صحیفہ کاملہ

42۔ دعائے ختم القرآن

(۴۲) وَ كَانَ مِنْ دُعَآئِهٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ

عِنْدَ خَتْمِ الْقُرْاٰنِ

دُعائے ختم القرآن:

اَللّٰهُمَّ اِنَّكَ اَعَنْتَنِیْ عَلٰى خَتْمِ كِتَابِكَ الَّذِیْۤ اَنْزَلْتَهٗ نُوْرًا، وَ جَعَلْتَهٗ مُهَیْمِنًا عَلٰى كُلِّ كِتَابٍ اَنْزَلْتَهٗ، وَ فَضَّلْتَهٗ عَلٰى كُلِّ حَدِیْثٍ قَصَصْتَهٗ، وَ فُرْقَانًا فَرَقْتَ بِهٖ بَیْنَ حَلَالِكَ وَ حَرَامِكَ، وَ قُرْاٰنًاۤ اَعْرَبْتَ بِهٖ عَنْ شَرَآئِعِ اَحْكَامِكَ، وَ كِتَابًا فَصَّلْتَهٗ لِعِبَادِكَ تَفْصِیْلًا، وَ وَحْیًاۤ اَنْزَلْتَهٗ عَلٰى نَبِیِّكَ مُحَمَّدٍ- صَلَوَاتُكَ عَلَیْهِ وَاٰلِهٖ- تَنْزِیْلًا.

بارالٰہا ! تو نے اپنی کتاب کے ختم کرنے پر میری مدد فرمائی، وہ کتاب جسے تو نے نور بناکر اتارا، اور تمام کتب سماویہ پر اسے گواہ بنایا، اور ہر اس کلام پر جسے تو نے بیان فرمایا اسے فوقیت بخشی، اور (حق و باطل میں) حد فاصل قرار دیا، جس کے ذریعہ حلال و حرام الگ الگ کر دیا، وہ قرآن جس کے ذریعہ شریعت کے احکام واضح کئے، وہ کتاب جسے تو نے اپنے بندوں کیلئے شرح و تفصیل سے بیان کیا، اور وہ وحی (آسمانی) جسے اپنے پیغمبر محمدﷺ پر نازل فرمایا۔

وَ جَعَلْتَهٗ نُوْرًا نَّهْتَدِیْ مِنْ ظُلَمِ الضَّلَالَةِ وَ الْجَهَالَةِ بِاتِّبَاعِهٖ، وَ شِفَآءً لِّمَنْ اَنْصَتَ بِفَهَمِ التَّصْدِیْقِ اِلَى اسْتِمَاعِهٖ، وَ مِیْزَانَ قِسْطٍ لَّا یَحِیْفُ عَنِ الْحَقِّ لِسَانُهٗ، وَ نُوْرَ هُدًى لَّا یَطْفَاُ عَنِ الشَّاهِدِیْنَ بُرْهَانُهٗ، وَ عَلَمَ نَجَاةٍ لَّا یَضِلُّ مَنْ اَمَّ قَصْدَ سُنَّتِهٖ، وَ لَا تَنَالُ اَیْدِی الْهَلَكَاتِ مَنْ تَعَلَّقَ بِعُرْوَةِ عِصْمَتِهٖ.

جسے وہ نور بنایا جس کی پیروی سے ہم گمراہی و جہالت کی تاریکیوں میں ہدایت حاصل کرتے ہیں، اور اس شخص کیلئے اسے شفا قرار دیا جو اس پر اعتقاد رکھتے ہوئے اسے سمجھنا چاہے اور خاموشی کے ساتھ اسے سنے، اور وہ عدل و انصاف کا ترازو بنایا جس کا کانٹا حق سے ادھر ادھر نہیں ہوتا، اور وہ نورِ ہدایت قرار دیا جس کی دلیل و برہان کی روشنی (توحید و نبوت کی) گواہی دینے والوں کیلئے بجھتی نہیں، اور وہ نجات کا نشان بنایا کہ جو اس کے سیدھے طریقہ پر چلنے کا ارادہ کرے وہ گمراہ نہیں ہوتا، اور جو اس کی ریسمان کے بندھن سے وابستہ ہو، وہ (خوف و فقر و عذاب کی) ہلاکتوں کے دسترس سے باہر ہو جاتا ہے۔

اَللّٰهُمَّ فَاِذْ اَفَدْتَنَا الْمَعُوْنَةَ عَلٰى تِلَاوَتِهٖ، وَ سَهَّلْتَ جَوَاسِیَ اَلْسِنَتِنَا بِحُسْنِ عِبَارَتِهٖ، فَاجْعَلْنَا مِمَّنْ یَّرْعَاهُ حَقَّ رِعَایَتِهٖ، وَ یَدِیْنُ لَكَ بِاعْتِقَادِ التَّسْلِیْمِ لِمُحْكَمِ اٰیَاتِهٖ، وَ یَفْزَعُ اِلَى الْاِقْرَارِ بِمُتَشَابِهِهٖ، وَ مُوْضَحَاتِ بَیِّنَاتِهٖ.

بار الٰہا! جبکہ تو نے اس کی تلاوت کے سلسلہ میں ہمیں مدد پہنچائی، اور اس کی حسن ادائیگی کیلئے ہماری زبان کی گرہیں کھول دیں، تو پھر ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے جو اس کی پوری طرح حفاظت و نگہداشت کرتے ہوں، اور اس کی محکم آیتوں کے اعتراف و تسلیم کی پختگی کے ساتھ تیری اطاعت کرتے ہوں، اور متشابہ آیتوں اور روشن و واضح دلیلوں کے اقرار کے سایہ میں پناہ لیتے ہوں۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّكَ اَنْزَلْتَهٗ عَلٰى نَبِیِّكَ مُحَمَّدٍ- صَلَّى اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اٰلِهٖ- مُجْمَلًا، وَ اَلْهَمْتَهٗ عِلْمَ عَجَآئِبِهٖ مُكَمَّلًا، وَ وَرَّثْتَنَا عِلْمَهٗ مُفَسَّرًا، وَ فَضَّلْتَنَا عَلٰى مَنْ جَهِلَ عِلْمَهٗ، وَ قَوَّیْتَنَا عَلَیْهِ لِتَرْفَعَنَا فَوْقَ مَنْ لَّمْ یُطِقْ حَمْلَهٗ.

