صحیفہ کاملہ

31۔ دعائے توبہ

(۳۱) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

فِیْ ذِكْرِ التَّوْبَةِ وَ طَلَبِهَا

دُعائے توبہ:

اَللّٰهُمَّ یَا مَنْ لَّا یَصِفُهٗ نَعْتُ الْوَاصِفِیْنَ، وَ یَا مَنْ لَّا یُجَاوِزُهٗ رَجَآءُ الرَّاجِیْنَ وَ یَا مَنْ لَّا یَضِیْعُ لَدَیْهِ اَجْرُ الْمُحْسِنِیْنَ،‏ وَ یَا مَنْ هُوَ مُنْتَهٰى خَوْفِ الْعَابِدِیْنَ، وَ یَا مَنْ هُوَ غَایَةُ خَشْیَةِ الْمُتَّقِیْنَ.

اے معبود! اے وہ جس کی توصیف سے وصف کرنے والوں کے توصیفی الفاظ قاصر ہیں، اے وہ جو امیدواروں کی امیدوں کا مرکز ہے، اے وہ جس کے ہاں نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں ہوتا، اے وہ جو عبادت گزاروں کے خوف کی منزل منتہا ہے، اے وہ جو پرہیزگاروں کے بیم و ہراس کی حد آخر ہے۔

هٰذَا مَقَامُ مَنْ تَدَاوَلَـتْهُ اَیْدِی الذُّنُوْبِ، وَ قَادَتْهُ اَزِمَّةُ الْخَطَایَا، وَ اسْتَحْوَذَ عَلَیْهِ الشَّیْطٰنُ، فَقَصَّرَ عَمَّاۤ اَمَرْتَ بِهٖ تَفْرِیْطًا، وَ تَعَاطٰى مَا نَهَیْتَ عَنْهُ تَغْرِیْرًا، كَالْجَاهِلِ بِقُدْرَتِكَ عَلَیْهِ، اَوْ كَالْمُنْكِرِ فَضْلَ اِحْسَانِكَ اِلَیْهِ.

یہ اس شخص کا موقف ہے جو گناہوں کے ہاتھوں میں کھیلتا ہے، اور خطاؤں کی باگوں نے جسے کھینچ لیا ہے، اور جس پر شیطان غالب آ گیا ہے، اس لئے تیرے حکم سے لاپرواہی کرتے ہوئے اس نے (ادائے فرض) میں کوتاہی کی، اور فریب خوردگی کی وجہ سے تیرے منہیات کا مرتکب ہوتا ہے، گویا وہ اپنے کو تیرے قبضۂ قدرت میں سمجھتا ہی نہیں ہے، اور تیرے فضل و احسان کو جو تو نے اس پر کئے ہیں مانتا ہی نہیں ہے۔

حَتّٰۤى اِذَا انْفَتَحَ لَهٗ بَصَرُ الْهُدٰى، وَ تَقَشَّعَتْ عَنْهُ سَحَآئِبُ الْعَمٰى، اَحْصٰى مَا ظَلَمَ بِهٖ نَفْسَهٗ، وَ فَكَّرَ فِیْمَا خَالَفَ بِهٖ رَبَّهٗ، فَرَاٰى كَبِیْرَ عِصْیَانِهٖ كَبِیْرًا، وَ جَلِیْلَ مُخَالَفَتِهٖ جَلِیْلًا، فَاَقْبَلَ نَحْوَكَ مُؤَمِّلًا لَّكَ مُسْتَحْیِیًا مِّنْكَ، وَ وَجَّهَ رَغْبَتَهٗۤ اِلَیْكَ ثِقَةً بِكَ، فَاَمَّكَ بِطَمَعِهٖ یَقِیْنًا، وَ قَصَدَكَ بِخَوْفِهٖۤ اِخْلَاصًا، قَدْ خَلَا طَمَعُهٗ مِنْ كُلِّ مَطْمُوْعٍ فِیْهِ غَیْرِكَ، وَ اَفْرَخَ رَوْعُهٗ مِنْ كُلِّ مَحْذُوْرٍ مِّنْهُ سِوَاكَ.

