29۔ تنگی رزق کے موقع پر پڑھنے کی دعا
(۲۹) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
اِذَا قُتِّرَ عَلَیْهِ الرِّزْقُ
جب رزق کی تنگی ہوتی تو یہ دُعا پڑھتے:
اَللّٰهُمَّ اِنَّكَ ابْتَلَیْتَنَا فِیْۤ اَرْزَاقِنَا بِسُوْٓءِ الظَّنِّ، وَ فِیْۤ اٰجَالِنَا بِطُوْلِ الْاَمَلِ، حَتَّى الْتَمَسْنَاۤ اَرْزَاقَكَ مِنْ عِنْدِ الْمَرْزُوْقِیْنَ، وَ طَمِعْنَا بِاٰمَالِنَا فِیْۤ اَعْمَارِ الْمُعَمَّرِیْنَ.
اے اللہ! تو نے رزق کے بارے میں بے یقینی سے اور زندگی کے بارے میں طول عمل سے ہماری آزمائش کی ہے، یہاں تک کہ ہم ان سے رزق طلب کرنے لگے جو تجھ سے رزق پانے والے ہیں، اور عمر رسیدہ لوگوں کی عمریں دیکھ کر ہم بھی درازی عمر کی آرزوئیں کرنے لگے۔
فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ هَبْ لَنا یَقِیْنًا صَادِقًا تَكْفِیْنَا بِهٖ مِنْ مَئُوْنَةِ الطَّلَبِ، وَ اَلْهِمْنَا ثِقَةً خَالِصَةً تُعْفِیْنَا بِهَا مِنْ شِدَّةِ النَّصَبِ وَ اجْعَلْ مَا صَرَّحْتَ بِهٖ مِنْ عِدَتِكَ فِیْ وَحْیِكَ، وَ اَتْبَعْتَهٗ مِنْ قَسَمِكَ فِیْ كِتَابِكَ، قَاطِعًا لِّاهْتِمَامِنَا بِالرِّزْقِ الَّذِیْ تَكَفَّلْتَ بِهٖ، وَ حَسْمًا لِّلِاشْتِغَالِ بِمَا ضَمِنْتَ الْكِفَایَةَ لَهٗ فَقُلْتَ وَ قَوْلُكَ الْحَقُّ الْاَصْدَقُ، وَ اَقْسَمْتَ وَ قَسَمُكَ الْاَبَرُّ الْاَوْفٰى: ﴿وَ فِی السَّمَآءِ رِزْقُكُمْ وَ مَا تُوْعَدُوْنَ﴾،ثُمَّ قُلْتَ: ﴿فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اِنَّهٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَاۤ اَنَّكُمْ تَنْطِقُوْنَ۠﴾.
اے اللہ !محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمیں ایسا پختہ یقین عطا کر جس کے ذریعہ تو ہمیں طلب و جستجو کی زحمت سے بچالے، اور خالص اطمینانی کیفیت ہمارے دلوں میں پیدا کر دے جو ہمیں رنج و سختی سے چھڑا لے، اور وحی کے ذریعہ جو واضح اور صاف وعدہ تو نے فرمایا ہے اور اپنی کتاب میں اس کے ساتھ ساتھ قسم بھی کھائی ہے، اسے اس روزی کے اہتمام سے جس کا تو ضامن ہے، سبکدوشی کا سبب قرار دے، اور جس روزی کا ذمہ تو نے لیا ہے اس کی مشغولیتوں سے علیحدگی کا وسیلہ بنا دے، چنانچہ تو نے فرمایا ہے اور تیرا قول حق اور بہت سچا ہے، اور تو نے قسم کھائی ہے اور تیری قسم سچی اور پوری ہونے والی ہے کہ: ”تمہاری روزی اور وہ کہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے آسمان میں ہے“، پھر تیرا ارشاد ہے: ”زمین و آسمان کے مالک کی قسم! یہ امر یقینی و قطعی ہے جیسے یہ کہ تم بول رہے ہو“۔
–٭٭–
وہ رازق و مربی جو شکم مادر اور زمانہ طفولیت میں جبکہ نہ ہاتھ پاؤں میں سکت ہوتی ہے نہ اکتسابِ رزق پر قدرت، نہ کار و کسب کا شعور ہوتا ہے نہ ذرائع معیشت پر اطلاع، محبت و شفقت کے سایہ میں بقائے زندگی کے تمام سر و سامان مہیا کرتا ہے تو وہ زندگی کے دوسرے ادوار میں کیونکر غفلت کرے گا؟ جبکہ وہی سب کا خالق اور سب کا روزی رساں ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
﴿يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللہِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ﴾
اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں تمہیں بخشی ہیں انہیں یاد کرو، کیا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور بھی خالق ہے جس نے تمہارے لئے آسمان و زمین مہیّا کیا ہے۔[۱]
لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت و مصلحت کبھی اس کی مقتضی ہوتی ہے کہ وہ اپنے خاص بندوں کو تنگیٔ معیشت میں مبتلا کرے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کے متعلق وارد ہوا ہے کہ: "کَانَ یَرْبَطُ حَجَرًا عَلٰى بَطْنِهٖ مِنَ الْجُوْعِ”: ’’گرسنگی کی وجہ سے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے‘‘[۲] اور فرمایا کرتے تھے کہ: ’’مجھے یہی پسند ہے کہ ایک دن سیر ہوں اور ایک دن بھوکا رہوں‘‘۔[۳]
اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام تنگیٔ معیشت میں مبتلا ہوئے، حالانکہ وہ اپنے زمانہ میں بڑے مالدار شمار ہوتے تھے۔ زمین تھی، باغات تھے، بار برداری کیلئے تین ہزار اونٹ، پانچ سو گدھے اور کھیتی باڑی کیلئے ایک ہزار بیل۔ اس کے علاوہ سات ہزار بھیڑیں اور خدمت و نگہداشت کیلئے چار سو نوکر تھے کہ اچانک حالات بدل جاتے ہیں، دولت جاتی رہتی ہے، مویشی لوٹ لئے جاتے ہیں ،اولاد بھی ایک ایک کر کے ختم ہو جاتی ہے، بیماری کی وجہ سے نقل و حرکت سے مجبور ہو جاتے ہیں اور زبان سے یہ فریاد نکلتی ہے کہ:
﴿اَنِّىْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ۸۳ۚۖ﴾
(پالنے والے!) میں دکھیا ہوں اور تو سب رحیموں سے زیادہ رحیم ہے۔[۴]
یونہی حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے انبیاء علی نبینا و علیہم الصلوٰۃ و السلام پر معاشی لحاظ سے آزمائشی دور آئے، مگر اس تنگی و عسرت میں اگر مانگا تو اللہ تعالیٰ سے اور دوسرے کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا۔اس ابتلاء و تنگیٔ معیشت سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے صبر و شکیب پر انہیں زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب دے اور وہ اللہ تعالیٰ سے لَو لگا کر اس سے تضرع و زاری کرتے رہیں۔
چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے:
اِنَّ اللّٰهَ لَيَبْتَلِی الْعَبْدَ وَ هُوَ يُحِبُّهٗ لِيَسْمَعَ تَضَرُّعَهٗ.
خدا اپنے بندے کو دوست رکھنے کے باوجود مبتلا کرتا ہے، تا کہ اس کے تضرع و زاری کی آوازیں سنے۔[۵]
عام انسانوں کی نگاہیں ایسے موقع پر اسباب و وسائل پر ہوتی ہیں، لیکن خاصان خدا اپنے علم و یقین کی روشنی میں یہ سمجھتے ہیں کہ اگر چہ اس نے رزق کو اسباب سے وابستہ کیا ہے، لیکن وہ جب چاہے ان اسباب کو بے نتیجہ بھی بنا دے سکتا ہے۔ اس لئے محض اسباب پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ایک شخص تجارت کو وسیلہ قرار دیتا ہے، مگر نفع کے بجائے نقصان ہوتا ہے اور یہی وسیلہ اصل سرمایہ کو بھی لے ڈوبتا ہے اور دوسرا زراعت کے ذریعہ رو زی حاصل کرنا چاہتا ہے تو کھڑی کھیتی کو برق و ژالہ باری تباہ کر دیتی ہے اور کبھی کھلیان کو آگ لگ جاتی ہے اور کئے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے۔ اگر یہ اسباب و وسائل ہی کافی ہوتے تو گھر میں تالا لگانے اور دربان چھوڑنے کے بعد چوری نہ ہوتی اور دشمن کے مقابلہ میں ہتھیار مہیّا کرنے کے بعد اس پر کامیابی یقینی ہوتی۔ حالانکہ اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے کہ تالا ٹوٹ جاتا ہے اور گھر کا اثاثہ لُٹ جاتا ہے اور ہتھیار کے ہوتے ہوئے دشمن سے شکست ہو جاتی ہے۔ یہ اس لئے کہ ایک قوت ان کو بے نتیجہ بنانے والی ہے۔ تو جن اسباب و وسائل کی باگ دوڑ دوسرے کے ہاتھ میں ہو ان پر اعتماد کیونکر کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو اسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں جب اللہ تعالیٰ کی مشیت بھی کارفرما ہو۔ لہٰذا اصل کارسازی اسی کی ہو گی جو ان اسباب کے نتیجہ خیز بنانے کی قدرت رکھتا ہے۔
اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ جب وہی کارساز و رزق رساں ہے تو پھر حرکت و عمل اور اسباب مہیا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کیونکہ یہ دنیا عالمِ اسباب ہے اور اسباب سے کلیۃً الگ نہیں رہا جا سکتا۔ اور یہ یقین رکھنا کہ یہ اسباب بھی اسی کے پیدا کر دہ ہیں اور اسی نے قو ائے عمل دیئے ہیں عین توکل ہے۔ اگر انسان ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائے تو یہ قوائے عمل ایسی نعمت کی ناشکری ہے جو ہمہ گیر ہونے کی صورت میں نظم عالم کی تباہی کا باعث ہے۔ اس دُعا کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اسباب سے قطع نظر کر لی جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان اسباب پر اعتماد کے بجائے خالق اسباب پر اعتماد رکھا جائے اور ان قوائے عمل کو صرف حصولِ رزق کیلئے وقف نہ کر دیا جائے، بلکہ ان سے اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کا بھی کام لیا جائے کہ یہی زندگی کا مقصود اصلی ہے۔
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ سورۂ بنی فاطر، آیت ۳
[۲]۔ شرح الکافی (اصول و الروضۃ)، ملا صالح مازندراری، ج ۸، ص ۳۵۶
[۴]۔ سورۂ انبیاء، آیت ۸۳
[۵]۔ ریاض السالکین، ج ۴، ص ۳۱۶