اے اللہ! تو نے اسے اپنے پیغمبر محمدﷺ پر اجمال کے طور پر اتارا، اور اس کے عجائب و اسرار کا پورا پورا علم نہیں القا کیا، اور اس کے علم تفصیلی کا ہمیں وارث قرار دیا، اور جو اس کا علم نہیں رکھتے ان پر ہمیں فضیلت دی، اور اس کے مقتضیات پر عمل کرنے کی قوت بحشی، تاکہ جو اس کے حقائق کے متحمل نہیں ہو سکتے ان پر ہماری فوقیت و برتری ثابت کر دے۔

اَللّٰهُمَّ فَكَمَا جَعَلْتَ قُلُوْبَنَا لَهٗ حَمَلَةً، وَ عَرَّفْتَنَا بِرَحْمَتِكَ شَرَفَهٗ وَ فَضْلَهٗ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ الْخَطِیْبِ بِهٖ، وَ عَلٰى اٰلِهِ الْخُزَّانِ لَهٗ، وَ اجْعَلْنَا مِمَّنْ یَّعْتَرِفُ بِاَنَّهٗ مِنْ عِنْدِكَ، حَتّٰى لَا یُعَارِضَنَا الشَّكُّ فِیْ تَصْدِیْقِهٖ، وَ لَا یَخْتَلِجَنَا الزَّیْغُ عَنْ قَصْدِ طَرِیْقِهٖ.

اے اللہ! جس طرح تو نے ہمارے دلوں کو قرآن کا حامل بنایا، اور اپنی رحمت سے اس کے فضل و شرف سے آگاہ کیا، یونہی محمدﷺ پر جو قرآن کے خطبہ خواں اور ان کی آلؑ پر جو قرآن کے خزینہ دار ہیں رحمت نازل فرما، اور ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے جو یہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ تیری جانب سے ہے، تاکہ اس کی تصدیق میں ہمیں شک و شبہ لا حق نہ ہو، اور اس کے سیدھے راستہ سے روگردانی کا خیال بھی نہ آنے پائے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اجْعَلْنَا مِمَّنْ یَّعْتَصِمُ بِحَبْلِهٖ، وَ یَاْوِیْ مِنَ الْمُتَشَابِهَاتِ اِلٰى حِرْزِ مَعْقِلِهٖ، وَ یَسْكُنُ فِیْ ظِلِّ جَنَاحِهٖ، وَ یَهْتَدِیْ بِضَوْءِ صَبَاحِهٖ، وَ یَقْتَدِیْ بِتَبَلُّجِ اَسْفَارِهٖ، وَ یَسْتَصْبِـحُ بِمِصْبَاحِهٖ، وَ لَا یَلْتَمِسُ الْهُدٰى فِیْ غَیْرِهٖ.

اے اللہ ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے جو اس کی ریسمان سے وابستہ، اور مشتبہ امور میں اس کی محکم پناہ گاہ کا سہارا لیتے، اور اس کے پروں کے زیر سایہ منزل کرتے، اس کی صبح درخشاں کی روشنی سے ہدایت پاتے، اور اس کے نور کی درخشندگی کی پیروی کرتے، اور اس کے چراغ سے چراغ جلاتے ہیں، اور اس کے علاوہ کسی سے ہدایت کے طالب نہیں ہوتے۔

اَللّٰهُمَّ وَ كَمَا نَصَبْتَ بِهٖ مُحَمَّدًا عَلَمًا لِّلدَّلَالَةِ عَلَیْكَ، وَ اَنْهَجْتَ بِاٰلِهٖ سُبُلَ الرِّضَاۤ اِلَیْكَ، فَصَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اجْعَلِ الْقُرْاٰنَ وَسِیْلَةً لَناۤ اِلٰۤى اَشْرَفِ مَنَازِلِ الْكَرَامَةِ، وَ سُلَّمًا نَّعْرُجُ فِیْهِ اِلٰى مَحَلِّ السَّلَامَةِ، وَ سَبَبًا نُّجْزٰى بِهِ النَّجَاةَ فِیْ عَرْصَةِ الْقِیٰمَةِ، وَ ذَرِیْعَةً نَّقْدَمُ بِهَا عَلٰى نَعِیْمِ دَارِ الْمُقَامَةِ.

