33۔ دعائے استخارہ
(۳۳) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
فِی الِاسْتِخَارَةِ
دُعائے استخارہ:
اَللّٰهُمَّ اِنِیّْۤ اَسْتَخِیْرُكَ بِعِلْمِكَ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اقْضِ لِیْ بِالْخِیَرَةِ، وَ اَلْهِمْنَا مَعْرِفَةَ الْاِخْتِیَارِ، وَ اجْعَلْ ذٰلِكَ ذَرِیْعَةً اِلَى الرِّضَا بِمَا قَضَیْتَ لَنا وَ التَّسْلِیْمِ لِمَا حَكَمْتَ، فَاَزِحْ عَنَّا رَیْبَ الْاِرْتِیَابِ، وَ اَیِّدْنَا بِیَقِیْنِ الْمُخْلِصِیْنَ.
بارالٰہا! میں تیرے علم کے ذریعہ تجھ سے خیر و بہبود چاہتا ہوں، تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل کر اور میرے لئے اچھائی کا فیصلہ صادر فرما، اور ہمارے دل میں اپنے فیصلہ (کی حکمت و مصلحت) کا القا کر، اور اسے ایک ذریعہ قرار دے کہ ہم تیرے فیصلہ پر راضی رہیں، اور تیرے حکم کے آگے سر تسلیم خم کریں، اس طرح ہم سے شک کی خلش دور کر دے، اور مخلصین کا یقین ہمارے اندر پیدا کر کے ہمیں تقویت دے۔
وَ لَا تَسُمْنَا عَجْزَ الْمَعْرِفَةِ عَمَّا تَخَیَّرْتَ فَنَغْمِطَ قَدْرَكَ، وَ نَكْرَهَ مَوْضِعَ رِضَاكَ، وَ نَجْنَحَ اِلَى الَّتِیْ هِیَ اَبْعَدُ مِنْ حُسْنِ الْعَاقِبَةِ، وَ اَقْرَبُ اِلَى ضِدِّ الْعَافِیَةِ.
اور ہمیں خود ہمارے حوالے نہ کر دے کہ جو تو نے فیصلہ کیا ہے اس کی معرفت سے عاجز رہیں، اور تیری قدر و منزلت کو سبک سمجھیں، اور جس چیز سے تیری رضا وابستہ ہے اسے ناپسند کریں، اور جو چیز انجام کی خوبی سے دور اور عافیت کی ضد سے قریب ہو اس کی طرف مائل ہو جائیں۔
حَبِّبْ اِلَیْنَا مَا نَكْرَهٗ مِنْ قَضَآئِكَ، وَ سَهِّلْ عَلَیْنَا مَا نَسْتَصْعِبُ مِنْ حُكْمِكَ، وَ اَلْهِمْنَا الِانْقِیَادَ لِمَاۤ اَوْرَدْتَّ عَلَیْنَا مِنْ مَشِیَّتِكَ، حَتّٰى لَا نُحِبَّ تَاْخِیْرَ مَا عَجَّلْتَ، وَ لَا تَعْجِیْلَ مَاۤ اَخَّرْتَ، وَ لَا نَكْرَهَ مَاۤ اَحْبَبْتَ، وَ لَا نَتَخَیَّرَ مَا كَرِهْتَ. وَ اخْتِمْ لَنا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْمَدُ عَاقِبَةً، وَ اَكْرَمُ مَصِیْرًا، اِنَّكَ تُفِیْدُ الْكَرِیْمَةَ، وَ تُعْطِی الْجَسِیْمَةَ، وَ تَفْعَلُ مَا تُرِیْدُ، وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ.