مگر جب اس کی چشم بصیرت وا ہوئی اور اس کوری و بے بصری کے بادل اس کے سامنے سے چھٹے تو اس نے اپنے نفس پر کئے ہوئے ظلموں کا جائزہ لیا، اور جن جن موارد پر اپنے پروردگار کی مخالفتیں کی تھیں ان پر نظر دوڑائی تو اپنے بڑے گناہوں کو (واقعاً) بڑا اور اپنی عظیم مخالفتوں کو (حقیقتاً) عظیم پایا تو وہ اس حالت میں کہ تجھ سے امیدوار بھی ہے اور شرمسار بھی، تیری جانب متوجہ ہوا، اور تجھ پر اعتماد کرتے ہوئے تیری طرف راغب ہوا، اور یقین و اطمینان کے ساتھ اپنی خواہش و آرزو کو لے کر تیرا قصد کیا، اور (دل میں) تیرا خوف لئے ہوئے خلوص کے ساتھ تیری بارگاہ کا ارادہ کیا، اس حالت میں کہ تیرے علاوہ اسے کسی سے غرض نہ تھی اور تیرے سوا اسے کسی کا خوف نہ تھا۔

فَمَثَلَ بَیْنَ یَدَیْكَ مُتَضَرِّعًا، وَ غَمَّضَ بَصَرَهٗۤ اِلَى الْاَرْضِ مُتَخَشِّعًا، وَ طَاْطَاَ رَاْسَهٗ لِعِزَّتِكَ مُتَذَلِّلًا، وَ اَبَثَّكَ مِنْ سِرِّهٖ مَاۤ اَنْتَ اَعْلَمُ بِهٖ مِنْهُ خُضُوْعًا، وَ عَدَّدَ مِنْ ذُنُوْبِهٖ مَاۤ اَنْتَ اَحْصٰى لَهَا خُشُوْعًا، وَ اسْتَغَاثَ بِكَ مِنْ عَظِیْمِ مَا وَقَعَ بِهٖ فِیْ عِلْمِكَ، وَ قَبِیْحِ مَا فَضَحَهٗ فِیْ حُكْمِكَ: مِنْ ذُنُوْبٍ اَدْبَرَتْ لَذَّاتُهَا فَذَهَبَتْ، وَ اَقَامَتْ تَبِعَاتُهَا فَلَزِمَتْ.

چنانچہ وہ عاجزانہ صورت میں تیرے سامنے آکھڑا ہوا، اور فروتنی سے اپنی آنکھیں زمین میں گاڑ لیں، اور تذلل و انکسار سے تیری عظمت کے آگے سر جھکا لیا، اور عجز و نیاز مندی سے اپنے راز ہائے درون پردہ جنہیں تو اس سے بہتر جانتا ہے تیرے آگے کھول دیئے، اور عاجزی سے اپنے وہ گناہ جن کا تو اس سے زیادہ حساب رکھتا ہے ایک ایک کر کے شمار کئے، اور ان بڑے گناہوں سے جو تیرے علم میں اس کیلئے مہلک اور ان بداعمالیوں سے جو تیرے فیصلہ کے مطابق اس کیلئے رسوا کُن ہیں، داد و فریاد کرتا ہے، وہ گناہ کہ جن کی لذت جاتی رہی ہے اور ان کا وبال ہمیشہ کیلئے باقی رہ گیا ہے۔

لَا یُنْكِرُ- یَاۤ اِلٰهِیْ- عَدْلَكَ اِنْ عَاقَبْتَهٗ، وَ لَا یَسْتَعْظِمُ عَفْوَكَ اِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ وَ رَحِمْتَهٗ، لِاَنَّكَ الرَّبُّ الْكَرِیْمُ الَّذِیْ لَا یَتَعَاظَمُهٗ غُفْرَانُ الذَّنبِ الْعَظِیْمِ.

اے میرے معبود! اگر تو اس پر عذاب کرے تو وہ تیرے عدل کا منکر نہیں ہو گا، اور اگر اس سے درگزر کرے اور ترس کھائے تو وہ تیرے عفو کو کوئی عجیب اور بڑی بات نہیں سمجھے گا۔ اس لئے کہ تو وہ پروردگار کریم ہے، جس کے نزدیک بڑے سے بڑے گناہ کو بھی بخش دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔

اَللّٰهُمَّ فَهَاۤ اَنَا ذَا قَدْ جِئْتُكَ مُطِیْعًا لِّاَمْرِكَ فِیْمَاۤ اَمَرْتَ بِهٖ مِنَ الدُّعَآءِ، مُتَنَجِّزًا وَعْدَكَ فِیْمَا وَعَدْتَّ بِهٖ مِنَ الْاِجَابَةِ، اِذْ تَقُوْلُ: ﴿ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾.

اچھا تو اے میرے معبود! میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں، تیرے حکم دُعا کی اطاعت کرتے ہوئے اور تیرے وعدہ کا ایفا چاہتے ہوئے جو قبولیت دُعا کے متعلق تو نے اپنے اس ارشاد میں کیا ہے: ”مجھ سے دُعا مانگو تو میں تمہاری دُعا قبول کروں گا“۔

اَللّٰهُمَّ فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ الْقَنِیْ بِمَغْفِرَتِكَ كَمَا لَقِیْتُكَ بِاِقْرَارِیْ، وَ ارْفَعْنِیْ عَنْ مَّصَارِعِ الذُّنُوْبِ كَمَا وَضَعْتُ لَكَ نَفْسِیْ، وَ اسْتُرْنِیْ بِسِتْرِكَ كَمَا تَاَنَّیْتَنِیْ عَنِ الِانْتِقَامِ مِنِّیْ.