بار الٰہا! جس طرح تو نے اس قرآن کے ذریعہ محمدﷺ کو اپنی رہنمائی کا نشان بنایا ہے، اور ان کی آل علیہم السلام کے ذریعہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہیں آشکارا کی ہیں، یونہی محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ہمارے لئے قرآن کو عزت و بزرگی کی بلند پایہ منزلوں تک پہنچنے کا وسیلہ، اور سلامتی کے مقام تک بلند ہونے کا زینہ، اور میدان حشر میں نجات کو جزا میں پانے کا سبب، اور محل قیام (جنت) کی نعمتوں تک پہنچے کا ذریعہ قرار دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ احْطُطْ بِالْقُرْاٰنِ عَنَّا ثِقْلَ الْاَوْزَارِ، وَ هَبْ لَنا حُسْنَ شَمَآئِلِ الْاَبْرَارِ، وَ اقْفُ بِنَاۤ اٰثَارَ الَّذِیْنَ قَامُوْا لَكَ بِهٖۤ اٰنَآءَ اللَّیْلِ وَ اَطْرَافَ النَّهَارِ، حَتّٰى تُطَهِّرَنَا مِنْ كُلِّ دَنَسٍ بِتَطْهِیْرِهٖ، وَ تَقْفُوَ بِنَاۤ اٰثَارَ الَّذِیْنَ اسْتَضَآءُوْا بِنُوْرِهٖ، وَ لَمْ یُلْهِهِمُ الْاَمَلُ عَنِ الْعَمَلِ فَیَقْطَعَهُمْ بِخُدَعِ غُرُوْرِهٖ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور قرآن کے ذریعہ گناہوں کا بھاری بوجھ ہمارے سر سے اتار دے، اور نیکوکاروں کے اچھے خصائل و عادات ہمیں مرحمت فرما، اور ان لوگوں کے نقش قدم پر چلا جو تیرے لئے رات کے لمحوں اور صبح و شام ( کی ساعتوں ) میں اسے اپنا دستوار العمل بناتے ہیں، تاکہ اس کی تطہیر کے وسیلہ سے تو ہمیں ہر آلودگی سے پاک کر دے، اور ان لوگوں کے نقش قدم پر چلائے جنہوں نے اس کے نور سے روشنی حاصل کی ہے، اور امیدوں نے انہیں عمل سے غافل نہیں ہونے دیا کہ انہیں اپنے فریب کی نیزنگیوں سے تباہ کر دیں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اجْعَلِ الْقُرْاٰنَ لَنا فِیْ ظُلَمِ اللَّیَالِیْ مُوْنِسًا، وَ مِنْ نَّزَغَاتِ الشَّیْطٰنِ وَ خَطَرَاتِ الْوَسَاوِسِ حَارِسًا، وَ لِاَقْدَامِنَا عَنْ نَّقْلِهَاۤ اِلَى الْمَعَاصِیْ حَابِسًا، وَ لِاَلْسِنَتِنَا عَنِ الْخَوْضِ فِی الْبَاطِلِ مِنْ غَیْرِ مَا اٰفَةٍ مُّخْرِسًا، وَ لِجَوَارِحِنَا عَنِ اقْتِرَافِ الْاٰثَامِ زَاجِرًا، وَ لِمَا طَوَتِ الْغَفْلَةُ عَنَّا مِنْ تَصَفُّحِ الِاعْتِبَارِ نَاشِرًا، حَتّٰى تُوْصِلَ اِلٰى قُلُوْبِنَا فَهْمَ عَجَآئِـبِهٖ، وَ زَوَاجِرَ اَمْثَالِهِ الَّتِیْ ضَعُفَتِ الْجِبَالُ الرَّوَاسِیْ عَلٰى صَلَابَتِهَا عَنِ احْتِمَالِهٖ.

