30۔ ادائے قرض کی دعا
(۳۰) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
فِی الْمَعُوْنَةِ عَلٰى قَضَآءِ الدَّیْنِ
ادائے قرض کے سلسہ میں اللہ تعالی سے طلب اعانت کی دُعا:
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ هَبْ لِیَ الْعَافِیَةَ مِنْ دَیْنٍ تُخْلِقُ بِهٖ وَجْهِیْ، وَ یَحَارُ فِیْهِ ذِهْنِیْ، وَ یَتَشَعَّبُ لَهٗ فِكْرِیْ، وَ یَطُوْلُ بِمُمَارَسَتِهٖ شُغْلِیْ.
اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے ایسے قرض سے نجات دے جس سے تو میری آبرو پر حرف آنے دے، اور میرا ذہن پریشان اور فکر پراگندہ رہے، اور اس کی فکر و تدبیر میں ہمہ وقت مشغول رہوں۔
وَ اَعُوْذُ بِكَ یَا رَبِّ مِنْ هَمِّ الدَّیْنِ وَ فِكْرِهٖ، وَ شُغْلِ الدَّیْنِ وَ سَهَرِهٖ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اَعِذْنِیْ مِنْهُ.
اے میرے پروردگار! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں قرض کے فکر و اندیشہ سے، اور اس کے جھمیلوں سے، اور اس کے باعث بے خوابی سے، تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے اس سے پناہ دے۔
وَ اَسْتَجِیْرُ بِكَ یَا رَبِّ مِنْ ذِلَّتِهٖ فِی الْحَیَاةِ، وَ مِنْ تَبِعَتِهٖ بَعْدَ الْوَفَاةِ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اَجِرْنیْ مِنْهُ بِوُسْعٍ فَاضِلٍ اَوْ كَفَافٍ وَاصِلٍ.
پروردگار! میں تجھ سے زندگی میں اس کی ذلت اور مرنے کے بعد اس کے وبال سے پناہ مانگتا ہوں، تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے مال و دولت کی فراوانی اور پیہم رزق رسانی کے ذریعہ اس سے چھٹکارا دے۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ احْجُبْنِیْ عَنِ السَّرَفِ وَ الِازْدِیَادِ، وَ قَوِّمْنِیْ بِالْبَذْلِ وَ الِاقْتِصَادِ، وَ عَلِّمْنِیْ حُسْنَ التَّقْدِیْرِ، وَ اقْبِضْنِیْ بِلُطْفِكَ عَنِ التَّبْذِیْرِ، وَ اَجْرِ مِنْ اَسْبَابِ الْحَلَالِ اَرْزَاقِیْ، وَ وَجِّهْ فِیْۤ اَبْوَابِ الْبِرِّ اِنْفَاقِیْ، وَ ازْوِ عَنِّیْ مِنَ الْمَالِ مَا یُحْدِثُ لِیْ، مَخِیْلَةً اَوْ تَاَدِّیًاۤ اِلٰى بَغْیٍ، اَوْ مَاۤ اَتَعَقَّبُ مِنْهُ طُغْیَانًا.
اے اللہ!محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے فضول خرچی اور مصارف کی زیادتی سے روک دے، اور عطا و میانہ روی کے ساتھ نقطہ اعتدال پر قائم رکھ، اور میرے لئے حلال طریقوں سے روزی کا سامان کر، اور میرے مال کا مصرف امور خیر میں قرار دے، اور اس مال کو مجھ سے دور ہی رکھ جو میرے اندر غرور و تمکنت پیدا کرے، یا ظلم کی راہ پر ڈال دے، یا اس کا نتیجہ طغیان و سرکشی ہو۔
اَللّٰهُمَّ حَبِّبْ اِلَیَّ صُحْبَةَ الْفُقَرَآءِ، وَ اَعِنِّیْ عَلٰى صُحْبَتِهِمْ بِحُسْنِ الصَّبْرِ ،وَ مَا زَوَیْتَ عَنِّیْ مِنْ مَّتَاعِ الدُّنْیَا الْفَانِیَةِ، فَاذْخَرْهُ لِیْ فِیْ خَزَآئِنِكَ الْبَاقِیَةِ، وَ اجْعَلْ مَا خَوَّلْتَنِیْ مِنْ حُطَامِهَا، وَ عَجَّلْتَ لِیْ مِنْ مَّتَاعِهَا بُلْغَةً اِلٰى جِوَارِكَ، وَ وُصْلَةً اِلٰى قُرْبِكَ، وَ ذَرِیْعَةً اِلٰى جَنَّتِكَ، اِنَّكَ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ، وَ اَنْتَ الْجَوَادُ الْكَرِیْمُ.
