38۔ عذر و مغفرت کے سلسلہ میں دعا
(۳۸) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
فِی الِاعْتِذَارِ مِنْ تَبِعَاتِ الْعِبَادِ وَ مِنَ التَّقْصِیْرِ فِیْ حُقُوْقِهِمْ وَ فِیْ فَكَاكِ رَقَبَتِهٖ مِنَ النَّارِ:
بندوں کی حق تلفی اور ان کے حقوق میں کوتاہی سے معذرت طلبی اور دوزخ سے گلو خلاصی کیلئے یہ دُعا پڑھتے:
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اَعْتَذِرُ اِلَیْكَ مِنْ مَّظْلُوْمٍ ظُلِمَ بِحَضْرَتِی فَلَمْ اَنْصُرْهُ، وَ مِنْ مَّعْرُوْفٍ اُسْدِیَ اِلَیَّ فَلَمْ اَشْكُرْهُ، وَ مِنْ مُّسِیْٓءٍ اعْتَذَرَ اِلَیَّ فَلَمْ اَعْذِرْهُ، وَ مِنْ ذِیْ فَاقَةٍ سَئَلَنِیْ فَلَمْ اُوْثِرْهُ، وَ مِنْ حَقِّ ذِیْ حَقٍّ لَّزِمَنِیْ لِمُؤْمِنٍ فَلَمْ اُوَفِّرْهُ، وَ مِنْ عَیْبِ مُؤْمِنٍ ظَهَرَ لِیْ فَلَمْ اَسْتُرْهُ، وَ مِنْ كُلِّ اِثْمٍ عَرَضَ لِیْ فَلَمْ اَهْجُرْهُ.
بارِالٰہا! میں اس مظلوم کی نسبت جس پر میرے سامنے ظلم کیا گیا ہو اور میں نے اس کی مدد نہ کی ہو، اور میرے ساتھ کوئی نیکی کی گئی ہو اور میں نے اس کا شکریہ ادا نہ کیا ہو، اور اس بدسلوکی کرنے والے کی بابت جس نے مجھ سے معذرت کی ہو اور میں نے اس کے عذر کو نہ مانا ہو، اور اس فاقہ کش کے بارے میں جس نے مجھ سے مانگا ہو اور میں نے اسے ترجیح نہ دی ہو، اور اس حقدار مومن کے حق کے متعلق جو میرے ذمہ ہو اور میں نے ادا نہ کیا ہو، اور اس مرد مومن کے بارے میں جس کا کوئی عیب مجھ پر ظاہر ہوا ہو اور میں نے اس پر پردہ نہ ڈالا ہو، اور ہر اس گناہ سے جس سے مجھے واسطہ پڑا ہو اور میں نے اس سے کنارہ کشی نہ کی ہو، تجھ سے عذر خواہ ہوں۔
اَعْتَذِرُ اِلَیْكَ- یَاۤ اِلٰهِیْ- مِنْهُنَّ وَ مِنْ نَظَآئِرِهِنَّ، اعْتِذَارَ نَدَامَةٍ یَّكُوْنُ وَاعِظًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنْ اَشْبَاهِهِنَّ.
بار الٰہا! میں ان تمام باتوں سے اور ان جیسی دوسری باتوں سے شرمساری و ندامت کے ساتھ ایسی معذرت کرتا ہوں جو میرے لئے ان جیسی پیش آیند چیزوں کیلئے پند و نصیحت کرنے والی ہو۔
فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اجْعَلْ نَدَامَتِیْ عَلٰى مَا وَقَعْتُ فِیْهِ مِنَ الزَّلَّاتِ، وَ عَزْمِیْ عَلٰى تَرْكِ مَا یَعْرِضُ لِیْ مِنَ السَّیِّئَاتِ، تَوْبَةً تُوْجِبُ لِیْ مَحَبَّتَكَ، یَا مُحِبَّ التَّوَّابِیْنَ.
تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ان لغزشوں سے جن سے میں دوچار ہوا ہوں میری پشیمانی کو، اور پیش آنے والی برائیوں سے دست بردار ہونے کے ارادہ کو ایسی توبہ قرار دے جو میرے لئے تیری محبت کا باعث ہو۔ اے توبہ کرنے والوں کو دوست رکھنے والے۔
–٭٭–
جب انسان کسی خطا کا مرتکب ہوتا ہے یا اس کے بارے میں ارتکابِ خطا کا شبہ کیا جاتا ہے تو وہ اس کے مؤاخذہ سے بچنے یا اس شبہ کے دفعیہ کیلئے جو عرض معروض کرتا ہے اسے ’’اعتذار‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ دُعا بھی بسلسلہ اعتذار ہے جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد سے عذر خواہی کی ہے۔
اعتذار تین طرح سے ہوتا ہے:
ایک یہ کہ عذر خواہ یہ کہے کہ میں نے اس کام کو کیا ہی نہیں ہے۔ اس صورت میں اس سے مؤاخذہ کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔
اور دوسری صورت یہ ہے کہ یہ کہے کہ میں نے یہ کام کیا ہے مگر ان وجوہ و اسباب سے۔ ایسی صورت میں ان وجوہ کا جائزہ لینے کے بعد اس کا عذر قابل تسلیم یا مسترد ہو سکتا ہے اور اسی اعتبار سے وہ جرم یا خطا سے بری متصور ہو گا۔
تیسری صورت یہ ہے کہ یہ کہے کہ میں نے یہ کام کیا تو ہے اور اس میں میرا سرا سر قصور ہے، لیکن میں یہ عہد کرتا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔ یہ معذرت طلبی ’’توبہ‘‘ کے معنیٰ میں ہے جو لغزش و خطا کے اعتراف اور آئندہ اس سے باز رہنے کے عہد پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہاں پر ’’اعتذار‘‘ اسی توبہ کے معنی میں ہے اور اس معنی کا شاہد یہ ارشاد الٰہی ہے:
﴿ہٰذَا يَوْمُ لَا يَنْطِقُوْنَ۳۵ۙ وَلَا يُؤْذَنُ لَہُمْ فَيَعْتَذِرُوْنَ۳۶﴾
یہ وہ دن ہو گا کہ لوگ زبان نہ ہلا سکیں گے اور نہ انہیں اجازت دی جائے گی کہ عذر معذرت کر سکیں۔[۱]
حضرتؑ نے اس دُعا کے چند جملوں میں تہذیبِ نفس و اصلاحِ اخلاق کی وہ تعلیمات بیان فرما دیئے ہیں جن کے زیرِ سایہ اسلام نے انسانی ذہنیت کی تعمیر کرنا چاہی تھی جو نہ صرف دینی لحاظ سے اہمیت رکھتے ہیں بلکہ اخلاقی اعتبار سے بھی ان کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ وہ لوگ جو بعض اسلامی افراد کے عمل سے اسلام کے دامن کو داغدار ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں وہ اس دُعا کو دیکھیں کہ کیا اخلاقی تربیت، باہمی تعاون و ہمدردی اور اصلاح معاشرہ کے ایسی تعلیمات کہیں اور بھی نظر آتے ہیں؟
پہلی تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی کمزور و لاچار ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہا ہو اور کوئی دوسرا شخص اس ظلم کی روک تھام کر سکتا ہو تو اس کی نصرت و حمایت کیلئے اسے سینہ سپر ہونا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو اسے ظالم کے پنجہ سے رہائی دلاناچاہیے، ورنہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل مؤاخذہ ہو گا۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
وَ مَا مِنْ مُّؤْمِنٍ يَّنْصُرُ اَخَاهُ وَ هُوَ يَقْدِرُ عَلٰى نُصْرَتِهٖ اِلَّا نَصَرَهُ اللّٰهُ فِی الْاٰخِرَةِ، وَ مَا مِنْ مُّؤْمِنٍ يَّخْذُلُ اَخَاهُ وَ هُوَ قَادِرٌ عَلٰى نُصْرَتِهٖ اِلَّا خَذَلَهُ اللّٰهُ فِی الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ.
جو مومن اپنے کسی برادر مومن کی نصرت پر قادر ہو اور وہ اس کی مدد کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی آخرت میں مدد کرے گا اور جو نصرت پر قدرت و اقتدار کے باوجود پہلو تہی کرے تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت میں اپنی نصرت سے محروم کر دے گا۔[۲]
دوسری تعلیم یہ ہے کہ جو شخص تم سے نیکی و احسان کرے تو جذبہ احسان شناسی کے پیش نظر اس کے حسن سلوک کا قولاً و عملاً شکریہ ادا کرو اور اگر عملاً ممکن نہ ہو تو زبانی شکریہ ادا کرنے میں بخل سے کام نہ لو۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
اُشْكُرْ لِمَنْ اَنْعَمَ عَلَيْكَ وَ اَنْعِمْ عَلٰى مَنْ شَكَرَكَ.
