40۔ موت کو یاد کرنے کے وقت کی دعا
(۴۰) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
اِذَا نُعِیَ اِلَیْهِ مَیِّتٌ، اَوْ ذَكَرَ الْمَوْتَ
جب کسی کی خبر مرگ سنتے یا موت کو یاد کرتے تو یہ دُعا پڑھتے:
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اكْفِنَا طُوْلَ الْاَمَلِ، وَ قَصِّرْهُ عَنَّا بِصِدْقِ الْعَمَلِ حَتّٰى لَا نُؤَمِّلَ اسْتِتْمَامَ سَاعَةٍ بَعْدَ سَاعَةٍ، وَ لَا اسْتِیْفَآءَ یَوْمٍ بَعْدَ یَوْمٍ، وَ لَا اتِّصَالَ نَفَسٍ بِنَفَسٍ، وَ لَا لُحُوْقَ قَدَمٍ بِقَدَمٍ.
اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمیں طول طویل امیدوں سے بچائے رکھ، اور پر خلوص اعمال کے بجا لانے سے دامن امید کو کوتاہ کر دے، تاکہ ہم ایک گھڑی کے بعد دوسری گھڑی کے تمام کرنے، ایک دن کے بعد دوسرے دن کے گزارنے، ایک سانس کے بعد دوسری سانس کے آنے اور ایک قدم کے بعد دوسرے قدم کے اٹھنے کی آس نہ رکھیں۔
وَ سَلِّمْنَا مِنْ غُرُوْرِهٖ، وَ اٰمِنَّا مِنْ شُرُوْرِهٖ، وَ انْصِبِ الْمَوْتَ بَیْنَ اَیْدِیْنَا نَصْبًا، وَ لَا تَجْعَلْ ذِكْرَنَا لَهٗ غِبًّا، وَ اجْعَلْ لَنا مِنْ صَالِحِ الْاَعْمَالِ عَمَلًا نَّسْتَبْطِئُ مَعَهُ الْمَصِیْرَ اِلَیْكَ، وَ نَحْرِصُ لَهٗ عَلٰى وَشْكِ اللَّحَاقِ بِكَ حَتّٰى یَكُوْنَ الْمَوْتُ مَاْنَسَنَا الَّذِیْ نَاْنَسُ بِهٖ، وَ مَاْلَفَنَا الَّذِیْ نَشْتَاقُ اِلَیْهِ، وَ حَامَّتَنَا الَّتِیْ نُحِبُّ الدُّنُوَّ مِنْهَا.
ہمیں فریب، آرزو اور فتنۂ امید سے محفوظ و مامون رکھ اور موت کو ہمارا نصب العین قرار دے اور کسی دن بھی ہمیں اس کی یاد سے خالی نہ رہنے دے، اور نیک اعمال میں سے ہمیں ایسے عمل خیر کی توفیق دے جس کے ہوتے ہوئے ہم تیری جانب بازگشت میں دیری محسوس کریں، اور جلد سے جلد تیری بارگاہ میں حاضر ہونے کے آرزو مند ہوں، اس حد تک کہ موت ہمارے انس کی منزل ہو جائے جس سے ہم جی لگائیں، اور الفت کی جگہ بن جائے جس کے ہم مشتاق ہوں، اور ایسی عزیز ہو جس کے قرب کو ہم پسند کریں۔
فَاِذَاۤ اَوْرَدْتَّهٗ عَلَیْنَا وَ اَنْزَلْتَهٗ بِنَا فَاَسْعِدْنَا بِهٖ زَآئِرًا، وَ اٰنِسْنَا بِهٖ قَادِمًا، وَ لَا تُشْقِنَا بِضِیَافَتِهٖ، وَ لَا تُخْزِنَا بِزِیَارَتِهٖ، وَ اجْعَلْهُ بَابًا مِّنْ اَبْوَابِ مَغْفِرَتِكَ، وَ مِفْتَاحًا مِّنْ مَفَاتِیْحِ رَحْمَتِكَ.
