صحیفہ کاملہ

25۔ اولاد کے حق میں حضرت کی دعا

(۲۵) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

لِوُلْدِهٖ عَلَیْهِمُ السَّلَامُ

اولاد کے حق میں حضرتؑ کی دُعا:

اَللّٰهُمَّ وَ مُنَّ عَلَیَّ بِبَقَآءِ وُلْدِیْ وَ بِاِصْلَاحِهِمْ لِیْ و بِاِمْتَاعِیْ بِهِمْ.

اے میرے معبود! میری اولاد کی بقا اور ان کی اصلاح اور ان سے بہرہ مندی کے سامان مہیا کر کے مجھے ممنون احسان فرما۔

اِلٰهِی امْدُدْ لِیْ فِیْۤ اَعْمَارِهِمْ، وَ زِدْ لِیْ فِیْۤ اٰجَالِهِمْ، وَ رَبِّ لِیْ صَغِیْرَهُمْ، وَ قَوِّ لِیْ ضَعِیْفَهُمْ، وَ اَصِحَّ لِیْ اَبْدَانَهُمْ وَ اَدْیَانَهُمْ وَ اَخْلَاقَهُمْ، وَ عَافِهِمْ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ وَ فِیْ جَوَارِحِهِمْ، وَ فِیْ كُلِّ مَا عُنِیْتُ بِهٖ مِنْ اَمْرِهٖمْ، وَ اَدْرِرْ لِیْ وَ عَلٰى یَدِیْۤ اَرْزَاقَهُمْ، وَ اجْعَلْهُمْ اَبْرَارًاۤ اَتْقِیَآءَ بُصَرَآءَ، سَامِعِیْنَ مُطِیْعِیْنَ لَكَ، وَ لِاَوْلِیَآئِكَ مُحِبِّیْنَ مُنَاصِحِیْنَ، وَ لِجَمِیْعِ اَعْدَآئِكَ مُعَانِدِیْنَ وَ مُبْغِضِیْنَ، اٰمِینَ.

(اے میرے معبود!) میرے سہارے کیلئے ان کی عمروں میں برکت اور زندگیوں میں طول دے، اور ان میں سے چھوٹوں کی پرورش فرما، اور کمزوروں کو توانائی دے، اور ان کی جسمانی، ایمانی اور اخلاقی حالت کو درست فرما، اور ان کے جسم و جان اور ان کے دوسرے معاملات میں جن میں مجھے اہتمام کرنا پڑے انہیں عافیت سے ہمکنار رکھ، اور میرے لئے اور میرے ذریعہ ان کیلئے رزق فراواں جاری کر، اور انہیں نیکوکار، پرہیزگار، روشن دل، حق نیوش اور اپنا فرمانبردار، اور اپنے دوستوں کا دوست و خیر خواہ، اور اپنے تمام دشمنوں کا دشمن و بدخواہ قرار دے، آمین!

اَللّٰهُمَّ اشْدُدْ بِهِمْ عَضُدِیْ، وَ اَقِمْ بِهِمْ اَوَدِیْ، وَ كَثِّرْ بِهِمْ عَدَدِیْ، وَ زَیِّنْ بِهِمْ مَّحْضَرِیْ، وَ اَحْیِ بِهِمْ ذِكْرِیْ، وَ اكْفِنِیْ بِهِمْ فِیْ غَیْبَتِیْ، وَ اَعِنِّیْ بِهِمْ عَلٰى حَاجَتِیْ، وَ اجْعَلْهُمْ لِیْ مُحِبِّیْنَ، وَ عَلَیَّ حَدِبِیْنَ مُقْبِلِیْنَ مُسْتَقِیْمِیْنَ لِیْ، مُطِیْعِیْنَ غَیْرَ عَاصِیْنَ، وَ لَا عَاقِّیْنَ وَ لَا مُخَالِفِیْنَ وَ لَا خَاطِئِیْنَ، وَ اَعِنِّیْ عَلٰى تَرْبِیَتِھِمْ وَ تَاْدِیْبِهِمْ، وَ بِرِّهِمْ، وَ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ مَعَهُمْ اَوْلَادًا ذُكُوْرًا، وَ اجْعَلْ ذٰلِكَ خَیْرًا لِیْ، وَ اجْعَلْهُمْ لِیْ عَوْنًا عَلٰى مَا سَئَلْتُكَ.