جو تم سے حسن سلوک کرے اس کا شکریہ ادا کرو اور جو تمہارا شکریہ ادا کرے اس سے حسن سلوک کرو۔[۳]
تیسری تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کسی غلطی سے معذرت کرے تو بلند ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کے عذر کو قبول کرو، کیونکہ عذر اعترافِ جرم کی علامت ہے اور اعتراف جرم کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے درگزر کیا جائے۔ چنانچہ ارشاد نبویؐ ہے:
مَنْ لَّمْ يَقْبَلِ الْعُذْرَ مِنْ مُّتَنَصِّلٍ صَادِقاً كَانَ اَوْ كَاذِبًا لَمْ تَنَلْہُ شَفَاعَتِیْ.
جو شخص عذر کرنے والے کے عذر کو قبول نہیں کرتا عام اس سے کہ وہ سچا ہو یا جھوٹا، وہ میری شفاعت سے محروم رہے گا۔[۴]
چوتھی تعلیم یہ ہے کہ جو محتاج اور سرو سامان معیشت سے محروم ہو اس کی اعانت و خبر گیری کرو۔ ایسا نہ ہو کہ خود عیش و آرام کی زندگی بسر کرو اور دوسروں کو فقر و فاقہ کی مصیبتیں اٹھانے کیلئے چھوڑ دو، بلکہ جوہر انسانیت یہ ہے کہ اپنی ذات پر دکھ جھیل لو، تنگی و عسرت میں بسر کر لو، مگر دوسروں کو فاقہ و گرسنگی میں دیکھنا گوارا نہ کرو۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:
﴿ وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ كَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌۣ﴾
وہ اپنے اوپر تنگی برداشت کرتے ہوئے دوسروں کو اپنے نفس پر ترجیح دیتے ہیں۔[۵]
پانچویں تعلیم یہ ہے کہ اہل ایمان کے جو حقوق تم پر عائد ہوتے ہیں انہیں ادا کرنے کی پوری پوری کوشش کرو۔ اس لئے کہ جس طرح آخرت میں حقوق اللہ کے متعلق پوچھا جائے گا، حقوق العباد کے متعلق بھی جواب دہ ہونا پڑے گا۔وہ حقوق کیا ہیں؟ انہیں صادق آلِ محمدﷺ کی زبان سے سنیئے۔ معلی ابن خنیس کہتے ہیں کہ میں نے حضرتؑ سے پوچھا کہ: ایک مومن کا دوسرے مومن پر کیا حق ہے؟ آپؑ نے فرمایا:
اَيْسَرُ حَقٍّ مِّنْهَاۤ اَنْ تُحِبَّ لَهٗ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ وَ تَكْرَهَ لَهٗ مَا تَكْرَهُ لِنَفْسِكَ، وَ الْحَقُّ الثَّانِیْ اَنْ تَجْتَنِبَ سَخَطَهٗ وَ تَتَّبِعَ مَرْضَاتَهٗ وَ تُطِيْعَ اَمْرَهٗ، وَ الْحَقُّ الثَّالِثُ اَنْ تُعِيْنَهٗ بِنَفْسِكَ وَ مَالِكَ وَ لِسَانِكَ وَ يَدِكَ وَ رِجْلِكَ، وَ الْحَقُّ الرَّابِعُ اَنْ تَكُوْنَ عَيْنَهٗ وَ دَلِيْلَهٗ وَ مِرْاٰتَهٗ، وَ الْحَقُّ الْخَامِسُ اَنْ لَّا تَشْبَعَ وَ يَجُوْعُ وَ لَا تَرْوٰى وَ يَظْمَاُ وَ لَا تَلْبَسَ وَ يَعْرٰى، وَ الْحَقُّ السَّادِسُ اَنْ يَّكُوْنَ لَكَ خَادِمٌ وَّ لَيْسَ لِاَخِيْكَ خَادِمٌ فَوَاجِبٌ عَلَیْكَ اَنْ تَبْعَثَ خَادِمَكَ فَيَغْسِلَ ثِيَابَهٗ وَ يَصْنَعَ طَعَامَهٗ وَ يَمْهَدَ فِرَاشَهٗ، وَ الْحَقُّ السَّابِعُ اَنْ تُبِرَّ قَسَمَهٗ وَ تُجِيْبَ دَعْوَتَهٗ وَ تَعُوْدَ مَرِيْضَهٗ وَ تَشْهَدَ جَنَازَتَهٗ وَ اِذَا عَلِمْتَ اَنَّ لَهٗ حَاجَةً تُبَادِرُهٗ اِلٰى قَضَآئِهَا وَ لَا تُلْجِئُهٗۤ اَنْ يَسْئَلَكَهَا وَ لٰكِنْ تُبَادِرُهُ مُبَادَرَةً.