اے اللہ ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور قرآن کو رات کی تاریکیوں میں ہمارا مونس، اور شیطان کے مفسدوں اور دل میں گزرنے والے وسوسوں سے نگہبانی کرنے، اور ہمارے قدموں کو نافرمانیوں کی طرف بڑھنے سے روک دینے والا، اور ہماری زبانوں کو باطل پیمائیوں سے بغیر کسی مرض کے گنگ کر دینے والا، اور ہمارے اعضاء کو ارتکاب گناہ سے باز رکھنے والا، اور ہماری غفلت و مدہوشی نے جس دفتر عبرت و پند اندوزی کو تہ کر رکھا ہے اسے پھیلانے والا قرار دے، تاکہ اس کے عجائب و رموز کی حقیقتوں اور اس کی متنبہ کرنے والی مثالوں کو کہ جنہیں اٹھانے سے پہاڑ اپنے استحکام کے باوجود عاجز آ چکے ہیں ہمارے دلوں میں اتار دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اَدِمْ بِالْقُرْاٰنِ صَلَاحَ ظَاهِرِنَا، وَ احْجُبْ بِهٖ خَطَرَاتِ الْوَسَاوِسِ عَنْ صِحَّةِ ضَمَآئِرِنَا، وَ اغْسِلْ بِهٖ دَرَنَ قُلُوْبِنَا وَ عَلَآئِقَ اَوْزَارِنَا، وَ اجْمَعْ بِهٖ مُنْتَشَرَ اُمُوْرِنَا، وَ اَرْوِ بِهٖ فِیْ مَوْقِفِ الْعَرْضِ عَلَیْكَ ظَمَاَ هَوَاجِرِنَا، وَ اكْسُنَا بِهٖ حُلَلَ الْاَمَانِ یَوْمَ الْفَزَعِ الْاَكْبَرِ فِیْ نُشُوْرِنَا.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور قرآن کے ذریعہ ہمارے ظاہر کو ہمیشہ صلاح و رشد سے آراستہ رکھ، اور ہمارے ضمیر کی فطری سلامتی سے غلط تصورات کی دخل دراندازی کو روک دے، اور ہمارے دلوں کی کثافتوں اور گناہوں کی آلودگیوں کو دھو دے، اور اس کے ذریعہ ہمارے پراگندہ امور کی شیرازہ بندی کر، اور میدان حشر میں ہماری جھلستی ہوئی دوپہروں کی تپش و تشنگی بجھا دے، اور سخت خوف و ہراس کے دن جب قبروں سے اٹھیں تو ہمیں امن و عافیت کے جامے پہنا دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ اجْبُرْ بِالْقُرْاٰنِ خَلَّتَنَا مِنْ عَدَمِ الْاِمْلَاقِ، وَ سُقْ اِلَیْنَا بِهٖ رَغَدَ الْعَیْشِ وَ خِصْبَ سَعَةِ الْاَرْزَاقِ، وَ جَنِّبْنَا بِهِ الضَّرَآئِبَ الْمَذْمُوْمَةَ وَ مَدَانِیَ الْاَخْلَاقِ، وَ اعْصِمْنَا بِهٖ مِنْ هُوَّةِ الْكُفْرِ وَ دَوَاعِی النِّفَاقِ، حَتّٰى یَكُوْنَ لَنا فِی الْقِیٰمَةِ اِلٰى رِضْوَانِكَ وَ جِنَانِكَ قَآئِدًا، وَ لَنا فِی الدُّنْیَا عَنْ سُخْطِكَ وَ تَعَدِّیْ حُدُوْدِكَ ذَآئِدًا، وَ لِمَا عِنْدَكَ بِتَحْلِیْلِ حَلَالِهٖ وَ تَحْرِیْمِ حَرَامِهٖ شَاهِدًا.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور قرآن کے ذریعہ فقر و احتیاج کی وجہ سے ہماری خستگی و بدحالی کا تدارک فرما، اور زندگی کی کشائش اور فراخ روزی کی آسودگی کا رخ ہماری جانب پھیر دے، اور بُرے عادات اور پست اخلاق سے ہمیں دور کر دے، اور کفر کے گڑھے (میں گرنے) اور نفاق انگیز چیزوں سے بچالے، تاکہ وہ ہمیں قیامت میں تیری خوشنودی و جنت کی طرف بڑھانے والا، اور دنیا میں تیری ناراضگی اور حدود شکنی سے روکنے والا ہو، اور اس امر پر گواہ ہو کہ جو چیز تیرے نزدیک حلال تھی اسے حلال جانا، اور جو حرام تھی اسے حرام سمجھا۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ هَوِّنْ بِالْقُرْاٰنِ عِنْدَ الْمَوْتِ عَلٰۤى اَنْفُسِنَا كَرْبَ السِّیَاقِ، وَ جَهْدَ الْاَنِیْنِ، وَ تَرَادُفَ الْحَشَارِجِ اِذَا بَلَغَتِ النُّفُوْسُ التَّرَاقِیَ، وَ قِیْلَ مَنْ رّاقٍّ، وَ تَجَلّٰى مَلَكُ الْمَوْتِ لِقَبْضِهَا مِنْ حُجُبِ الْغُیُوْبِ، وَ رَمَاهَا عَنْ قَوْسِ الْمَنَایَا بِاَسْهُمِ وَحْشَةِ الْفِرَاقِ، وَ دَافَ لَهَا مِنْ ذُعَافِ الْمَوْتِ كَاْسًا مَّسْمُوْمَةَ الْمَذَاقِ، وَ دَنَا مِنَّاۤ اِلَى الْاٰخِرَةِ رَحِیْلٌ وَّ انْطِلَاقٌ، وَ صَارَتِ الْاَعْمَالُ قَلَآئِدَ فِی الْاَعْنَاقِ، وَ كَانَتِ الْقُبُوْرُ هِیَ الْمَاْوٰى اِلٰى مِیْقَاتِ یَوْمِ التَّلَاقِ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور اس قرآن کے وسیلہ سے موت کے ہنگام نزع کی اذیتوں، کراہنے کی سختیوں، اور جان کنی کی لگاتار ہچکیوں کو ہم پر آسان فرما، جبکہ جان گلے تک پہنچ جائے، اور کہا جائے کہ کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے (جو کچھ تدراک کرے)، اور ملک الموت غیب کے پردے چیر کر قبض روح کیلئے سامنے آئے، اور موت کی کمان میں فراق کی دہشت کے تیر جوڑ کر اپنے نشانہ کی زد پر رکھ لے، اور موت کے زہریلے جام میں زہر ہلاہل گھول دے، اور آخرت کی طرف ہمارا چل چلاؤ اور کوچ قریب ہو، اور ہمارے اعمال ہماری گردن کا طوق بن جائیں، اور قبریں روز حشر کی ساعت تک آرام گاہ قرار پائیں۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ بَارِكْ لَنا فِیْ حُلُوْلِ دَارِ الْبِلٰى، وَ طُوْلِ الْمُقَامَةِ بَیْنَ اَطْبَاقِ الثَّرٰى، وَ اجْعَلِ الْقُبُوْرَ بَعْدَ فِرَاقِ الدُّنْیَا خَیْرَ مَنَازِلِنَا، وَ افْسَحْ لَنا بِرَحْمَتِكَ فِیْ ضِیْقِ مَلَاحِدِنَا، وَ لَا تَفْضَحْنَا فِیْ حَاضِرِی الْقِیٰمَةِ بِمُوْبِقَاتِ اٰثَامِنَا، وَ ارْحَمْ بِالْقُرْاٰنِ فِیْ مَوْقِفِ الْعَرْضِ عَلَیْكَ ذُلَّ مَقَامِنَا، وَ ثَبِّتْ بِهٖ عِنْدَ اضْطِرَابِ جِسْرِ جَهَنَّمَ یَوْمَ الْمَجَازِ عَلَیْهَا زَلَلَ اَقْدَامِنَا، وَ نَوِّرْ بِهٖ قَبْلَ الْبَعْثِ سُدَفَ قُبُوْرِنَا، وَ نَجِّنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ كَرْبٍ یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ، وَ شَدَآئِدِ اَهْوَالِ یَوْمِ الطَّامَّةِ، وَ بَیِّضْ وُجُوْهَنَا یَوْمَ تَسْوَدُّ وُجُوْهُ الظَّلَمَةِ فِیْ یَوْمِ الْحَسْرَةِ وَ النَّدَامَةِ، وَ اجْعَلْ لَنا فِیْ صُدُوْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ وُدًّا، وَ لَا تَجْعَلِ الْحَیَاةَ عَلَیْنَا نَكَدًا.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور کہنگی و بوسیدگی کے گھر میں اترنے، اور مٹی کی تہوں میں مدت تک پڑے رہنے کو ہمارے لئے مبارک کرنا، اور دنیا سے منہ موڑنے کے بعد قبروں کو ہمارا اچھا گھر بنانا، اور اپنی رحمت سے ہمارے لئے گور کی تنگی کو کشادہ کر دینا، اور حشر کے عام اجتماع کے سامنے ہمارے مہلک گناہوں کی وجہ سے ہمیں رسوا نہ کرنا، اور اعمال کے پیش ہونے کے مقام پر ہماری ذلت و خواری کی وضع پر رحم فرمانا، اور جس دن جہنم کے پل پر سے گزرنا ہو گا تو اس کے لڑکھڑانے کے وقت ہمارے ڈگمگاتے ہوئے قدموں کو جما دینا، (اور اس کے ذریعہ قیامت سے پہلے ہماری قبروں کی تاریکی کو روشنی میں بدل دے) اور قیامت کے دن ہمیں اس کے ذریعہ ہر اندوہ اور روز حشر کی سخت ہولناکیوں سے نجات دینا، اور جبکہ حسرت و ندامت کے دن ظالموں کے چہرے سیاہ ہوں گے ہمارے چہروں کو نورانی کرنا، اور مومنین کے دلوں میں ہماری محبت پیدا کر دے، اور زندگی کو ہمارے لئے دشوار گزار نہ بنا۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَ رَسُوْلِكَ، كَمَا بَلَّغَ رِسَالَتَكَ، وَ صَدَعَ بِاَمْرِكَ، وَ نَصَحَ لِعِبَادِكَ.