اے اللہ! ان کے ذریعہ میرے بازؤوں کو قوی، اور میری پریشان حالی کی اصلاح، اور ان کی وجہ سے میری جمعیت میں اضافہ، اور میری مجلس کی رونق دوبالا فرما، اور ان کی بدولت میرا نام زندہ رکھ، اور میری عدم موجودگی میں انہیں میرا قائم مقام قرار دے، اور ان کے وسیلہ سے میری حاجتوں میں میری مدد فرما، اور انہیں میرے لئے دوست، مہربان، ہمہ تن متوجہ ،ثابت قدم اور فرمانبردار قرار دے، وہ نافرمان، سرکش، مخالف و خطاکار نہ ہوں، اور ان کی تربیت و تادیب اور ان سے اچھے برتاؤ میں میری مدد فرما، اور ان کے علاوہ بھی مجھے اپنے خزانۂ رحمت سے نرینہ اولاد عطا کر، اور انہیں میرے لئے سراپا خیر و برکت قرار دے، اور انہیں ان چیزوں میں جن کا میں طلبگار ہوں میرا مدد گار بنا۔

وَ اَعِذْنِیْ وَ ذُرِّیَّتِیْ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ، فَاِنَّكَ خَلَقْتَنَا وَ اَمَرْتَنَا وَ نَهَیْتَنَا، وَ رَغَّبْتَنَا فِیْ ثَوَابِ مَاۤ اَمَرْتَنَا وَ رَهَّبْتَنَا عِقَابَهٗ، وَ جَعَلْتَ لَنا عَدُوًّا یَّكِیْدُنَا، سَلَّطْتَهٗ مِنَّا عَلٰى مَا لَمْ تُسَلِّطْنَا عَلَیْهِ مِنْهُ، اَسْكَنْتَهٗ صُدُوْرَنَا، وَ اَجْرَیْتَهٗ مَجَارِیَ دِمَآئِنَا، لَا یَغْفُلُ اِنْ غَفَلْنَا، وَ لَا یَنْسٰى اِنْ نَّسِیْنَا، یُؤْمِنُنَا عِقَابَكَ، وَ یُخَوِّفُنَا بِغَیْرِكَ.

اور مجھے اور میری ذریت کو شیطان مردود سے پناہ دے، اس لئے کہ تو نے ہمیں پیدا کیا اور امر و نہی کی، اور جو حکم دیا اس کے ثواب کی طرف راغب کیا، اور جس سے منع کیا اس کے عذاب سے ڈرایا، اور ہمارا ایک دشمن بنایا جو ہم سے مکر کرتا ہے اور جتنا ہماری چیزوں پر اسے تسلط دیا ہے، اتنا ہمیں اس کی کسی چیز پر تسلط نہیں دیا، اس طرح کہ اسے ہمارے سینوں میں ٹھہرا دیا، اور ہمارے رگ و پے میں دوڑا دیا، ہم غافل ہو جائیں مگر وہ غافل نہیں ہوتا، ہم بھول جائیں مگر وہ نہیں بھولتا، وہ ہمیں تیرے عذاب سے مطمئن کرتا اور تیرے علاوہ دوسروں سے ڈراتا ہے۔

اِنْ هَمَمْنَا بِفَاحِشَةٍ شَجَّعَنَا عَلَیْهَا، وَ اِنْ هَمَمْنَا بِعَمَلٍ صَالِحٍ ثَبَّطَنَا عَنْهُ، یَتَعَرَّضُ لَنا بِالشَّهَوَاتِ، وَ یَنْصِبُ لَنا بِالشُّبُهَاتِ، اِنْ وَّعَدَنَا كَذَبَنَا، وَ اِنْ مَنَّانَاۤ اَخْلَفَنَا، وَ اِلَّا تَصْرِفْ عَنَّا كَیْدَهٗ یُضِلَّنَا، وَ اِلَّا تَقِنَا خَبَالَهٗ یَسْتَزِلَّنَا.

اگر ہم کسی برائی کا ارادہ کرتے ہیں تو وہ ہماری ہمت بندھاتا ہے، اور اگر کسی عمل خیر کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمیں اس سے باز رکھتا ہے، اور گناہوں کی دعوت دیتا اور ہمارے سامنے شبہے کھڑے کر دیتا ہے، اگر وعدہ کرتا ہے تو جھوٹا، اور امید دلاتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے، اگر تو اس کے مکر کو نہ ہٹائے تو وہ ہمیں گمراہ کر کے چھوڑے گا، اور اس کے فتنوں سے نہ بچائے تو وہ ہمیں ڈگما دے گا۔

اَللّٰهُمَّ فَاقْهَرْ سُلْطَانَهٗ عَنَّا بِسُلْطَانِكَ، حَتّٰى تَحْبِسَهٗ عَنَّا بِكَثْرَةِ الدُّعَآءِ لَكَ، فَنُصْبِحَ مِنْ كَیْدِهٖ فِی الْمَعْصُوْمِیْنَ بِكَ.