خداوندا! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور اپنی مغفرت میرے شامل حال کر جس طرح میں (اپنے گناہوں کا) اقرار کرتے ہوئے تیری طرف متوجہ ہوا ہوں، اور ان مقامات سے جہاں گناہوں سے مغلوب ہونا پڑتا ہے مجھے (سہارا دے کر) اوپر اٹھا لے جس طرح میں نے اپنے نفس کو تیرے آگے (خاک مذلت پر) ڈال دیا ہے، اور اپنے دامن رحمت سے میری پردہ پوشی فرما، جس طرح مجھ سے انتقام لینے میں صبر و حلم سے کام لیا ہے۔

اَللّٰهُمَّ وَ ثَبِّتْ فِیْ طَاعَتِكَ نِیَّتِیْ، وَ اَحْكِمْ فِیْ عِبَادَتِكَ بَصِیْرَتِیْ، وَ وَفِّقْنِیْ مِنَ الْاَعْمَالِ لِمَا تَغْسِلُ بِهٖ دَنَسَ الْخَطَایَا عَنِّیْ، وَ تَوَفَّنِیْ عَلٰى مِلَّتِكَ وَ مِلَّةِ نَبِیِّكَ: مُحَمَّدٍ- عَلَیْهِ السَّلَامُ- اِذَا تَوَفَّیْتَنِیْ.

اے اللہ! اپنی اطاعت میں میری نیت کو استوار، اور اپنی عبادت میں میری بصیرت کو قوی کر، اور مجھے ان اعمال کے بجالانے کی توفیق دے جن کے ذریعہ تو میرے گناہوں کے میل کو دھو ڈالے، اور جب مجھے دنیا سے اٹھائے تو اپنے دین اور اپنے نبی محمدﷺ کے آئین پر اٹھا۔

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اَتُوْبُ اِلَیْكَ فِیْ مَقَامِیْ هٰذَا مِنْ كَبَآئِرِ ذُنُوْبِیْ وَ صَغَآئِرِهَا، وَ بَوَاطِنِ سَیِّئَاتِیْ وَ ظَوَاهِرِهَا، وَ سَوَالِفِ زَلَّاتِیْ وَ حَوَادِثِهَا، تَوْبَةَ مَنْ لَّا یُحَدِّثُ نَفْسَهٗ بِمَعْصِیَةٍ، وَ لَا یُضْمِرُ اَنْ یَّعُوْدَ فِیْ خَطِیْٓئَةٍ وَ قَدْ قُلْتَ- یَاۤ اِلٰهِیْ- فِیْ مُحْكَمِ كِتَابِكَ: اِنَّكَ تَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِكَ، وَ تَعْفُوْ عَنِ السَّیِّئَاتِ، وَ تُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ، فَاقْبَلْ تَوْبَتِیْ كَمَا وَعَدْتَّ، وَ اعْفُ عَنْ سَیِّئَاتِیْ كَمَا ضَمِنْتَ، وَ اَوْجِبْ لِیْ مَحَبَّتَكَ كَمَا شَرَطْتَّ، وَ لَكَ- یَا رَبِّ- شَرْطِیْۤ اَلَّاۤ اَعُوْدَ فِیْ مَكْرُوْهِكَ، وَ ضَمَانِیْۤ اَنْ لَّاۤ اَرْجِعَ فِیْ مَذْمُوْمِكَ، وَ عَهْدِیْۤ اَنْ اَهْجُرَ جَمِیْعَ مَعَاصِیْكَ.

اے معبود! میں اس مقام پر اپنے چھوٹے بڑے گناہوں، پوشیدہ و آشکار معصیتوں اور گزشتہ و موجودہ لغزشوں سے توبہ کرتا ہوں، اس شخص کی سی توبہ جو دل میں معصیت کا خیال بھی نہ لائے اور گناہ کی طرف پلٹنے کا تصور بھی نہ کرے۔ خداوندا! تو نے اپنی محکم کتاب میں فرمایا ہے کہ: تو بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور گناہوں کو معاف کرتا ہے اور توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے، لہٰذا تو میری توبہ قبول فرما جیسا کہ تو نے وعدہ کیا ہے، اور میرے گناہوں کو معاف کر دے جیسا کہ تو نے ذمہ لیا ہے، اور حسب قرار داد اپنی محبت کو میرے لئے ضروری قرار دے، اور میں تجھ سے اے میرے پروردگار! یہ اقرار کرتا ہوں کہ تیری ناپسندیدہ باتوں کی طرف رخ نہیں کروں گا، اور یہ قول و قرار کرتا ہوں کہ قابلِ مذمت چیزوں کی طرف رجوع نہ کروں گا، اور یہ عہد کرتا ہوں کہ تیری تمام نافرمانیوں کو یکسر چھوڑ دوں گا۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّكَ اَعْلَمُ بِمَا عَمِلْتُ، فَاغْفِرْ لِیْ مَا عَلِمْتَ، وَ اصْرِفْنِیْ بِقُدْرَتِكَ اِلٰى مَاۤ اَحْبَبْتَ.