اے اللہ! محمد ﷺ جو تیرے خاص بندے اور رسول ہیں ان پر رحمت نازل فرما جس طرح انہوں نے تیرا پیغام پہنچایا، تیری شریعت کو واضح طور سے پیش کیا اور تیرے بندوں کو پند و نصیحت کی۔

اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ نَبِیَّنَا- صَلَوَاتُكَ عَلَیْهِ وَ عَلٰۤى اٰلِهٖ- یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَقْرَبَ الْنَّبِیِّیْنَ مِنْكَ مَجْلِسًا، وَ اَمْكَنَهُمْ مِنْكَ شَفَاعَةً، وَ اَجَلَّهُمْ عِنْدَكَ قَدْرًا، وَ اَوْجَهَهُمْ عِنْدَكَ جَاهًا.

اے اللہ! ہمارے نبی ﷺ کو قیامت کے دن تمام نبیوں سے منزلت کے لحاظ سے مقرب تر، شفاعت کے لحاظ سے برتر، قدرو منزلت کے اعتبار سے بزرگ تر اور جاہ و مرتبت کے اعتبار سے ممتاز تر قرار دے۔

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ شَرِّفْ بُنْیَانَهٗ، وَ عَظِّمْ بُرْهَانَهٗ، وَ ثَقِّلْ مِیْزَانَهٗ، وَ تَقَبَّلْ شَفَاعَتَهٗ، وَ قَرِّبْ وَسِیْلَـتَهٗ، وَ بَیِّضْ وَجْهَهٗ، وَ اَتِمَّ نُوْرَهٗ، وَ ارْفَعْ دَرَجَتَهٗ، وَ اَحْیِنَا عَلٰى سُنَّتِهٖ، وَ تَوَفَّنَا عَلٰى مِلَّتِهٖ، وَ خُذْ بِنَا مِنْهَاجَهٗ، وَ اسْلُكْ بِنَا سَبِیْلَهٗ، وَ اجْعَلْنَا مِنْ اَهْلِ طَاعَتِهٖ، وَ احْشُرْنَا فِیْ زُمْرَتِهٖ، وَ اَوْرِدْنَا حَوْضَهٗ، وَ اسْقِنَا بِكَاْسِهٖ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ان کے ایوان (عزو شرف) کو بلند، ان کی دلیل و برہان کو عظیم، اور ان کے میزان (عمل کے پلہ) کو بھاری کر دے، ان کی شفاعت کو قبول فرما، اور ان کی منزلت کو اپنے سے قریب کر، ان کے چہرے کو روشن، ان کے نور کو کامل اور ان کے درجہ کو بلند فرما، اور ہمیں انہی کے آئین پر زندہ رکھ، اور انہی کے دین پر موت دے، اور انہی کی شاہراہ پر گامزن کر، اور انہی کے راستہ پر چلا، اور ہمیں ان کے فرمانبرداروں میں سے قرار دے، اور ان کی جماعت میں محشور کر، اور ان کے حوض پر اتار، اور ان کے ساغر سے سیراب فرما۔

وَ صَلِّ اللّٰهُمَّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَ اٰلِهٖ، صَلَاةً تُبَلِّغُهٗ بِهَاۤ اَفْضَلَ مَا یَاْمُلُ مِنْ خَیْرِكَ وَ فَضْلِكَ وَ كَرَامَتِكَ، اِنَّكَ ذُوْ رَحْمَةٍ وَّاسِعَةٍ، وَ فَضْلٍ كَرِیْمٍ.

اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر ایسی رحمت نازل فرما جس کے ذریعہ انہیں بہترین نیکی، فضل اور عزت تک پہنچا دے جس کے وہ امیدوار ہیں، اس لئے کہ تو وسیع رحمت اور عظیم فضل و احسان کا مالک ہے۔

اَللّٰهُمَّ اجْزِهٖ بِمَا بَلَّغَ مِنْ رِسَالَاتِكَ، وَ اَدّٰى مِنْ اٰیَاتِكَ، وَ نَصَحَ لِعِبَادِكَ، وَ جَاهَدَ فِیْ سَبِیْلِكَ، اَفْضَلَ مَا جَزَیْتَ اَحَدًا مِّنْ مَّلٰٓئِكَتِكَ الْمُقَرَّبِیْنَ، وَ اَنبِیَآئِكَ الْمُرْسَلِیْنَ الْمُصْطَفَیْنَ، وَ السَّلَامُ عَلَیْهِ وَ عَلٰۤى اٰلِهِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهِرِیْنَ، وَ رَحْمَةُ اللّٰهِ وَ بَرَكَاتُهٗ.