تیرے جس فیصلہ کو ہم ناپسند کریں وہ ہماری نظروں میں پسندیدہ بنا دے، اور جسے ہم دشوار سمجھیں اسے ہمارے لئے سہل و آسان کر دے، اور جس مشیت و ارادہ کو ہم سے متعلق کیا ہے اس کی اطاعت ہمارے دل میں القا کر، یہاں تک کہ جس چیز میں تو نے تعجیل کی ہے اس میں تاخیر اور جس میں تاخیر کی ہے اس میں تعجیل نہ چاہیں، اور جسے تو نے پسند کیا ہے اسے ناپسند اور جسے ناگوار سمجھا ہے اسے اختیار نہ کریں، اور ہمارے کاموں کا اس چیز پر خاتمہ کر جو انجام کے لحاظ سے پسندیدہ اور مآل کے اعتبار سے بہتر ہو۔ اس لئے کہ تو نفیس و پاکیزہ چیزیں عطا کرتا اور بڑی نعمتیں بخشتا ہے اور جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے، اور تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
–٭٭–
خداوند عالم سے خیر و برکت طلب کرنا یا خیر و سعادت کی طرف رہنمائی چاہنا ’’استخارہ‘‘ کہلاتا ہے۔ جب استخارہ دُعا کی صورت میں ہو تو اس کے اثرات و نتائج مختلف صورتوں سے ظاہر ہوتے ہیں، کبھی انسان کے دل میں ایسی روشنی پیدا ہوتی ہے جس سے صحیح صورتِ حال منکشف ہو جاتی ہے، اسے ’’القائے غیبی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور حضرتؑ نے اپنے ارشاد «وَ اَلْهِمْنَا مَعْرِفَةَ الِاخْتِيَارِ« میں اسے ’’الہام‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس کیلئے ظاہر و باطن کی پاکیزگی، قلب و نظر کی تطہیر اور اللہ تعالیٰ سے وابستگی کی ضرورت ہے، تا کہ انسان کا دل کشف و القا کا محل قرار پا سکے اور آئمہ اہل بیت علیہم السلام اپنے بعض اصحاب کو اس استخارہ کی تعلیم و تلقین فرماتے تھے۔ چنانچہ حسن ابن جہم نے امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ: فرزند رسولؐ! ہمیں سفر کرنا ہے مگر تردد ہے کہ خشکی کا سفر کریں یا پانی کا، آپؑ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا:
وَ ائْتِ الْمَسْجِدَ فِیْ غَيْرِ وَقْتِ صَلٰوةِ الْفَرِيْضَةِ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ وَ اسْتَخِرِ اللّٰهَ مِائَةَ مَرَّةٍ ثُمَّ انْظُرْ اَیُّ شَیْءٍ يَّقَعُ فِیْ قَلْبِكَ فَاعْمَلْ بِهٖ.
نماز فریضہ کے اوقات کے علاوہ مسجد میں جاؤ اور دو رکعت نماز پڑھو اور سو مرتبہ «اَسْتَخِیْرُ اللّٰهَ بِرَحْمَتِہٖ» کہو، اس کے بعد دیکھو کہ تمہارے دل میں کس بات کا القاء ہوتا ہے، بس اس پر عمل کرو۔[۱]
اور کبھی طلب خیر کا اثر اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ جس کام میں بہتری ہوتی ہے دل میں اس کا عزم پختہ ہو جاتا ہے اور ذہن یکسوئی کے ساتھ اس پر ٹھہر جاتا ہے۔ چنانچہ اسحٰق بن عمار کہتے ہیں کہ: میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ بعض اوقات کسی کا م کا ارادہ کرتا ہوں تو کچھ لوگ اس کے موافق رائے دیتے ہیں اور کچھ خلاف اور میں کچھ طے نہیں کر سکتا کہ کن لوگوں کی رائے پر عمل کروں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ:
اِذَا كُنْتَ كَذٰلِكَ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ وَ اسْتَخِرِ اللّٰهَ مِائَةَ مَرَّةٍ وَ مَرَّةً ثُمَّ انْظُرْ اَحْزَمَ الْاَمْرَيْنِ لَكَ فَافْعَلْهُ، فَاِنَّ الْخِيَرَةَ فِيْهِ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ.
جب ایسی صورت ہو تو دو رکعت نماز پڑھو اور ایک سو ایک مرتبہ «اَسْتَخِیْرُ اللهَ بِرَحْمَتِہٖ « کہو تو ان دونوں کاموں میں سے جس میں حزم و احتیاط کا پہلو نظر آئے اسے اختیار کرو، ان شاء اللہ تعالیٰ اسی میں بہتری ہو گی۔[۲]
اور کبھی طلب خیر کا اثر اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ جس امر میں بہتری ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کسی زبان سے جاری کرا دیتا ہے۔ چنانچہ ہارون ابن خارجہ کہتے ہیں کہ:
سَمِعْتُ اَبَا عَبْدِ اللّٰهِؑ يَقُوْلُ: اِذَاۤ اَرَادَ اَحَدُكُمْ اَمْرًا فَلَا يُشَاوِرَنَّ فِيْهِ اَحَدًا مِّنَ النَّاسِ حَتّٰى يَبْدَاَ فَيُشَاوِرَ اللّٰهَ، قُلْتُ: وَ مَا مُشَاوَرَةُ اللّٰهِ؟ قَالَ: يَبْدَاُ فَيَسْتَخِيْرُ اللّٰهَ فِيْهِ اَوَّلًا ثُمَّ يُشَاوِرُ فِيْهِ فَاِنَّهٗ اِذَا بَدَاَ بِاللّٰهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰۤى اَجْرَى اللّٰهُ لَهُ الْخِيَرَةَ عَلٰى لِسَانِ مَنْ يَّشَآءُ مِنَ الْخَلْقِ.
میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے سنا کہ :’’جو شخص کسی کام کو کرنا چاہے تو دوسروں سے مشورہ لینے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے مشورہ لے‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ: اللہ تعالیٰ سے کس طرح مشورہ لے؟ فرمایا: پہلے اس کام میں اللہ تعالیٰ سے خیر و برکت چاہے، پھر مشورہ کرے تو جب اللہ تبارک و تعالیٰ سے طلب خیر کے بعد دوسروں سے مشورہ لے گا تو اللہ تعالیٰ مخلوقات میں سے جس کی زبان سے چاہے گا ایسی بات نکلوا دے گا جو اس کے حق میں بھلائی اور بہتری کی ہو گی۔[۳]
اور وہ استخارہ جو نفع و نقصان کے سلسلہ میں رہنمائی چاہنے کیلئے دیکھا جاتا ہے، جیسے تسبیح کے دانوں کا طاق و جفت ہونا، رقعوں کا ’’لا‘‘ (نہ) اور ’’نعم‘‘ (ہاں) کی صورت میں نکلنا اور آیہ قرآنی کا ثواب و عذاب کے مضمون پر مشتمل ہونا تو یہ بھی القا و کشف کی طرح مشورۂ الٰہی کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے جس سے ذہنی یکسوئی اور دلجمعی حاصل ہوتی ہے اور رائے میں قوت پیدا ہو جاتی ہے۔
اس استخارہ کے حسب ذیل آداب و شرائط ہیں جنہیں ملحوظ رکھنا چاہیے:
پہلے یہ کہ استخارہ سے قبل طہارت کرے اور دو رکعت نماز پڑھے۔
دوسرے یہ کہ دل و دماغ سے ہر طرح کے فاسد خیالات دور رکھے۔
تیسرے یہ کہ ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ رہے اور دوران استخارہ میں گفتگو نہ کرے۔
چوتھے یہ کہ جس امر کیلئے استخارہ دیکھے وہ مباح ہو اور واجبات و محرمات میں استخارہ نہ دیکھے۔ اس لئے کہ واجبات کو بہرصورت بجا لانا ہے اور محرمات سے بہرحال پرہیز کرنا ہے۔
پانچویں یہ کہ بے محل استخارہ نہ دیکھے، اس طرح کہ استخارہ منع آنے پر کچھ توقف کے بعد پھر استخارہ کرے اس خیال سے کہ شاید اب بہتر آ جائے اور جب تک بہتر نہ آئے یونہی استخارہ دیکھتا رہے، یا کہیں جانے کیلئے استخارہ کرے اور منع آنے کی صورت میں کسی خاص راستہ کی نیت کرکے پھر استخارہ کرے یہ سمجھ کر کہ اب نیت بدل گئی ہے، یا بغیر کسی ضرورت کے بات بات پر استخارہ دیکھے۔ یہ سب بازیچہ اطفال ہے جو عموماً قوائے عقلیہ کے ضعیف اور سوچ بچار کی قوتوں کے معطل ہونے کا نتیجہ ہوتا ہے اور بعض لوگ اسے بلا وجہ صرف مظاہرہ تقدس کیلئے معمول بنا لیتے ہیں جو ریاء کی ایک قسم ہے۔
اب ذیل میں استخارہ کے تین طریقے درج کئے جاتے ہیں جو مروی اور معمول بہ ہیں:
استخارۂ قرآنی:
قرآن سے استخارہ دیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے تین مرتبہ سورۂ توحید اور پھر تین مرتبہ درود پڑھے اور پھر یہ دُعا پڑھے: "اَللّٰهُمَّ اِنِّیْ تَفَاَّلْتُ بِكِتَابِكَ وَ تَوَكَّلْتُ عَلَيْكَ، فَاَرِنِیْ مِنْ كِتَابِكَ مَا هُوَ الْمَكْتُوْمُ مِنْ سِرِّكَ الْمَكْنُوْنِ فِیْ غَيْبِكَ” [۴] اور پھر نیت کے بعد قرآن مجید کو کھولے اور اس کے پہلے صفحہ کی پہلی آیت کو دیکھے اور اس کے مضمون پر نظر کرنے کے بعد ’’فعل‘‘ (ہاں) یا ’’ترک‘‘ (ناں) کا فیصلہ کرے اس طرح کہ اگر آیت بشارت و نوید پر مشتمل ہو تو اس کام کو کرے اور اگر عذاب و وعید کے سلسلہ میں ہو تو اسے ترک کرے۔