بارالٰہا! تو میرے عمل و کردار سے خوب آگاہ ہے، اب جو بھی تو جانتا ہے اسے بخش دے، اور اپنی قدرت کاملہ سے پسندیدہ چیزوں کی طرف مجھے موڑ دے۔

اَللّٰهُمَّ وَ عَلَیَّ تَبِعَاتٌ قَدْ حَفِظْتُهُنَّ، وَ تَبِعَاتٌ قَدْ نَسِیْتُهُنَّ، وَ كُلُّهُنَّ بِعَیْنِكَ الَّتِیْ لَا تَنَامُ، وَ عِلْمِكَ الَّذِیْ لَا یَنْسٰى، فَعَوِّضْ مِنْهَاۤ اَهْلَهَا، وَ احْطُطْ عَنِّیْ وِزْرَهَا، وَ خَفِّفْ عَنِّیْ ثِقْلَهَا، وَ اعْصِمْنِیْ مِنْ اَنْ اُقَارِفَ مِثْلَهَا.

اے اللہ! میرے ذمہ کتنے ایسے حقوق ہیں جو مجھے یاد ہیں، اور کتنے ایسے مظلمے ہیں جن پر نسیان کا پردہ پڑا ہوا ہے، لیکن وہ سب کے سب تیری آنکھوں کے سامنے ہیں،ایسی آنکھیں جو خواب آلودہ نہیں ہوتیں، اور تیرے علم میں ہیں، ایسا علم جس میں فرو گزاشت نہیں ہوتی، لہٰذا جن لوگوں کا مجھ پر کوئی حق ہے اس کا انہیں عوض دے کر اس کا بوجھ مجھ سے برطرف اور اس کا بار ہلکا کر دے اور مجھے پھر ویسے گناہوں کے ارتکاب سے محفوظ رکھ۔

اَللّٰهُمَّ وَ اِنَّهٗ لَا وَفَآءَ لِیْ بِالتَّوْبَةِ اِلَّا بِعِصْمَتِكَ، وَ لَا اسْتِمْسَاكَ بِیْ عَنِ الْخَطَایَاۤ اِلَّا عَنْ قُوَّتِكَ، فَقَوِّنِیْ بِقُوَّةٍ كَافِیَةٍ، وَ تَوَلَّنِیْ بِعِصْمَةٍ مَّانِعَةٍ.

اے اللہ! میں توبہ پر قائم نہیں رہ سکتا مگر تیری ہی نگرانی سے، اور گناہوں سے باز نہیں آسکتا مگر تیری ہی قوت و توانائی سے، لہٰذا مجھے بے نیاز کرنے والی قوت سے تقویت دے اور (گناہوں سے) روکنے والی نگرانی کا ذمہ لے۔

اَللّٰهُمَّ اَیُّمَا عَبْدٍ تَابَ اِلَیْكَ وَ هُوَ فِیْ عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَكَ فَاسِخٌ لِّتَوْبَتِهٖ، وَ عَآئِدٌ فِیْ ذَنبِهٖ وَ خَطِیْٓئَتِهٖ، فَاِنِّیْۤ اَعُوذُ بِكَ اَنْ اَكُوْنَ كَذٰلِكَ، فَاجْعَلْ تَوْبَتِیْ هٰذِهٖ تَوْبَةً لَّاۤ اَحْتَاجُ بَعْدَهَاۤ اِلٰى تَوْبَةٍ، تَوْبَةً مُّوْجِبَةً لِّمَحْوِ مَا سَلَفَ، وَ السَّلَامَةِ فِیْمَا بَقِیَ.

اے اللہ! وہ بندہ جو تجھ سے توبہ کرے اور تیرے علم غیب میں وہ توبہ شکنی کرنے والوں اور گناہ و معصیت کی طرف دو بارہ پلٹنے والا ہو تو میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ اس جیسا ہوں، میری توبہ کو ایسی توبہ قرار دے کہ اس کے بعد پھر توبہ کی احتیاج نہ رہے، جس سے گزشتہ گناہ محو ہو جائیں اور زندگی کے باقی دنوں میں (گناہوں سے) سلامتی کا سامان ہو۔

اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اَعْتَذِرُ اِلَیْكَ مِنْ جَهْلِیْ، وَ اَسْتَوْهِبُكَ سُوْٓءَ فِعْلِیْ، فَاضْمُمْنِیْۤ اِلٰى كَنَفِ رَحْمَتِكَ تَطَوُّلًا، وَ اسْتُرْنِیْ بِسِتْرِ عَافِیَتِكَ تَفَضُّلًا.