اے اللہ! انہوں نے جو تیرے پیغامات کی تبلیغ کی، تیری آیتوں کو پہنچایا، تیرے بندوں کو پند و نصیحت کی اور تیری راہ میں جہاد کیا، ان سب کی انہیں جزا دے، جو ہر اس جزا سے بہتر ہو، جو تو نے مقرب فرشتوں اور برگزیدہ مرسل نبیوں کو عطا کی ہو، ان پر اور ان کی پاک و پاکیزہ آلؑ پر سلام ہو، اور اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں ان کے شامل حال ہوں۔

–٭٭–

یہ دُعا، ’’دُعائے ختم قرآن‘‘ کے نام سے موسوم ہے جسے امام علیہ السلام قرآن مجید ختم کرنے کے بعد پڑھتے تھے۔ لہٰذا اس دُعا کو ختم قرآن کے بعد پڑھنا چاہیے۔ قرآن مجيد پند و نصائح، حکم و مواعظ، عبر و امثال اور احکام شريعت کا سرچشمہ ہے، اس لئے اسے پڑھنا، سننا اور اس میں غور و فکر کرنا ہماری زندگی کا معمول ہونا چاہیے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:

﴿فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ﴾

جتنا بآسانی قرآن پڑھ سکو اتنا پڑھ لیا کرو۔ [۱]

اس سلسلہ میں احادیث بھی بڑی کثرت سے وارد ہوئی ہیں جن میں تلاوت قرآن کے اجر و ثواب کا ذکر اور اس کے مرغوب و مطلوب ہونے کا تذکرہ ہے۔ چنانچہ حضرت امام حسین ابن علی علیہ السلام کا ارشاد ہے:

مَنْ قَرَاَ اٰيَةً مِّنْ كَلَامِ اللّٰهِ تَعَالٰى عَزَّ وَ جَلَّ فِیْ صَلٰوتِهٖ قَآئِمًا يَّكْتُبُ اللّٰهُ لَهٗ‏ بِكُلِّ حَرْفٍ مِّائَةَ حَسَنَةٍ، فَاِنْ قَرَاَهَا فِیْ غَيْرِ الصَّلٰوةِ كَتَبَ اللّٰهُ لَهٗ بِكُلِّ حَرْفٍ عَشْرًا، فَاِنِ اسْتَمَعَ الْقُرْاٰنَ كَانَ لَهٗ بِكُلِّ حَرْفٍ حَسَنَةٌ، وَ اِنْ خَتَمَ الْقُرْاٰنَ لَيْلًا صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَلٰٓئِكَةُ حَتّٰى يُصْبِحَ، وَ اِنْ خَتَمَهٗ نَهَارًا صَلَّتْ عَلَيْهِ الْحَفَظَةُ حَتّٰى يُمْسِیَ وَ كَانَتْ لَهُ دَعْوَةٌ مُّجَابَةٌ وَّ كَانَ خَيْرًا لَّهٗ مِمَّا بَيْنَ السَّمَآءِ اِلَى الْاَرْضِ.

جو شخص قيام نماز میں قرآن مجید کی ایک آیت کی تلاوت کرے اس کے نامۂ اعمال میں ہر حرف کے بدلے سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اگر نماز کے علاوہ پڑھے تو خداوند عالم ہر حرف کے بدلے میں دس نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں ثبت کرتا ہے اور اگر صرف قرآن کو سنے تو بھی اللہ ہر حرف کے بدلے میں نیکی لکھتا ہے اور اگر قرآن رات کے وقت ختم کرے تو صبح تک فرشتے اس کیلئے دعائے رحمت کرتے ہیں اور اگر دن کو ختم کرے تو شام تک حفاظت کرنے والے ملائکہ اس پر درود و رحمت بھیجتے ہیں اور اس کی دُعا قبول ہوتی ہے اور یہ اس کیلئے ہر اس چیز سے بہتر ہے جو زمین و آسمان کے درمیان ہے۔ [۲]

مقصد تلاوت صرف یہ نہیں ہے کہ زبان پر الفاظ قرآن جاری ہو جائیں، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ ان الفاظ کے ذریعہ قرآن کے تعلیمات دل و دماغ میں محفوظ ہو جائیں اور اخلاقی و روحانی افادیت اور علمی و عملی بصیرت کا باعث ہوں اور زندگی کو حق و صداقت کے سانچہ میں ڈھال دیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ تلاوت کے موقع پر ان آداب و شرائط کو ملحوظ رکھا جائے جو اس مقصد کے حصول میں معین ثابت ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ آداب کچھ ظاہر سے متعلق ہیں اور کچھ باطن سے۔

ظاہری آداب یہ ہیں کہ تلاوت کے وقت با وضو اور رو بقبلہ ہو، ادب و احترام کے ساتھ قرآن مجید کو کھول کر سامنے رکھے اور تلاوت سے پہلے "اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ” کہے اور آواز کو نہ زیادہ اونچا کرے اور نہ زیادہ دھیما۔ البتہ اگر نمود و ریا کا اندیشہ ہو تو پھر چپکے چپکے پڑھے۔ مخارج حروف کا لحاظ رکھے۔ وقف کے محل پر وقف کرے۔ ٹھہر ٹھہر کر اس کے جملے ادا کرے اور ممکن ہو تو خوش الحانی سے تلاوت کرے مگر آواز میں اتار چڑھاؤ اور غنا کی کیفیت پیدا نہ ہونے پائے چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:

اِقْرَءُوا الْقُرْاٰنَ بِاَلْحَانِ الْعَرَبِ وَ اَصْوَاتِهَا، وَ اِيَّاكُمْ وَ لُحُوْنَ اَهْلِ الْفِسْقِ وَ اَهْلِ الْكَبَآئِرِ.

قرآن کو عرب کے لحن اور لب و لہجہ میں پڑھو اور فاسقوں اور گنہگاروں کے طرز و لحن میں نہ پڑھو۔ [۳]

جب دوران تلاوت میں ایسی آیت پر نظر پڑے جو عذاب و وعید پر مشتمل ہو تو اللہ تعالیٰ کے غضب سے پناہ مانگے۔اور عالم آخرت کی کسی نعمت و بخشائش کا ذکر آئے تو اس کیلئے اللہ تعالیٰ کے سامنے دامن پھیلائے۔ دُعا و استغفار کے سلسلہ میں کوئی آیت آئے تو دُعا و استغفار کرے آیہ سجدہ پڑھے تو فورا سجدہ کرے اور تین دن سے کم عرصہ میں پورے قرآن کو ختم نہ کرے اور جب کوئی سورة ختم کرے تو یہ کہے: "صَدَقَ اللهُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ وَ بَلَّغَ رَسُوْلُہُ الْکَرِیْمُ، اَللّٰھُمَّ انْفَعْنَا بِہٖ وَ بَارِكْ لَنَا فِیْہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَلَمِیْنَ”.