استخارۂ ذات الرقاع:
ہارون ابن خارجہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ: جب کسی کام کا ارادہ کرو تو کاغذ کے چھ پرزوں پر "بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ خِيَرَةً مِّنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ لِفُلَانِ بْنِ فُلَانَةَ” لکھو (’’فلاں‘‘ کی جگہ اپنا اور’’ فلانہ‘‘ کی جگہ اپنی ماں کا نام لکھنا چاہیے) اور ان میں تین پر «اِفْعَلْ « اور تین پر «لَا تَفْعَلْ « تحریر کرو اور ان پرزوں کو ملاکر مصلے کے نیچے رکھ دو اور دو رکعت نمازِ استخارہ بجا لاؤ اور بعد ختم نماز سجدہ میں سو مرتبہ «اَسْتَخِيْرُ اللّٰهَ بِرَحْمَتِهِ خِيَرَةً فِیْ عَافِيَةٍ «کہو اور سجدہ سے سر اٹھا کر یہ دُعا پڑھو «اللّٰهُمَّ خِرْ لِیْ وَ اخْتَرْ لِیْ فِیْ جَمِيْعِ اُمُوْرِیْ فِیْ يُسْرٍ مِّنْكَ وَ عَافِيَةٍ « پھر ایک ایک کرکے تین پرزے نکالو۔ اگر تینوں پر «اِفْعَلْ« تحریر ہو تو اس کام کو کرو اور اگر تینوں پر «لَا تَفْعَلْ« تحریر ہو تو اس کام کو نہ کرو اور اگر مختلف ہوں تو دو پرزے اور نکالو اب اگر «اِفْعَلْ « تین ہوں تو اس کام کو کرو اور «لَا تَفْعَلْ « تین ہوں تو اس کام کو نہ کرو۔[۵]
استخارۂ تسبیح:
یہ استخارہ بھی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ: پہلے ایک دفعہ سورۃ فاتحہ اور تین دفعہ سورۃ توحید اور پندرہ مرتبہ درود پڑھو اور اس کے بعد یہ دُعا پڑھو: "اَللّٰهُمَّ اِنِّیۤ اَسْئَلُكَ بِحَقِّ الْحُسَيْنِ وَ جَدِّهٖ وَ اَبِيْهِ وَ اُمِّهٖ وَ اَخِيْهِ وَ الْاَئِمَّةِ مِنْ ذُرِّيَّتِهٖ اَنْ تُصَلِّیَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ اَنْ تَجْعَلَ لِیَ الْخِيَرَةَ فِیْ هٰذِهِ السُّبْحَةِ وَ اَنْ تُرِيَنِیْ مَا هُوَ الْاَصْلَحُ لِیْ فِی الدِّيْنِ وَ الدُّنْيَا، اَللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ الْاَصْلَحُ فِیْ دِيْنِیْ وَ دُنْيَایَ وَ عَاجِلِ اَمْرِیْ وَ اٰجِلِهٖ فِعْلَ مَاۤ اَنَا عَازِمٌ عَلَيْهِ فَاْمُرْنِیْ وَ اِلَّا فَانْهَنِیْ، اِنَّكَ عَلٰى كُلِشَیْءٍ قَدِيْرٌ” ، پھر نیت کرو اور مٹھی بھر تسبیح کے دانے ہاتھ میں لو اور پہلے دانہ پر "سُبْحَانَ اللّٰهِ” اور دوسرے پر "اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ” اور تیسرے پر "لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ” – پڑھتے جاؤ اور آخری دانہ پر "سُبْحَانَ اللّٰهِ” ہو تو یہ استخارہ درمیانہ ہے، چاہے اس کام کو کرو یا اسے ترک کرو، اور اگر "اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ” آئے تو استخارہ بہتر ہے، اس کام کو کرو اور اگر "لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ” آئے تو استخارہ بہتر نہیں ہے، اس کام کو ترک کرو۔ وَ ھُوَ الْعَلِیْمُ بِعَوَاقِبِ اُمُوْرِنَا۔ [۶]
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ الکافی، ج۳، ص ۴۷۱
[۲]۔ الکافی، ج۳، ص ۴۷۲
[۳]۔ المحاسن، ج۲، ص ۵۹۸
[۴]۔ ریاض السالکین، ج۵، ص ۱۳۵
[۵]۔ الکافی، ج۳، ص ۴۷۰-۴۷۱
[۶]۔ بحارالانوار، ج ۸۸، ص ۲۵۰-۲۵۱