خدایا! اس (لعین) کے تسلط کو اپنی قوت و توانائی کے ذریعہ ہم سے دفع کر دے تاکہ کثرت دُعا کے وسیلہ سے اسے ہماری راہ ہی سے ہٹا دے، اور ہم اس کی مکاریوں سے محفوظ ہو جائیں۔

اَللّٰهُمَّ اَعْطِنِیْ كُلَّ سُؤْلِیْ، وَ اقْضِ لِیْ حَوَآئِجِیْ، وَ لَا تَمْنَعْنِی الْاِجَابَةَ وَ قَدْ ضَمِنْتَهَا لِیْ، وَ لَا تَحْجُبْ دُعَآئِیْ عَنْكَ وَ قَدْ اَمَرْتَنِیْ بِهٖ، وَ امْنُنْ عَلَیَّ بِكُلِّ مَا یُصْلِحُنِیْ فِیْ دُنْیَایَ وَ اٰخِرَتِیْ مَا ذَكَرْتُ مِنْهُ وَ مَا نَسِیْتُ، اَوْ اَظْهَرْتُ اَوْ اَخْفَیْتُ اَوْ اَعْلَنْتُ اَوْ اَسْرَرْتُ، وَ اجْعَلْنِیْ فِیْ جَمِیْعِ ذٰلِكَ مِنَ الْمُصْلِحِیْنَ بِسُؤَالِیْۤ اِیَّاكَ، الْمُنْجِحِیْنَ بِالطَّلَبِ اِلَیْكَ غَیْرِ الْمَمْنُوْعِیْنَ بِالتَّوَكُّلِ عَلَیْكَ، الْمُعَوَّدِیْنَ بِالتَّعَوُّذِ بِكَ، الرَّابِحِیْنَ فِی التِّجَارَةِ عَلَیْكَ، الْمُجَارِیْنَ بِعِزِّكَ، الْمُوَسَّعِ عَلَیْهِمُ الرِّزْقُ الْحَلَالُ مِنْ فَضْلِكَ، الْوَاسِعِ بِجُوْدِكَ وَ كَرَمِكَ، الْمُعَزِّیْنَ مِنَ الذُّلِّ بِكَ، وَ الْمُجَارِیْنَ مِنَ الظُّلْمِ بِعَدْلِكَ، وَ الْمُعَافَیْنَ مِنَ الْبَلَآءِ بِرَحْمَتِكَ، وَ الْمُغْنَیْنَ مِنَ الْفَقْرِ بِغِنَاكَ، وَ الْمَعْصُوْمِیْنَ مِنَ الذُّنُوْبِ وَ الزَّلَلِ وَ الْخَطَآءِ بِتَقْوَاكَ، وَ الْمُوَفَّقِینَ لِلْخَیْرِ وَ الرُّشْدِ وَ الصَّوَابِ بِطَاعَتِكَ، وَ الْمُحَالِ بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ الذُّنُوْبِ بِقُدْرَتِكَ، التَّارِكِیْنَ لِكُلِّ مَعْصِیَتِكَ، السَّاكِنِیْنَ فِیْ جِوَارِكَ.

اے اللہ! میری ہر درخواست کو قبول فرما، اور میری حاجتیں برلا، اور جبکہ تو نے استجابتِ دُعا کا ذمہ لیا ہے تو میری دُعا کو رد نہ کر، اور جبکہ تو نے مجھے دُعا کا حکم دیا ہے تو میری دُعا کو اپنی بارگاہ سے روک نہ دے، اور جن چیزوں سے میرا دینی و دنیوی مفاد وابستہ ہے ان کی تکمیل سے مجھ پر احسان فرما، جو یاد ہوں اور جو بھول گیا ہوں، ظاہر کی ہوں، یا پوشیدہ رہنے دی ہوں، علانیہ طلب کی ہوں یا در پردہ، ان تمام صورتوں میں اس وجہ سے کہ تجھ سے سوال کیا ہے (نیت و عمل کی) اصلاح کرنے والوں، اور اس بنا پر کہ تجھ سے طلب کیا ہے کامیاب ہونے والوں، اور اس سبب سے کہ تجھ پر بھروسا کیا ہے غیر مسترد ہونے والوں میں سے قرار دے، اور (ان لوگوں میں شمار کر) جو تیرے دامن میں پناہ لینے کے خوگر، تجھ سے بیوپار میں فائدہ اٹھانے والے، اور تیرے دامن عزت میں پناہ گزیں ہیں، جنہیں تیرے ہمہ گیر فضل اور جود و کرم سے رزق حلال میں فراوانی حاصل ہوئی ہے، اور تیری وجہ سے ذلت سے عزت تک پہنچے ہیں، اور تیرے عدل و انصاف کے دامن میں ظلم سے پناہ لی ہے، اور رحمت کے ذریعہ بلا و مصیبت سے محفوظ ہیں، اور تیری بے نیازی کی وجہ سے فقیر سے غنی ہو چکے ہیں، اور تیرے تقویٰ کی وجہ سے گناہوں، لغزشوں اور خطاؤں سے معصوم ہیں، اور تیری اطاعت کی وجہ سے خیر و رشد و صواب کی توفیق انہیں حاصل ہے، اور تیری قدرت سے ان کے اور گناہوں کے درمیان پردہ حائل ہے، اور جو تمام گناہوں سے دست بردار اور تیرے جوارِ رحمت میں مقیم ہیں۔