اے اللہ! میں اپنی جہالتوں سے عذر خواہ اور اپنی بداعمالیوں سے بخشش کا طلبگار ہوں، لہٰذا اپنے لطف و احسان سے مجھے پناہ گاہ رحمت میں جگہ دے، اور اپنے تفضل سے اپنی عافیت کے پردہ میں چھپا لے۔

اَللّٰهُمَّ وَ اِنِّیْۤ اَتُوْبُ اِلَیْكَ مِنْ كُلِّ مَا خَالَفَ اِرَادَتَكَ، اَوْ زَالَ عَنْ مَّحَبَّتِكَ مِنْ خَطَرَاتِ قَلْبِیْ، وَ لَحَظَاتِ عَیْنِیْ، وَ حِكَایَاتِ لِسَانِیْ، تَوْبَةً تَسْلَمُ بِهَا كُلُّ جَارِحَةٍ عَلٰى حِیَالِهَا مِنْ تَبِعَاتِكَ، وَ تَاْمَنُ مِمَّا یَخَافُ الْمُعْتَدُوْنَ مِنْ اَلِیْمِ سَطَوَاتِكَ.

اے اللہ! میں دل میں گزرنے والے خیالات اور آنکھ کے اشاروں اور زبان کی گفتگوؤں، غرض ہر اس چیز سے جو تیرے ارادہ و رضا کے خلاف ہو اور تیری محبت کے حدود سے باہر ہو، تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں، ایسی توبہ جس سے میرا ہر ہر عضو اپنی جگہ پر تیری عقوبتوں سے بچا رہے، اور ان تکلیف دہ عذابوں سے جن سے سر کش لوگ خائف رہتے ہیں محفوظ رہے۔

اَللّٰهُمَّ فَارْحَمْ وَحْدَتِیْ بَیْنَ یَدَیْكَ، وَ وَجِیْبَ قَلْبِیْ مِنْ خَشْیَتِكَ، وَ اضْطِرَابَ اَرْكَانِیْ مِنْ هَیْبَتِكَ، فَقَدْ اَقَامَتْنِیْ-.

اے معبود! یہ تیرے سامنے میرا عالم تنہائی، تیرے خوف سے میرے دل کی دھڑکن، تیری ہیبت سے میرے اعضاء کی تھر تھری، ان حالتوں پر رحم فرما۔

یَا رَبِّ- ذُنُوْبِیْ مَقَامَ الْخِزْیِ بِفِنَآئِكَ، فَاِنْ سَكَتُّ لَمْ یَنْطِقْ عَنِّیْۤ اَحَدٌ، وَ اِنْ شَفَعْتُ فَلَسْتُ بِاَهْلِ الشَّفَاعَةِ.

پروردگارا! مجھے گناہوں نے تیری بارگاہ میں رسوائی کی منزل پر لا کھڑا کیا ہے، اب اگر چپ رہوں تو میری طرف سے کوئی بولنے والا نہیں ہے، اور کوئی وسیلہ لاؤں تو شفاعت کا سزاوار نہیں ہوں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ شَفِّعْ فِیْ خَطَایَایَ كَرَمَكَ، وَ عُدْ عَلٰى سَیِّئَاتِیْ بِعَفْوِكَ، وَ لَا تَجْزِنِیْ جَزَآئِیْ مِنْ عُقُوْبَتِكَ، وَ ابْسُطْ عَلَیَّ طَوْلَكَ، وَ جَلِّلْنِیْ بِسِتْرِكَ، وَ افْعَلْ بِیْ فِعْلَ عَزِیْزٍ تَضَرَّعَ اِلَیْهِ عَبْدٌ ذَلِیْلٌ فَرَحِمَهٗ، اَوْ غَنِیٍّ تَعَرَّضَ لَهٗ عَبْدٌ فَقِیْرٌ فَنَعَشَهٗ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور اپنے کرم و بخشش کو میری خطاؤں کا شفیع قرار دے، اور اپنے فضل سے میرے گناہوں کو بخش دے، اور جس سزا کا میں سزاوار ہوں وہ سزا نہ دے، اور اپنا دامن کرم مجھ پر پھیلا دے، اور اپنے پردۂ عفو و رحمت میں مجھے ڈھانپ لے، اور مجھ سے اس ذی اقتدار شخص کا سا برتاؤ کر جس کے آگے کوئی بندہ ذلیل گڑگڑائے تو وہ اس پر ترس کھائے، یا اس دولتمند کا سا جس سے کوئی بندہ محتاج لپٹے تو وہ اسے سہارا دے کر اٹھا لے۔