اور جب پورے قرآن کو ختم کرے تو دُعائے ختم القرآن پڑھے۔ یہ آداب وہ ہیں جن کا تعلق صرف ظاہر سے ہے۔

اور وہ آداب جن کا تعلق ضمیر و وجدان اور باطن سے ہے یہ ہیں:

پہلے یہ کہ قرآن مجید کی عظمت و تقدیس کو نظر میں رکھے اور اس کا عام کتابوں کی طرح مطالعہ نہ کرے، بلکہ اپنے ذہن میں یہ تصور قائم کرے کہ یہ کتاب جو اس وقت ایک مجموعہ کی صورت میں اس کی نگاہوں کے سامنے ہے، ایک وقت لوح محفوظ کی زینت تھی جو ملک امین کے ذریعہ نبی اکرم ﷺ کے قلب مبارک پر نازل ہوئی اور پھر ان کی زبان سے نکل کر فصحائے عالم کو گنگ کرتی ہوئی اس تک پہنچی ہے۔ جب یہ عظمت دل میں گھر کر لے گی تو فکر و نظر کی راہ آسان ہو جائے گی اور ایک ایسی صحت مند ذہنیت تشکیل پا جائے گی جو اخلاق و روحانیت کے اثرات کو قبول کرنے پر آمادہ کر دے گی۔

دوسرے یہ کہ اس کے نازل کرنے والے کی عظمت و جلال کا تصور کرے کہ جو عرش و لوح، زمین و آسمان، چاند، سورج، دریا، پہاڑ، غرض کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے اور ہر عظیم سے عظیم تر اور ہر عظمت سے اس کی عظمت بالاتر ہے اور جب اس کی عظمت سے متاثر ہو کر اس کی تلاوت کی جائے گی تو اس کے قصص و مثال اور حکم و نصائح پوری طرح دل و دماغ کو متاثر کریں گے۔

تیسرے یہ کہ سوز و گداز، رقت قلب اور خضوع و خشوع کے ساتھ اس کی تلاوت کرے۔ اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب دل، اللہ تعالیٰ اور اس کلام کی عظمت سے متاثر ہو۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

مَنْ قَرَاَ الْقُرْاٰنَ وَ لَمْ يَخْضَعْ لِلّٰهِ وَ لَمْ يَرِقَّ قَلْبُهٗ وَ لَا يُنْشِئُ حَزَنًا وَّ وَجَلًا فِیْ سِرِّهٖ فَقَدِ اسْتَهَانَ بِعِظَمِ شَاْنِ اللّٰهِ تَعَالٰى وَ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِيْنًا.

جو شخص قرآن کی تلاوت کرے اور اس کے دل میں انکساری اور رقت کے جذبات اور ضمیر میں حزن و خوف کے کیفیات پیدا نہ ہوں تو اس نے اللہ تعالیٰ کی عظمت و منزلت کو سبک سمجھا اور سراسر نقصان میں رہا۔ [۴]

چوتھے یہ کہ شیطانی و سواس و خطرات اور فاسد خیالات کو اپنے دل سے دور رکھے تا کہ توجہ و حضور قلب حاصل ہو سکے، کیونکہ توجہ و انہماک نہ ہو تو تلاوت کی افادیت کمزور و مضمحل ہو جاتی ہے۔

پانچویں یہ کہ تلاوت کے وقت قرآن مجید کے ہر گوشہ پر نظر رکھے۔ اس کے مطالب و مقاصد کو سمجھے اور سمجھنے کے بعد انہیں ذہن نشین کرے، تا کہ معانی و معارف کا سرمایہ دل و دماغ میں فراہم ہوتا رہے اور فہم و تدبر کی راہیں کھلتی رہیں۔ اور جب غور و فکر کا سر رشتہ ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور طبیعت اس طرف متوجہ نہیں ہوتی تو صلاحیت مردہ اور دل زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

﴿اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا۝۲۴﴾

قرآن میں کچھ بھی تو غور نہیں کرتے یا یہ کہ ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ [۵]

چھٹے یہ کہ صرف ظاہر معنی کے جاننے پر اکتفا نہ کرے، اس طرح کہ خالق کے معنی پیدا کرنے والے اور رازق کے معنی رزق دینے والے کے ہیں، بلکہ جن آیتوں میں اس کے اسماء و صفات اور مختلف افعال کا تذکرہ ہے ان میں غور و تدبر کرے کہ وہ خالق ہے تو اس کی خالقیت کی نوعیت کیا ہے اور کس طرح بغیر کسی مواد اور بغیر کسی نمونہ کے مختلف الانواع پیکر خلق کئے، اور رازق ہے تو اس کی رزاقیت کا دائرہ کتنا وسیع ہے کہ سمندر کی تہہ میں رہنے والے، فضا میں اڑنے والے، پہاڑوں کی کھوؤں میں بسنے والے سب ہی کو رزق مل رہا ہے اور شکم مادر میں کروٹیں بدلنے والے اور مفلوج و بے دست و پا تک کو روزی حاصل ہو رہی ہے۔ جوں جوں انسان اس کے صفات میں غور و فکر کرے گا اس کا تصور و ادراک اپنی درماندگی کا اعتراف کرے گا اور یہ اعتراف معرفت کے حدود سے قریب کر دے گا۔

ساتویں یہ کہ جو امور فہم قرآن سے مانع ہوتے ہیں ان کا قلع قمع کرے۔ ان موانع میں سے چند یہ ہیں:

۱۔ تقلید و تعصب:

جب انسان کورانہ تقلید اور عصبیت کا شکار ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجہ میں ایک مسلک کی جنبہ داری چاہے وہ کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو اس کا وتیرہ بن جاتی ہے اور قرآن کو کھینچ تان کر اپنی رائے کے مطابق کرنے کی کوشش کرے گا اور قرآن کے واضح مفہوم کو نظر انداز کرکے خود ساختہ مطلب کو ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دے گا اور یہ کج فکری اس کی طبیعت میں اس طرح رچ بس جائے گی کہ طبیعت ثانیہ بن جائے گی اور اب اسے سیدھی سے سیدھی بات بھی ٹیڑھی اور ٹیڑھی سے ٹیڑھی بات بھی سیدھی دکھائی دے گی۔