اَللّٰهُمَّ اَعْطِنَا جَمِیْعَ ذٰلِكَ بِتَوْفِیْقِكَ وَ رَحْمَتِكَ، وَ اَعِذْنَا مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ، وَ اَعْطِ جَمِیْعَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمَاتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ، مِثْلَ الَّذِیْ سَئَلْتُكَ لِنَفْسِیْ وَ لِوُلْدِیْ فِیْ عَاجِلِ الدُّنْیَا وَ اٰجِلِ الْاٰخِرَةِ، اِنَّكَ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ، سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ، عَفُوٌّ غَفُوْرٌ، رَءُوْفٌ رَحِیْمٌ، وَ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ.

بارالٰہا! اپنی توفیق و رحمت سے یہ تمام چیزیں ہمیں عطا فرما، اور دوزخ کے آزار سے پناہ دے، اور جن چیزوں کا میں نے اپنے لئے اور اپنی اولاد کیلئے سوال کیا ہے ایسی ہی چیزیں تمام مسلمین و مسلمات اور مؤمنین و مومنات کو دنیا و آخرت میں مرحمت فرما، اس لئے کہ تُو نزدیک اور دُعا کا قبول کرنے والا ہے، سننے والا اور جاننے والا ہے، معاف کرنے والا اور بخشنے والا اور شفیق و مہربان ہے، اور ہمیں دُنیا میں نیکی (توفیق عبادت) اور آخرت میں نیکی (بہشت جاوید) عطا کر، اور دوزخ کے عذاب سے بچائے رکھ۔

–٭٭–

فطرتِ انسانی کے حسیات اور طبیعت بشری کے جذبات میں سے زیادہ پر جوش، دیرپا اور نا قابل شکست اولاد کی محبت کا جذبہ ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اولاد گوشت پوست اور خون میں باپ کی شریک اور اسی کا ایک جز ہوتی ہے۔ اس لئے اسے کبھی نورِ دیدہ، کبھی پارۂ دل اور کبھی لخت جگر سے تعبیر کرتا ہے۔ چنانچہ عرب کا ایک شاعر کہتا ہے:

وَ اِنَّمَاۤ اَوْلَادُنَا بَيْنَنَا

اَكْبَادُنَا تَمْشِیْ عَلَى الْاَرْضِ

’’یہ ہمارے گرد و پیش ہمارے بچے، ہمارے جگر پارے ہیں جو زمین پر چل پھر رہے ہیں۔[۱]

اس فطری لگاؤ اور طبعی جذبہ کی بنا پر باپ خلوص اور بے لوثی کا وہ کردار پیش کرتا ہے جس کی مثال دوسرے روابط و تعلقات میں نظر نہیں آتی۔ وہ اس کی تعلیم و تربیت میں اپنا وقت، اپنی کاوش اور اپنی دولت بے دریغ صرف کرتا ہے، تا کہ اس کی زیست کا قصر بلند اقدار پر استوار ہو، مگر بعض اوقات غلط اور نا مکمل تربیت کی وجہ سے اولاد بے راہ ہو جاتی ہے۔ شروع شروع میں لاڈ چاؤ اور پیار میں اس کی بری حرکتوں کی طرف توجہ نہیں دی جاتی اور جب بری عادتیں راسخ ہو جاتی ہیں تو پھر دریا کا دھارا موڑنے کی سعی لاحاصل کی جاتی ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ابتدا ہی میں ایسی تعلیم و تربیت دی جائے جو ایک صحت مند ذہنیت کی تشکیل کرے اور غلط اندازِ فکر سے آشنا ہی نہ ہونے دے۔ کیونکہ ابتدا میں بچے کے ذہن میں جو نقش بٹھا دیا جاتا ہے وہ ہمیشہ کیلئے بیٹھ جاتا ہے۔