اَللّٰهُمَّ لَا خَفِیْرَ لِیْ مِنْكَ فَلْیَخْفُرْنِیْ عِزُّكَ، وَ لَا شَفِیْعَ لِیْۤ اِلَیْكَ فَلْیَشْفَعْ لِیْ فَضْلُكَ، وَ قَدْ اَوْجَلَتْنِیْ خَطَایَایَ فَلْیُؤْمِنِّیْ عَفْوُكَ، فَمَا كُلُّ مَا نَطَقْتُ بِهٖ عَنْ جَهْلٍ مِّنِّیْ بِسُوْٓءِ اَثَرِیْ، وَ لَا نِسْیَانٍ لِّمَا سَبَقَ مِنْ ذَمِیْمِ فِعْلِیْ، لٰكِنْ لِّتَسْمَعَ سَمَآؤُكَ وَ مَنْ فِیْهَا، وَ اَرْضُكَ وَ مَنْ عَلَیْهَا مَاۤ اَظْهَرْتُ لَكَ مِنَ النَّدَمِ، وَ لَجَاْتُ اِلَیْكَ فِیْهِ مِنَ التَّوْبَةِ، فَلَعَلَّ بَعْضَهُمْ بِرَحْمَتِكَ یَرْحَمُنِیْ لِسُوْٓءِ مَوْقِفِیْ، اَوْ تُدْرِكُهُ الرِّقَّةُ عَلَیَّ لِسُوْٓءِ حَالِیْ، فَیَنَالَنِیْ مِنْهُ بِدَعْوَةٍ هِیَ اَسْمَعُ لَدَیْكَ مِنْ دُعَآئِیْ، اَوْ شَفَاعَةٍ اَوْكَدُ عِنْدَكَ مِنْ شَفَاعَتِیْ، تَكُوْنُ بِهَا نَجَاتِیْ مِنْ غَضَبِكَ وَ فَوْزَتِیْ بِرِضَاكَ.

بارالٰہا! مجھے تیرے (عذاب) سے کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے، اب تیری قوت و توانائی ہی پناہ دے تو دے، اور تیرے یہاں کوئی میری سفارش کرنے والا نہیں، اب تیرا فضل ہی سفارش کرے تو کرے، اور میرے گناہوں نے مجھے ہراساں کر دیا ہے، اب تیرا عفو و درگزر ہی مجھے مطمئن کرے تو کرے، یہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس لئے نہیں کہ میں اپنی بداعمالیوں سے ناواقف اور اپنی گزشتہ بدکردار یوں کو فراموش کر چکا ہوں، بلکہ اس لئے کہ تیرا آسمان اور جو اس میں رہتے سہتے ہیں اور تیری زمین اور جو اس پر آباد ہیں، میری ندامت کو جس کا میں نے تیرے سامنے اظہار کیا ہے اور میری توبہ کو جس کے ذریعہ تجھ سے پناہ مانگی ہے سن لیں، تاکہ تیری رحمت کی کارفرمائی کی وجہ سے کسی کو میرے حال زار پر رحم آجائے، یا میری پریشان حالی پر اس کا دل پسیجے، تو میرے حق میں دُعا کرے جس کی تیرے ہاں میری دُعا سے زیادہ شنوائی ہو، یا کوئی ایسی سفارش حاصل کر لوں جو تیرے ہاں میری درخواست سے زیادہ مؤثر ہو، اور اس طرح تیرے غضب سے نجات کی دستاویز اور تیری خوشنودی کا پروانہ حاصل کر سکوں۔

اَللّٰهُمَّ اِنْ یَّكُنِ النَّدَمُ تَوْبَةً اِلَیْكَ فَاَنَاۤ اَنْدَمُ النَّادِمِیْنَ، وَ اِنْ یَّكُنِ التَّرْكُ لِمَعْصِیَتِكَ اِنَابَةً فَاَنَاۤ اَوَّلُ الْمُنِیْبِیْنَ، وَ اِنْ یَّكُنِ الِاسْتِغْفَارُ حِطَّةً لِّلذُّنُوْبِ فَاِنِّیْ لَكَ مِنَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ.