پہلا حق یہ ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہ اس کیلئے بھی پسند کرو اور جو اپنے لئے نا پسند کرتے ہو وہ اس کیلئے بھی نا پسند کرو۔ دوسرا حق یہ ہے کہ اسے ناراض نہ کرو اور اس کی رضا و خوشنودی کو مدنظر رکھو اور اس کے فرمان کو پورا کرو۔ تیسرا حق یہ ہے کہ جان، مال، زبان اور ہاتھ پاؤں سے اس کی مدد کرو۔چوتھا حق یہ ہے کہ تم اس کیلئے نگران رہنما اور بمنزلہ آئینہ کے بنو (کہ اس کے عیوب و محاسن اسے دکھاتے رہو)۔ پانچواں حق یہ ہے کہ وہ بھوکا ہو تو تم سیر، وہ پیاسا ہو تو تم سیراب، وہ بے لباس ہو تو تم تن ڈھانکے ہوئے نہ ہو۔ چھٹا حق یہ ہے کہ تمہارے ہاں نوکر ہو اور اس کے ہاں نہ ہو تو ضروری ہے کہ تم اپنے ملازم کو بھیجو کہ وہ اس کا لباس دھوئے، کھانا تیار کرے اور بستر بچھائے۔ ساتواں حق یہ ہے کہ اس کی قسم پر اعتماد کرو، اس کی دعوت قبول کرو اس کے ہاں کوئی بیمار ہو تو بیمار پرسی کرو، اس کے جنازہ کی مشایعت کرو اور جب تمہیں علم ہو کہ اسے کوئی حاجت درپیش ہے تو اسے پورا کرنے میں جلدی کرو اور اس پر اسے مجبور نہ کرو کہ وہ تمہارے سامنے اپنی حاجت پیش کرے جب ہی تم اس کی حاجت روائی کرو۔ [۶]
امام علیہ السلام نے اس دُعا میں لفظ ’’مومن‘‘ کی قید لگا کر صرف اس حق کا ذکر کیا ہے جو اُخوت ایمانی کی وجہ سے عائد ہوتا ہے۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ جہاں اخوت ایمانی نہ ہو وہاں کوئی حق ہی نہیں ہے، جبکہ کافر کیلئے حق جوار ،حق امانت اور اس قبیل کے دوسرے حقوق ثابت ہیں۔ چنانچہ حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
اَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا وَ لَوْ كَانُوْا مَجُوْسًا.
امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچاؤ، اگرچہ وہ مجوسی ہی کیوں نہ ہوں۔ [۷]
چھٹی تعلیم یہ ہے کہ جس طرح اپنے عیوب کی پردہ پوشی کرتے ہو اسی طرح دوسرے اہل ایمان کے عیوب بھی چھپاؤ۔ چنانچہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے:
مَنْ قَالَ فِیْ مُؤْمِنٍ مَّا رَاَتْ عَيْنَاهُ وَ سَمِعَتْ اُذُنَاهُ مَا يَشِيْنُهٗ وَ يَهْدِمُ مُرُوَّتَهٗ فَهُوَ مِنَ الَّذِيْنَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ ؕ ﴾[۸]
جو شخص کسی مومن کے بارے ایسی بات کہے جو اسے ذلیل کرنے والی اور اس کی آبرو کو زائل کرنے والی ہو، اگرچہ اس نے آنکھوں سے دیکھی اور کانوں سے سنی ہو تو وہ ان لوگوں میں محسوب ہو گا جن کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے کہ: ’’جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمانداروں میں بری باتوں کا چرچا پھیلے تو ان کیلئے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘۔[۹]
[٭٭٭٭٭]
[۱]۔ سورۃ المرسلات، آیت ۳۵-۳۶
[۲]۔ ریاض السالکین، ج ۵، ص ۲۷۸
[۳]۔ ریاض السالکین، ج ۵، ص ۲۸۲
[۴]۔ ریاض السالکین، ج ۵، ص ۲۸۴
[۵]۔ سورۂ حشر، آیت ۹
[۶]۔ الکافی، ج ۲، ص ۱۶۹-ریاض السالکین، ج ۵، ص ۲۹۸
[۷]۔ ریاض السالکین، ج، 5 ص ۲۸۸
[۸]۔ سورۂ نور، آیت ۱۹
[۹]۔ ریاض السالکین، ج، ۵ ص ۲۹۱