35۔ رضائے الہی پر خوش رہنے کی دعا
(۳۵) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
فِی الرِّضَاۤ اِذَا نَظَرَ اِلٰۤى اَصْحَابِ الدُّنْیَا
جب اہل دنیا کو دیکھتے تو راضی برضا رہنے کیلئے یہ دُعا پڑھتے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رِضًى بِحُكْمِ اللّٰهِ، شَهِدْتُّ اَنَّ اللّٰهَ قَسَمَ مَعَایِشَ عِبَادِهٖ بِالْعَدْلِ، وَ اَخَذَ عَلٰى جَمِیْعِ خَلْقِهٖ بِالْفَضْلِ.
اللہ تعالیٰ کے حکم پر رضا و خوشنودی کی بنا پر اللہ تعالیٰ کیلئے حمد و ستائش ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اس نے اپنے بندوں کی روزیاں آئین عدل کے مطابق تقسیم کی ہیں، اور تمام مخلوقات سے فضل و احسان کا رویہ اختیار کیا ہے۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ لَا تَفْتِنِّیْ بِمَاۤ اَعْطَیْتَهُمْ، وَ لَا تَفْتِنْهُمْ بِمَا مَنَعْتَنِیْ فَاَحْسُدَ خَلْقَكَ، وَ اَغْمَطَ حُكْمَكَ.
اے اللہ ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے ان چیزوں سے جو دوسروں کو دی ہیں آشفتہ و پریشان نہ ہونے دے کہ میں تیری مخلوق پر حسد کروں، اور تیرے فیصلہ کو حقیر سمجھوں،اور جن چیزوں سے مجھے محروم رکھا ہے انہیں دوسروں کیلئے فتنہ و آزمائش نہ بنا دے (کہ وہ ازروئے غرور مجھے بہ نظر حقارت دیکھیں)۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ طَیِّبْ بِقَضَآئِكَ نَفْسِیْ، وَ وَسِّعْ بِمَوَاقِعِ حُكْمِكَ صَدْرِیْ، وَ هَبْ لِیَ الثِّقَةَ لِاُقِرَّ مَعَهَا بِاَنَّ قَضَآءَكَ لَمْ یَجْرِ اِلَّا بِالْخِیَرَةِ، وَ اجْعَلْ شُكْرِیْ لَكَ عَلٰى مَا زَوَیْتَ عَنِّیْۤ اَوْفَرَ مِنْ شُكْرِیْۤ اِیَّاكَ عَلٰى مَا خَوَّلْتَنِیْ، وَ اعْصِمْنِیْ مِنْ اَنْ اَظُنَّ بِذِیْ عَدَمٍ خَسَاسَةً، اَوْ اَظُنَّ بِصَاحِبِ ثَرْوَةٍ فَضْلًا، فَاِنَّ الشَّرِیْفَ مَنْ شَرَّفَتْهُ طَاعَتُكَ، وَ الْعَزِیْزَ مَنْ اَعَزَّتْهُ عِبَادَتُكَ.
اے اللہ ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور مجھے اپنے فیصلۂ قضا و قدر پر شادماں رکھ، اور اپنے مقدرات کی پذیرائی کیلئے میرے سینہ میں وسعت پیدا کر دے، اور میرے اندر وہ روح اعتماد پھونک دے کہ میں یہ اقرار کروں کہ تیرا فیصلہ قضا و قدر و خیر و بہبودی کے ساتھ نافذ ہوا ہے، اور ان نعمتوں پر ادائے شکر کی بہ نسبت جو مجھے عطا کی ہیں ان چیزوں پر میرے شکریہ کو کامل و فزوں تر قرار دے جو مجھ سے روک لی ہیں، اور مجھے اس سے محفوظ رکھ کہ میں کسی نادار کو ذلت و حقارت کی نظر سے دیکھوں، یا کسی صاحب ثروت کے بارے میں (اس کی ثروت کی بنا پر) فضیلت و برتری کا گمان کروں۔ اس لئے کہ صاحب شرف و فضیلت وہ ہے جسے تیری اطاعت نے شرف بخشا ہو، اور صاحب عزت وہ ہے جسے تیری عبادت نے عزت و سربلندی دی ہو۔
فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ مَتِّعْنَا بِثَرْوَةٍ لَّا تَنْفَدُ، وَ اَیِّدْنَا بِعِزٍّ لَّا یُفْقَدُ، وَ اسْرَحْنَا فِیْ مُلْكِ الْاَبَدِ، اِنَّكَ الْوَاحِدُ الْاَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِیْ لَمْ تَلِدْ وَ لَمْ تُولَدْ، وَ لَمْ یَكُنْ لَّكَ كُفُوًا اَحَدٌ.
اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمیں ایسی ثروت و دولت سے بہرہ اندوز کر جو ختم ہونے والی نہیں، اور ایسی عزت و بزرگی سے ہماری تائید فرما جو زائل ہونے والی نہیں، اور ہمیں ملکِ جاوداں کی طرف رواں دواں کر۔ بیشک تو یکتا و یگانہ اور ایسا بے نیاز ہے کہ نہ تیری کوئی اولاد ہے، اور نہ تو کسی کی اولاد ہے، اور نہ تیرا کوئی مثل و ہمسر ہے۔
–٭٭–
یہ دُعا طلب ’’تسلیم و رضا‘‘ کے سلسلہ میں ہے۔ ’’تسلیم و رضا‘‘ یقین کے بلند ترین درجہ کا نام ہے جہاں ایقان کی پختگی میں لچک اور اعتقاد کی مضبوطی میں کمزوری کا رونما ہونا در کنار مقصد و منشائے الٰہی کے خلاف ذہن کسی تصور کو قبول کرنے کیلئے بھی آمادہ نہیں ہوتا۔ یہ جذبۂ رضا عشق و محبت الٰہی کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے، کیونکہ یہ محبت ہی کا تقاضا ہے کہ محبوب کی طرف سے راحت پہنچے یا گزند، کوئی چیز بار خاطر نہ ہو اور تلخ سے تلخ حالات میں بھی چہرے پر کڑواہٹ نہ کھلے۔
چنانچہ جب دل میں عشق الٰہی کی شرر افشانی ہوتی ہے تو پھر رنج و راحت، عزت و ذلت، اقبال و ادبار، خوشحالی و تنگدستی، مرض و صحت اور موت و حیات میں کوئی فرق نہیں رہتا اور انسان مرض میں اتنی ہی کشش محسوس کرتا ہے جتنی صحت و تندرستی میں اور اذیت و کلفت سے اتنی ہی لذت حاصل کرتا ہے جتنی آرام و راحت سے۔ اس کیلئے کانٹوں کی چبھن، پھولوں کی سیج اور کرب و مصیبت کی جان کا ہی عیش و راحت کا گہوارہ بن جاتی ہے، وہ نیش کو نوش اور زہر کو شہد و شکر سمجھ کر اس طرح پی جاتا ہے کہ اسے بد مزگی اور تلخ کامی کا احساس تک نہیں ہوتا۔
جب انسان مقدرات الٰہیہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیتا ہے تو اس جذبۂ رضا کے نتیجے میں دو طرح کی حالتیں پیش آتی ہیں:
ایک یہ ہے کہ درد و کلفت کا احساس تو ہوتا ہے، مگر اسے خندہ پیشانی سے برداشت کر لیتا ہے۔ نہ صرف برداشت کرتا ہے، بلکہ اس میں اطمینان و راحت محسوس کرتا ہے۔ جیسے وہ مریض جو ’’فصد‘‘ کے موقع پر تکلیف تو محسوس کرتا ہے، مگر اس تکلیف کو تکلیف تصور نہیں کرتا، بلکہ حصول صحت کے پیش نظر اس تکلیف کو بھی ایک گونہ راحت سمجھتا ہے۔
اور دوسری حالت یہ ہے کہ سرے سے کرب و اذیت کا احساس ہی باقی نہ رہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس پر بعض افراد کو حیرت و استعجاب ہو کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آگ لگے اور جسم و جان نہ پھنکے اور درد و کرب کی ایذا رسانی ہو اور اذیت کا احساس نہ ہو۔ مگر مشاہدہ اور واقعات اس کے شاہد ہیں کہ انسان پر ایسے کیفیات طاری ہوتے رہتے ہیں جو درد و تکلیف کا احساس ختم کر دیتے ہیں۔ چنانچہ انتہائی غیظ و غضب کی حالت میں یا شدید خوف و ہراس کی صورت میں کوئی چوٹ لگ جائے تو جب تک غصہ فرو اور خوف کم نہیں ہوتا اس وقت تک چوٹ کی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا۔ اسی طرح معرکہ کارزار میں بہت سے زخمی سپاہیوں کو زخم کی اذیت کا احساس اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ حرب و پیکار میں منہمک رہتے ہیں اور جب ادھر سے توجہ ہٹتی ہے تو طبیعت کا رخ اپنی طرف پلٹتا ہے اور تکلیف کا احسا س ابھر آتا ہے۔