اے اللہ! اگر تیری بارگاہ میں ندامت و پشیمانی ہی توبہ ہے تو میں پشیمان ہونے والوں میں سب سے زیادہ پشیمان ہوں، اور اگر ترک معصیت ہی توبہ و انابت ہے تو میں توبہ کرنے والوں میں اول درجہ پر ہوں، اور اگر طلب مغفرت گناہوں کو زائل کرنے کا سبب ہے تو مغفرت کرنے والوں میں سے ایک میں بھی ہوں۔

اَللّٰهُمَّ فَكَمَاۤ اَمَرْتَ بِالتَّوْبَةِ، وَ ضَمِنْتَ الْقَبُوْلَ، وَ حَثَثْتَ عَلَى الدُّعَآءِ، وَ وَعَدْتَّ الْاِجَابَةَ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اقْبَلْ تَوْبَتِیْ، وَ لَا تَرْجِعْنِیْ مَرْجِعَ الْخَیْبَةِ مِنْ رَّحْمَتِكَ، اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ عَلَى الْمُذْنِبِیْنَ، وَ الرَّحِیْمُ لِلْخَاطِئِیْنَ الْمُنِیْبِیْنَ.

خدایا! جبکہ تو نے توبہ کا حکم دیا اور قبول کرنے کا ذمہ لیا ہے اور دُعا پر آمادہ کیا ہے اور قبولیت کا وعدہ فرمایا ہے تو رحمت نازل فرما محمدؐ اور ان کی آلؑ پر اور میری توبہ کو قبول فرما، اور مجھے اپنی رحمت سے ناامیدی کے ساتھ نہ پلٹا، کیونکہ تو گنہگاروں کی توبہ قبول کرنے والا اور رجوع ہونے والے خطاکاروں پر رحم کرنے والا ہے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، كَمَا هَدَیْتَنَا بِهٖ، وَ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، كَمَا اسْتَنْقَذْتَنَا بِهٖ، وَ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، صَلَاةً تَشْفَعُ لَنا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَوْمَ الْفَاقَةِ اِلَیْكَ، ﴿اِنَّكَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝﴾، وَ هُوَ عَلَیْكَ یَسِیْرٌ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما جس طرح تو نے ان کے وسیلہ سے ہماری ہدایت فرمائی ہے، تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل کر جس طرح ان کے ذریعہ ہمیں (گمراہی کے بھنور سے) نکالا ہے، تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل کر ایسی رحمت جو قیامت کے روز اور تجھ سے احتیاج کے دن ہماری سفارش کرے، اس لئے کہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے اور یہ امر تیرے لئے سہل و آسمان ہے۔

–٭٭–

صحیفہ کاملہ کی اکثر دُعائیں اعتراف گناہ، عفو تقصیر اور توبہ و انابت پر مشتمل ہیں مگر یہ دُعا، ’’دُعائے توبہ‘‘ ہی کے نام سے موسوم ہے جس سے اس کے خصوصیات ظاہر ہیں۔

’’توبہ‘‘ کے لغوی معنی پلٹنے اور رجوع ہونے کے ہیں اور اصطلاحاً ’’توبہ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے گناہوں پر پشیمان ہو کر بارگاہِ الٰہی میں ان سے باز رہنے کا عہد کرے اور جن گناہوں کا تدارک ممکن ہے ان کا تدارک کرے۔ اس طرح کہ جو حقوق اس کے ذمہ ہوں انہیں ادا کرے، یا اہل حقوق سے معافی حاصل کرے ،اور یہ نہ ہو سکے تو ان کیلئے ایسے اعمالِ خیر بجا لائے کہ وہ قیامت کے روز اس سے خوش ہو کر درگزر کریں۔

’’توبہ‘‘ کا اصل محرک جزا و سزا کا علم و یقین ہے جو گنہگار کو کثافتِ گناہ کی آلودگیوں سے دور رہنے پر آمادہ کرتا ہے۔ چنانچہ جب وہ گناہوں کے ہلاکت آفرین نتائج کے پیش نظر اپنا محاسبہ کرتا ہے تو یہ احتسابِ نفس اسے جھنجھوڑتا اور مطعون کرتا ہے جس سے وہ نفسیاتی طور پر ایک قسم کی تکلیف و اذیت محسوس کرتا ہے۔ اس احساس تکلیف کو ندامت و پشیمانی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جب یہ ندامت اس کے احساسات پر غالب آ جاتی ہے تو وہ گناہوں سے باز رہنے کا ارادہ کر لیتا ہے اور توبہ اسی علم، ندامت اور ارادہ کے مجموعے کا نام ہے جس کے بعد اعمال میں تبدیلی کا ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔

اس دنیا میں رہتے ہوئے کوئی شخص بھی توبہ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا، کیونکہ کبھی ہاتھ، زبان اور دوسرے اعضاء سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہو گا، کبھی جھوٹ بولا ہو گا، کبھی کسی کی غیبت کی ہو گی، کبھی کسی پر ظلم کیا ہو گا، کبھی کسی سے ناحق جھگڑا کیا ہو گا۔ اور اگر اس کے اعضاء و جوارح ہر قسم کے گناہ سے بری ہوں تو وہ برائی کے قصد، گناہ کے ارادہ اور نفس کے دوسرے رذائل سے خالی نہیں ہو گا۔ اور اگر ان چیزوں سے بھی پاک ہو تو شیطانی وساوس اور گناہ کے تصورات و خیالات سے خالی نہیں ہو گا۔ اور اگر ان سے بھی پاک ہو تو خداوند عالم کی قدرت و حکمت اور اس کے آثار و صفات میں نظر و فکر سے غافل رہا ہو گا۔ اور اگر اس قصور و غفلت سے بھی بری اور ہر لحاظ سے معصوم ہو تو اس ثواب سے تو بے نیاز نہیں ہو سکتا جو ’’توبہ‘‘ پر مترتب ہوتا ہے، لہٰذا گنہگار ہو یا معصوم، سب ہی کو ’’توبہ‘‘ کرنا چاہیے۔چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿ وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللہِ جَمِيْعًا اَيُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۳۱﴾

اے ایمان والو! تم سب کے سب اللہ سے توبہ کرو، تا کہ تم ہر لحاظ سے بہتری پا سکو[۱]

اگر انسان گناہ کا مرتکب ہو تو اسے فوراً توبہ کرنا چاہیے اور توبہ کو تاخیر میں نہ ڈالنا چاہیے۔ایک تو اس لئے کہ نہ معلوم کب موت کا پیغام آ جائے اور توبہ کئے بغیر اس دنیا سے رختِ سفر باندھ لینا پڑے اور دوسرے یہ کہ توبہ میں تاخیر کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ توبہ کی نوبت ہی نہیں آتی اور گناہ کی عادت اس طرح اس میں راسخ ہو جاتی ہے کہ طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے اور پھر وہ بغیر کسی احساس ندامت کے گناہ پر گناہ کئے جاتا ہے جس سے دل و دماغ پر تاریکی کی تہیں چڑھ جاتی ہیں اور دل کے صفا ؤ نورانیت کے ساتھ توفیق کی روشنی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ اور جس طرح طبیعت مرض سے مغلوب ہو جائے تو صحت کے عود کرنے کی توقع نہیں رہتی، اسی طرح گناہ کے رگ و پے میں سرایت کرنے کے بعد گنہگار لا علاج ہو جاتا ہے، لہٰذا اس یاس آفرین حالت کے پیدا ہونے سے پہلے توبہ کر لینا چاہیے۔ اور یہ توبہ اس کی دلیل ہے کہ ابھی دل فطری سلامتی پر باقی ہے جس نے احساس ندامت پیدا کرکے توبہ کی طرف متوجہ کیا ہے اور یہ خداوند عالم کا انتہائی لطف و کرم ہے کہ وہ یقین موت کی صورت کے علاوہ ہر صورت میں توبہ قبول فرماتا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿وَھُوالَّذِيْ يَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَيَعْفُوْا عَنِ السَّـيِّاٰتِ﴾

وہی تو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور گناہوں کو معاف کرتا ہے۔[۲]

اور پیغمبر اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ: اگر بندہ اپنے مرنے سے ایک سال پہلے توبہ کر لے ،تو خدا اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔ پھر فرمایا کہ: سال بھر کی مدت تو بہت زیادہ ہے، اگر مرنے سے ایک مہینہ بھی پہلے توبہ کر لے تو خدا قبول کرے گا۔ پھر فرمایا کہ: ایک مہینہ بھی بہت ہے، اگر مرنے سے ایک دن پہلے توبہ کر لے تو خدا قبول فرمانے والا ہے۔ پھر فرمایا کہ: ایک دن بھی بہت ہے، اگر موت سے ایک ساعت بھی پہلے توبہ کر لے تو خداوند عالم اپنی رحمت سے اس کی توبہ قبول کر لے گا اور اس کے گناہوں سے درگزر فرمائے گا۔[۳]

’’توبہ‘‘ صرف گناہوں کو دور کرنے ہی کا ذریعہ نہیں ہے، بلکہ ثواب عظیم اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و محبت بھی اس سے وابستہ ہے۔ چنانچہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰهَ تَعَالٰۤى اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ عَبْدِهٖ مِنْ رَّجُلٍ اَضَلَّ رَاحِلَتَهٗ وَ زَادَهٗ فِیْ لَيْلَةٍ ظَلْمَآءَ فَوَجَدَهَا.

خداوند عالم اس شخص سے بھی زیادہ اپنے بندہ کی توبہ سے خوش ہوتا ہے جو اندھیری رات میں اپنی سواری اور زاد راہ کھوکر اچانک اسے پالے۔[۴]

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ سورۂ نور، آیت ۳۱

[۲]۔ سورۂ توبہ، آیت ۳۵

[۳]۔

[۴]۔ الکافی، ج۲، س ۴۳۵

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button