تعلیم و تربیت کے موقع پر صرف دنیوی ترقی کے پہلو پر نظر نہ ہونا چاہیے، بلکہ اس کے ساتھ دینی و اخلاقی زندگی کے سنوارنے کا بھی سامان کرنا چاہیے اور شروع ہی میں دین و مذہب کی اہمیت، خدا کی عظمت اور غرض خلقت کو ذہن نشین کرانا چاہیے تا کہ آگے بڑھ کر یہ تاثرات زندگی کے ہر گوشے میں کارفرما رہیں۔اس کے ساتھ بڑوں کی عزت، بزرگوں کا احترام، ہم جولیوں سے پیار محبت اور دوسروں سے ہمدردی و غمخواری کی تعلیم دے۔ بری صحبت سے دور رکھے اور لڑائی جھگڑے، بے محل ہنسنے، کسی کا مذاق اڑانے، جھوٹ، گالی، غیبت، بے موقع چیخ پکار اور اول فول بکنے سے منع کرے اور اس کے حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھے۔ اور جب کسی بری بات سے روکنا چاہے تو اعتدال کی حد میں رہ کر سمجھائے اور تشدد وسختی سے کام نہ لے کہ اس کا بعض اوقات الٹا اثر ہوتا ہے اور وہ رد عمل کے طور پر اس عادت پر بضد ہو جاتا ہے۔

بہرحال حسن تربیت و تعلیم ہی اولاد کے ساتھ سب سے بڑی نیکی ہے اور ان کیلئے دُعا کرنا بھی ان کے ساتھ احسان کرنے میں شمار ہوتا ہے اور باپ کی دُعا اولاد کے حق میں منجملہ ان دُعاؤں کے ہے جو رد نہیں ہوتیں، چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرے والد بزرگوار کا ارشاد ہے کہ:

خَمْسُ دَعَوَاتٍ لَّا يُحْجَبْنَ عَنِ الرَّبِّ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰى: دَعْوَةُ الْاِمَامِ الْمُقْسِطِ، وَ دَعْوَةُ الْمَظْلُوْمِ يَقُوْلُ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ: لَاَنْتَقِمَنَّ لَكَ وَ لَوْ بَعْدَ حِيْنٍ، وَ دَعْوَةُ الْوَلَدِ الصَّالِحِ لِوَالِدَيْهِ، وَ دَعْوَةُ الْوَالِدِ الصَّالِحِ لِوَلَدِهٖ، وَ دَعْوَةُ الْمُؤْمِنِ لِاَخِيْهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ فَيَقُوْلُ: وَ لَكَ مِثْلُهٗ.

پانچ دُعائیں ایسی ہیں جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کبھی رد نہیں کرتا: امام عادل کی دُعا، مظلوم کی دُعا جب وہ دُعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں تیر انتقام لوں گا اگرچہ کچھ دیر ہو جائے، فرزند صالح کی دُعا ماں باپ کے حق میں، صالح باپ کی دُعا اولاد کے حق میں، مرد مومن کی دُعا اپنے کسی بھائی کیلئے اس کی غیبت میں۔ جب وہ دُعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جو تم نے اس کیلئے مانگا ہے اس سے دو گنا تمہارے لئے ہے۔[۲]

حضرتؑ کی یہ دُعا ایک نمونہ ہے کہ اولاد کیلئے کس طرح اور کیا دُعا کرے۔ اس دُعا میں وہ تمام چیزیں سمو دی گئی ہیں جو ایک صالح باپ اپنی صالح اولاد کیلئے طلب کر سکتا ہے۔ ان کیلئے زندگی، رزق، صحت اور قوت وتوانائی کی دُعا کی ہے، تا کہ وہ خلق خدا سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت میں مصروف رہیں اور روشن دل اور روشن خیال، بلند نفس، بلند کردار، اخلاق حسنہ س ےآراستہ، مطیع و فرمانبردار، خیر و سعادت کے خزینہ دار، دوستان خدا کے دوست، دشمنان خدا کے دشمن، اسلاف کی زینت اور باقیات الصالحات ثابت ہوں۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶، ص ۶۱

[۲]۔ الکافی، ج ۲، ص ۵۰۹

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button