جب تو اسے ہم پر وارد کرے اور ہم پر لا اتارے تو اس کی ملاقات کے ذریعہ ہمیں سعادت مند بنانا، اور جب وہ آئے تو ہمیں اس سے مانوس کرنا، اور اس کی مہمانی سے ہمیں بدبخت نہ قرار دینا، اور نہ اس کی ملاقات سے ہم کو رسوا کرنا، اور اسے اپنی مغفرت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اور رحمت کی کنجیوں میں سے ایک کلید قرار دے۔
اَمِتْنَا مُهْتَدِیْنَ غَیْرَ ضَالِّیْنَ، طَآئِعِیْنَ غَیْرَ مُسْتَكْرِهِیْنَ، تَآئِبِیْنَ غَیْرَ عَاصِیْنَ وَ لَا مُصِرِّیْنَ، یَا ضَامِنَ جَزَآءِ الْمُحْسِنِیْنَ، وَ مُسْتَصْلِحَ عَمَلِ الْمُفْسِدِیْنَ.
اور ہمیں اس حالت میں موت آئے کہ ہم ہدایت یافتہ ہوں گمراہ نہ ہوں، فرمانبردار ہوں اور( موت سے) نفرت کرنے والے نہ ہوں، توبہ گزار ہوں خطا کار اور گناہ پر اصرار کرنے والے نہ ہوں، اے نیکو کاروں کے اجر و ثواب کا ذمہ لینے والے، اور بدکرداروں کے عمل و کردار کی اصلاح کرنے والے۔
–٭٭–
اس دنیا میں کوئی انسان یہ نہیں چاہتا کہ وہ اپنے املاک، باغات، مال و اثاثہ اور ساز و سامان راحت کو چھوڑ کر قبر کا تاریک گوشہ بسائے اور اس مادی زندگی سے رابطہ ختم کرکے موت سے رشتہ جوڑے۔ کیونکہ اس دنیائے رنگ و بو میں اتنی جاذبیت و کشش ہے کہ اسے اپنے اختیار سے چھوڑا نہیں جا سکتا اور ایک اپاہج اور مفلوج جو چل پھر نہیں سکتا اور ایک اندھا، بہرا، گونگا جو دیکھنے، سننے اور بولنے سے عاجز ہے وہ بھی یہی چاہتا ہے کہ جس حالت میں ہوں زندہ رہوں اور اگر کوئی شخص موت کا پیغام سن لیتا ہے تو اس کے دل و دماغ ماؤف اور ہوش و حواس معطل ہو جاتے ہیں۔چنانچہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک منجم نے کسی بادشاہ سے کہہ دیا کہ تم اتنے عرصہ کے بعد فلاں تاریخ اور فلاں وقت مر جاؤ گے۔ اس پیشین گوئی میں کوئی واقعیت ہو یا نہ ہو، مگر ہوا یہ کہ دنیا اس کی نگاہوں میں تیرہ و تار ہو گئی، اگرچہ پیشین گوئی کے مطابق زندگی کا کچھ عرصہ باقی تھا مگر اس نے کاروبار مملکت سے ہاتھ اٹھا لیا، تخت و تاج کو چھوڑ کر گوشہ گزیں ہو گیا اور ایسا محسوس کرنے لگا کہ ایک ایک رگ اور ایک ایک نس میں موت اپنا خونی پنجہ گڑوئے ہوئے ہے۔
یہ موت کا تصور اتنا بھیانک کیوں ہے؟
اگر انسان غور و فکر سے کام لے تو وہ اس حقیقت کو سمجھ لے گا کہ یہ زندگی ایک دوسری زندگی کا پیش خیمہ ہے، کیونکہ بگڑنا بننے ہی کیلئے ہوتا ہے اور جبکہ ہر غروب کے بعد طلوع، ہر خزاں کے بعد بہار اور ہر شام کے بعد صبح کی نمود ضروری ہے تو اس موت کے بعد زندگی کا ظہور کیوں نہ ہو۔ ایک دن وہ بھی تھا کہ انسان عدم کے اندھیرے میں پوشیدہ تھا کہ قدرت نے ایک غیر مرئی جرثومہ کی صورت میں اسے صلب پدر میں ودیعت کیا، وہاں سے شکم مادر میں منتقل ہوا جہاں کچھ مدت جماد کی صورت میں اور کچھ عرصہ لاشعوری کی حالت میں گزارا، پھر اس دنیا میں آیا جہاں کے راہ رسم سے ناواقف اور آنے کے مقصد سے بے خبر تھا تو اس کے بعد اگر منزل بدلے اور کروٹ لے کر ایک نئی زندگی میں قدم رکھے تو اس میں حیرت ہی کیا ہے؟۔ جب موت کے معنی ایک زندگی سے دوسری زندگی میں قدم رکھنے کے ہیں تو اس سے ڈرنے کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ ہاں اگر دوسری زندگی کو کامیاب بنانے کے اسباب مہیا نہ کئے گئے ہوں تو یقیناً ڈر ہو گا، مگر در حقیقت یہ موت کا ڈر نہیں ہے، بلکہ وہاں کی ناکامی و رسوائی کا ڈر ہے۔