۲۔ فکری جمود:

اس سے ذہن کی انجلائی کیفیت ختم اور فکر و کاوش کی قوت معطل ہو جاتی ہے اور وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ بس جو مفسرین نے لکھ دیا ہے وہی صحیح ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی تفسیر نہیں ہو سکتی اور وہ غور و فکر سے ہاتھ اٹھا کر انہی کے اقوال پر قانع ہو جاتا ہے۔

۳۔ اصرار معاصی:

یہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے، کیونکہ گناہوں کے پیہم ارتکاب سے صفا و نورانیت ختم ہو جاتی ہے اور دل پر تاریکی و ظلمت کی ایسی تہیں چڑھ جاتی ہیں کہ حقائق و معارف کی روشنی کا ان میں گزر نہیں ہو سکتا۔

۴۔ سطحی انہماک:

اس طرح کہ حروف اور ان کے مخارج وغیرہ کی تحقیق ہی پر اپنی توجہ کو منحصر کر دے اور جب توجہ انہی چیزوں کی طرف ہو گی تو معانی و مطالب کی طرف توجہ مبذول کرنے کا موقع ہی نہ ملے گا۔ یہ لوگ سطح دریا کے دلکش مناظر میں اس طرح کھو جاتے ہیں کہ انہیں یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ اس کی تہہ میں کتنے خزانے مخفی ہیں کہ وہ موجوں سے کھیلیں اور لہروں سے ٹکرائیں اور اپنے دامن کو موتیوں سے بھریں۔

آٹھویں یہ کہ قرآن کے حکم و مواعظ اور قصص و امثال پر غور کرے اور اس کے عبرت و نصیحت کے پہلوؤں کو دیکھے تو ان سے عبرت و نصیحت حاصل کرے اور ایسے موارد میں قدرت نے جہاں جہاں خطاب کیا ہے یہ تصور کرے کہ یہ خطاب اسی سے ہے۔ لہٰذا اس سے اسی طرح اثر لے جس طرح کسی فرمانروا کے فرمان کو پڑھ کر اثر لیا جاتا ہے اور اس پر ہر ممکن طریقہ سے عمل کیا جاتا ہے تا کہ سلطانی قہر و غضب کی زد میں نہ آئے۔

نویں یہ کہ جب کسی ایسی آیت کی تلاوت کرے جس میں تہدید و سرزنش ہو تو اس پر خوف و ہراس چھا جائے اور جب ایسی آیت کی تلاوت کرے جس میں رحمت و مغفرت اور نعیم جنت کا تذکرہ ہو تو اس کے اندر امید و رجاء اور مسرت و انبساط کی روح دوڑنے لگے۔

دسویں یہ کہ تلاوت کے موقع پر یہ سمجھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہے۔ اگر یہ اسے نہیں دیکھ سکتا مگر وہ اسے دیکھ رہا ہے اور گوش بر آواز ہے۔ جب اس تصور کے قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر یہ تصور کرے کہ خداوند عالم اس قرآن کے ذریعہ اس سے مخاطب ہے اور اسے اچھائیوں کا حکم دے رہا ہے اور برائیوں سے روک رہا ہے۔ جب اس منزل تک پہنچ جائے تو پھر اسی کو اپنے تصورات و خیالات کا مرکز بنائے۔اس حد تک کہ فکر و خیال میں اس کے علاوہ کسی اور کی گنجائش نہ رہے، نہ اپنی ذات کی طرف نہ اپنے مال کی طرف اور نہ اہل و عیال کی طرف اور کلام کے پردہ میں متکلم سے لو لگائے۔ کیونکہ اس کا کلام اس کا آئینہ دار ہے۔ چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:

﴿وَ اللهِ! لَقَدْ تَجَلَّى اللّٰهُ لِخَلْقِهِ فِیْ كَلَامِهٖ وَ لَكِنْ لَّا يُبْصِرُوْنَ﴾

خدا کی قسم! قدرت اپنے کلام کے اندر اپنی مخلوقات کیلئے جلوہ گر ہے، لیکن وہ دیکھتے نہیں ہیں۔ [۶]

گیارہویں یہ کہ جب کسی ایسی آیت کی تلاوت کرے جس میں نیکو کاروں کا تذکرہ اور ان کی مدح و توصیف ہو تو اپنے کو ان میں شمار نہ کرے اور نہ ان صفتوں کو اپنے پر منطبق کرنے کی کوشش کرے، بلکہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ سے دُعا کرے کہ وہ مومنین کے صفات سے متصف ہو اور اللہ تعالیٰ اسے اہل صدق و صفا میں سے قرار دے۔ اور جب کسی ایسی آیت کی تلاوت کرے جس میں نا فرمانوں اور گنہگاروں کی مذمت ہو تو یہ سمجھے کہ جن لوگوں سے یہ خطاب ہے اور جنہیں یہ تنبیہہ و سرزنش کی جا رہی ہے ان میں ایک فرد وہ بھی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے توبہ و انابت کرے، گناہوں سے مغفرت چاہے اور حسن عمل کی توفیق مانگے، تا کہ خداوند عالم اسے قرآن پر عمل کرنے والوں میں شمار کرے اور شفاعت قرآن اسے نصیب کرے۔

[٭٭٭٭٭]

[۱]۔ سورۂ مزمل، آیت ۲۰

[۲]۔ عدۃ الداعی، ص ۲۸۷

[۳]۔ الکافی، ج ۲ ص ۶۱۴

[۴]۔ مصباح الشریعہ، ص ۲۸

[۵]۔ سورۂ محمدؐ، آیت ۲۴

[۶]۔ تفسیر الصافی، ج ۱، ص ۷۳

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button