونکہ امن و اطمینان کے موقع پر جو دُعا مانگی جاتی ہے وہ برے وقت میں ہر مصیبت و افتاد سے سپر بن جایا کرتی ہے۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
اِنَّ الدُّعَآءَ فِی الرَّخَآءِ يَسْتَخْرِجُ الْحَوَآئِجَ فِی الْبَلَآءِ.
وسعت و کشائش کے موقع پر دُعا مصیبت کے موقع پر مقصد برآری کا ذریعہ ہوتی ہے۔[۱]
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ الکافی، ج ۲، ص ۴۷۲