یہ وہ صورتیں ہیں جن میں محبت و شیفتگی کے جذبات کارفرما نہیں ہوتے۔ مگر پھر بھی انسانی احساسات مغلوب ہو جاتے ہیں اور اگر محبت و وارفتگی کی صورت ہو تو درد و الم کا احساس کیسا۔ درد کی لذت انگیزی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور آگ کے شعلوں میں تڑپنے کے باوجود آتش کدۂ عشق میں جلنے کا ذوق کم نہیں ہوتا۔
تنم بسوخت، دلم سوخت، استخوانم سوخت
تمام سوختم و ذوقِ سوختن باقی است
چنانچہ عشق و محبت کے واردات میں سے یہ ایک معمولی واقعہ ہے کہ: ایک دل باختۂ محبت اپنے محبوب کے سامنے ایک برتن میں دوا کو جوش دے رہا تھا اور نظارہ جمال میں اس حد تک محو تھا کہ برتن میں چمچہ کے بجائے اس کا ہاتھ حرکت کرتا رہا مگر اسے احساس تک نہ ہوا اور جب اسے متوجہ کیا گیا تو ہاتھ سے گوشت و پوست الگ ہو چکا تھا۔ یونہی زنان مصر کی دل باختگی کا عالم کہ جو چھریاں پھلوں کے کاٹنے کیلئے انہیں دی جاتی ہیں وہ ان کے ہاتھوں پر چل جاتی ہیں مگر نہ تو انہیں ہاتھوں کے کٹنے کا علم ہوتا ہے اور نہ اذیت ہی کا احساس ہوتا ہے۔ تو اگر عشق مجازی اور جمال بشری اس طرح حواس کو مغلوب کر سکتا ہے تو جمال ابدی و حسن سرمدی کے تاثرات کس حد تک خود فراموشی کی کیفیتی طاری کر سکتے ہیں، اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ محبت الٰہی ہی کی کرشمہ سازی تھی کہ خلیل، نارِ نمرود میں بے دھڑک پھاند پڑتے ہیں اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے پیروں سے حالت نماز میں تیر نکال لیا جاتا ہے تو جمال ازلی کا استغراق اذیت کے احساس سے مانع ہو جاتا ہے اور بعض شہداء راہِ خدا کے متعلق وارد ہوا ہے کہ انہیں میدان جنگ میں تیر و تلوار اور تیغ و تبر کی بھرپور چوٹوں کا احساس تک نہ ہوتا تھا۔
بہرحال جب انسان محبت الٰہی کے نتیجہ میں راضی برضا رہنے کا خوگر ہو جاتا ہے تو جس حالت میں ہوتا ہے اسی حالت میں خوش رہتا ہے۔ نہ اُسے اپنی شکستگی و بدحالی کا شکوہ ہوتا ہے اور نہ زندگی کی تلخ کامی کا گلہ، نہ دوسروں کا جاہ و اقبال اسے متاثر کرتا ہے اور نہ دوسروں کی دولت و ثروت کو دیکھ کر اس میں حرص و طمع کا جذبہ ابھرتا ہے۔ کیونکہ اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ رنج و کلفت ہو یا آرام و راحت، عسرت و تنگی ہو یا ثروت و خوشحالی، سب میں حکمت و مصحلت کارفرما ہے اور اللہ تعالیٰ کا کوئی فعل حدودِ عدل و انصاف سے باہر نہیں ہوتا۔
سر قبول بباید نهاد و گردن طوع
که هرچه حاکم عادل کند نه بیدادست
[٭٭٭٭٭]