اے اللہ! درویشوں کی ہم نشینی میری نظروں میں پسندیدہ بنا دے، اور اطمینان افزا صبر کے ساتھ ان کی رفاقت اختیار کرنے میں میری مدد فرما، دنیائے فانی کے مال میں سے جو تو نے مجھ سے روک لیا ہے اسے اپنے باقی رہنے والے خزانوں میں میرے لئے ذخیرہ کر دے، اور اس کے ساز و برگ میں سے جو تو نے دیا ہے اور اس کے سر و سامان میں سے جو بہم پہنچایا ہے اسے اپنے جوار (رحمت) تک پہنچنے کا زادِ راہ، حصول تقرب کا وسیلہ اور جنّت تک رسائی کا ذریعہ قرار دے۔ اس لئے کہ تو فضل عظیم کا مالک اور سخی و کریم ہے۔
–٭٭–
اگر احساسات زندہ ہوں تو انسان مقروض ہونے کی صورت میں ایک لمحہ بھی اطمینان و یکسوئی سے بسر نہیں کر سکتا اور اس فکر و اندیشہ میں نہ رات کو آرام سے سو سکتا ہے نہ دن چین سے گزار سکتا ہے۔ اسے ہر وقت یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ نہ جانے کب قرض خواہ آ جائے اور مطالبہ شروع کر دے، یا کہیں راستہ میں گھیر لے اور سچ جھوٹ وعدوں سے بھی پیچھا چھڑانا مشکل ہو جائے۔ ایسے حالات میں یقیناً ذہن پریشان، خیالات پراگندہ اور طبیعت منتشر رہے گی اور اس بوجھ کے نیچے اپنے کو بے حس محسوس کرے گا۔ کیونکہ قرض کا ذہنی بوجھ مادی بوجھ سے کہیں زیادہ خستہ و ہلکان کر دیتا ہے۔
چنانچہ بزرگ مہر کا قول ہے کہ: ’’میں نے جنگل کے وزنی ہتھیاروں کو اٹھایا اور پتھروں کو لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے گیا۔ مگر میں نے قرض سے زیادہ کسی چیز کو بوجھل نہیں پایا‘‘۔
اور پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:
لَا وَجَعَ اِلَّا وَجَعُ الْعَيْنِ وَ لَا هَمَّ اِلَّا هَمُّ الدَّيْنِ.
درد چشم سے بڑھ کر کوئی درد اور اندوہِ قرض سے زیادہ کوئی اندوہ نہیں ہے۔[۱]
اور امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے:
اِيَّاكُمْ وَ الدَّيْنَ، فَاِنَّهٗ مَذَلَّةٌ بِالنَّهَارِ وَ مَهَمَّةٌ بِاللَّيْلِ وَ قَضَآءٌ فِی الدُّنْيَا وَ قَضَآءٌ فِی الْاٰخِرَةِ.
قرض سے بچے رہو، اس لئے کہ دن ہو تو یہ ذلّت و رسوائی کا سبب اور رات ہو تو غم و اندوہ کا سامان اور دنیا و آخرت میں واجب الاداء ہے۔[۲]
اس ذلت و رسوائی اور فکر و پریشانی سے وہی شخص بچ سکتا ہے جسے عزت نفس کا احساس ہو کہ وہ فقر و فاقہ کی سختیوں کو گوارا کر لے، تنگی و عسرت میں زندگی بسر کر لے، مگر قرض لے کر اپنی آبرو کو خطرہ میں نہ ڈالے۔ اور اگر کوئی شدید ضرورت مجبور کر دے تو بس اتنا قرض لے جس سے ضرورت رفع ہو جائے اور اسے جلد سے جلد ادا کرنے کی کوشش کرے۔ اور اگر سرے سے ادا کرنے کا ارادہ ہی نہ ہو تو ایسا شخص بمنزلۂ خائن و سارق کے ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
مَنِ اسْتَدَانَ فَلَمْ يَنْوِ قَضَآءَهٗ، كَانَ بِمَنْزِلَةِ السَّارِقِ.
جو شخص قرضہ لے اور ادا کرنے کی نیت نہ رکھتا ہو وہ بمنزلہ سارق ہے۔[۳]
اگر ارادہ ہو مگر کسی مجبوری کی وجہ سے وقت پر ادا نہ کر سکے تو وہ معذور قرار پائے گا۔ ایسی صورت میں قرض خواہ کو چاہیے کہ اسے مہلت دے اور سختی سے مطالبہ نہ کرے۔ ایسا کرنے سے اسے ہر روز اتنا ہی مال صدقہ کرنے کا ثواب حاصل ہو گا اور اگر وہ ادائے قرض سے بالکل ہی مجبور ہو جائے تو وہ عدم ادائیگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل مؤاخذہ نہیں ہو گا، بشرطیکہ اس مال کو حرام میں صرف نہ کیا ہو۔ اگر قرض خواہ اسے معاف کر دے تو وہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ اجر پانے کا مستحق ہو گا اور اگر معاف نہ کرے تو اللہ تعالیٰ صرف اسے اس کے قرض کا بدلہ دے گا۔
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ الکافی، ج ۵، ص ۱۰۱
[۲]۔ الکافی، ج ۵، ص ۹۵
[۳]۔ ہدایۃ الامۃ الی احکام الائمۃ علیہم السلام، ج ۶، ص ۲۱۵