اس لحاظ سے دنیا میں تین قسم کے لوگ ہیں:
ایک وہ جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ دنیا مزرعہ آخرت ہے جو یہاں پر بویا جائے گا وہی آخرت میں کاٹا جائے گا، اس لئے وہ مقصد حیات کے پیش نظر عمل آخرت سے غافل نہیں رہتے اور ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ آخرت کا کوئی کام ادھورا اور نامکمل نہ رہ جائے، تا کہ اللہ تعالیٰ انہیں انعام و اکرام کا مستحق سمجھے اور ان سے راضی و خوشنود ہو۔ اور جب انہیں موت آتی ہے تو وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ہم اتنی ہی مدت کیلئے یہاں بھیجے گئے تھے اور اب واپس بلائے جا رہے ہیں، اس لئے دنیا کو چھوڑنے کا انہیں ذرا بھی رنج نہیں ہوتا۔
دوسرے وہ جو زندگی سے خوش تو نہیں ہوتے مگر اسے چھوڑنا بھی نہیں چاہتے۔ جیسے وہ پرندہ جسے قفس میں ڈال دیا گیا ہو مگر وہ قفس کی زندگی کو ناگوار سمجھنے کے باوجود اسے چھوڑنا نہیں چاہتا، لیکن جب اسے قفس سے الگ کیا جاتا ہے تو وہ باہر کی کھلی فضا اور اس کی رونق و شادابی کو دیکھ کر دوبارہ اس قفس کی طرف پلٹنا نہیں چاہتا اور نہ اسے قفس کے چھوٹنے کا رنج ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ لوگ جب آخرت کی وسعت و پہنائی کو دیکھتے ہیں تو تنگنائے دنیا کو چھوڑنے کا انہیں صدمہ نہیں ہوتا، بلکہ کیف و مسرت کے عالم میں جھوم کر یہ کہنے لگتے ہیں:
﴿الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْٓ اَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۨ۳۴ۙ الَّذِيْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَۃِ مِنْ فَضْلِہٖ۰ۚ لَا يَمَسُّـنَا فِيْہَا نَصَبٌ وَّلَا يَمَسُّـنَا فِيْہَا لُغُوْبٌ۳۵﴾
اس اللہ تعالیٰ کیلئے شکر ہے جس نے ہم سے رنج و اندوہ دور کر دیا۔ بے شک ہمارا پروردگار بڑا بخشنے والا اور قدر دان ہے جس نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں ایک دائمی منزل میں اتارا جہاں نہ ہمیں کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ ہمیں خستگی لاحق ہو گی۔ [۱]
تیسرے وہ جو آخرت کی زندگی سے آنکھیں بند کرکے صرف دنیا کی زندگی پر قانع و مطمئن ہوتے ہیں اور انہیں دنیوی لذتوں اور کامرانیوں کے علاوہ اور کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ ایسے لوگوں کو دنیا سے منہ موڑنا انتہائی گراں گزرتا ہے اور آخرت کی زندگی انہیں راس نہیں آتی، بلکہ دنیا کی آلودگیوں اور کثافتوں کے بعد جب عالم آخرت کی لطافتوں اور نعمتوں کو دیکھیں گے تو وہ دنیا ہی کی گندگیوں کو یاد کریں گے اور جس طرح دنیا میں ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا تھا، اسی طرح آخرت میں بھی اندھے اور بصیرت سے محروم ہوں گے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:
﴿وَمَنْ كَانَ فِيْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰى فَھُو فِي الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًا۷۲﴾
جو دنیا میں اندھے ہیں وہ آخرت میں بھی اندھے اور راہ حق سے بھٹکے ہوئے ہوں گے۔ [۲]
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ سورۂ فاطر، آیت ۳۴
[۲]۔ سورۂ بنی اسرائیل، آیت ۷۲